جعفر ایکسپریس پر حملہ: 60 یرغمال مسافر رہا، سکیورٹی فورسز کی کارروائی جاری

image
بلوچستان کے درہ بولان سے گزرنے والی ایک مسافر ٹرین پر عسکریت پسندوں کی جانب سے حملہ کیا گیا ہے، جس میں انجن ڈرائیور سمیت متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔

پاکستان کے سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ علاقے میں فورسز کی کارروائی جاری ہے۔ ’دہشت گردوں نے معصوم مسافروں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔‘

ریلوے حکام کے مطابق 06 سے 70 مسافروں کو رہا کردیا گیا جو جائے وقوعہ سے پانچ کلومیٹر دور پنیر ریلوے سٹیشن پر پہنچ گئے ہیں۔

حکام نے بتایا ہے کہ رہا کیے گئے افراد میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں جو بلوچستان کے مقامی باشندے بتائے جا رہے ہیں۔

قبل ازیں کوئٹہ ڈویژن کے ریلوے کنٹرولر محمد کاشف نے اردو نیوز کو بتایا کہ حملے کے باعث ٹرین پہاڑی کے اندر بنی ہوئی سرنگ میں رُک گئی ہے۔

انہوں نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مسافر ٹرین کوئٹہ سے راولپنڈی اور پشاور جا رہی تھی جس میں سینکڑوں مسافر سوار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ٹرین ضلع کچھی (بولان) کے علاقے مشکاف سے نکل کر سبی کی طرف روانہ تھی، جس پر سبی سے تقریباً 33 کلومیٹر پہلے ضلع کچھی کی حدود میں سرنگ نمبر آٹھ کے قریب حملہ ہوا۔

ریلوے کنٹرولر کے مطابق ’اس دوران مسافر ٹرین کے عملے سے ہمارا رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ شدید فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس میں ٹرین کے انجن ڈرائیور سمیت متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔‘

محمد کاشف کے مطابق ٹرین کے عملے نے بتایا کہ حملے کے باعث ٹرین سرنگ میں رُک گئی ہے اس کے بعد ہمارا ان سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔

کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ٹرین کو یرغمال بنا لیا گیا ہے تاہم اب تک سرکاری حکام نے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

ریلوے کنٹرولر کے مطابق ٹرین کی نو بوگیاں ہیں اور اس میں تقریباً 400 مسافروں کی ریزرویشن تھی۔ بولان حساس علاقہ تصور کیا جاتا ہے اور ماضی میں  ہونے والی تخریبی کارروائیوں کے پیش نظر سکیورٹی کے خصوصی اقدامات کیے تھے۔

 بولان  سے گزرنے والی ہر ٹرین میں دس سے پندہ ایف سی اور پولیس اہلکار  تعینات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریلوے پٹری اور سرنگوں کے قریب سکیورٹی چیک پوسٹیں بھی بنائی گئی ہیں اور سکیورٹی اہلکار ریلوے ٹریکس کے قریب گشت بھی کرتے ہیں۔

کوئٹہ اور سبی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر پیرو کنری کے قریب شدید فائرنگ کی اطلاعات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ اور سبی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور ایمبولینسز جائے وقوعہ کی طرح بھیجی گئی ہیں۔

شاہد رند کے مطابق دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے جائے وقوعہ تک رسائی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ’ابتدائی اطلاعات کے مطابق واقعہ دہشت گردی کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔‘

خیال رہے کہ بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں، ناکہ بندیوں اور مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کے واقعات اور احتجاج کی وجہ سے مسلسل سڑکوں کی بندش کی وجہ سے لوگ ٹرینوں میں سفر کرنے کو ترجیح دے رہے تھے۔

ریلوے حکام کے مطابق نشانہ بننے والی مسافر ٹرین صبح نو بجے کوئٹہ سے روانہ ہوئی تھی اس نے بولان سے گزرتے ہوئے سکھر کے راستے لاہور، راولپنڈی اور پھر پشاور جانا تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ  جون 2024 کے آخر میں بھی اس ضلع میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے بڑا حملہ کیا تھا اور بلوچستان کو سندھ سے ملانےوالی این 65 شاہراہ کو درہ بولان کے 50 سے 70 کلومیٹر حصے میں چار مقامات پر حملے کرکے کنٹرول میں لیا۔  

بولان کے علاقے میں ماضی میں بھی عسکریت پسند حملے کر چکے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کولپور، مچھ، گوکرت اور پیر غائب میں بیک وقت سیکورٹی فورسز کے کیمپوں، چوکیوں، پولیس اور لیویز تھانوں، ریلوے سٹیشن اور دیگر سرکاری عمارات کو ہدف بنایا۔

دو دنوں سے زائد تک جاری رہنےوالے ان حملوں میں بارہ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی میں نو حملہ آوروں کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔

درہ بولان کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

ضلع کچھی پہلے بولان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ساڑھے چار لاکھ آبادی والے اس ضلع میں اکثریت بلوچ اور براہوی قبائل کی ہے۔ کچھی کا شمار بلوچستان کے سب سے شورش زدہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ اس کے پہاڑوں میں کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کے علاوہ داعش، تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے ٹھکانے بھی رہے ہیں۔

ضلع کچھی کوئٹہ سے صرف 35کلومیٹر دور کولپور کے مقام سے شروع ہوتا ہے۔ اس کی سرحدیں مستونگ، قلات، سبی اور ہرنائی سے لگتی ہیں۔ یہاں کے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان میں سے گزرنے والا درہ بولان کو تاریخی اور تزویراتی اہمیت حاصل ہے۔ یہ سینکڑوں سالوں تک افغانستان اور ایران سے ہندوستان کو جانے والے تاجروں اور حملہ آوروں کی گزرگاہ رہا ہے۔

انگریزوں نے افغانستان پر حملے کے لیے درہ بولان کو استعمال کیا۔ اس دوران انہیں مقامی قبائل کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ریلوے پٹری اور سرنگوں کے قریب سکیورٹی چیک پوسٹیں بھی بنائی گئی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

برطانوی حکومت نے 18ویں صدی کے آخر میں یہاں کے مشکل پہاڑی سلسلوں میں ریلوے لائن بچھائی جسے صدی بعد بھی ریلوے کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ اس ریلوے ٹریک پر کوئٹہ اور سبی کے درمیان پہاڑوں کے اندر 17 سرنگیں بنائی گئی ہیں ۔ کوئٹہ سے پنجاب اور سندھ آنے اور جانےوالی ٹرینوں کو ان سرنگوں میں سے گزرنا پڑتا ہے۔

مسافر ٹرین انہی سرنگوں میں سے آٹھ نمبر سرنگ کے قریب حملے کا نشانہ بن گئی ہے۔

ریلوے لائن اور ریلوے سٹیشنز کےعلاوہ یہاں انگریز دور میں تقریباً ایک صدی قبل بنائی گئی سینٹرل جیل مچھ مشہور ہے جس میں سابق گورنر نواب اکبر بگٹی، نواب غوث بخش بزنجو، خان عبدالصمد خان اچکزئی اور اہم سیاسی شخصیات قید رہی ہیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.