بلوچستان کے درہ بولان سے گزرنے والی ایک مسافر ٹرین پر عسکریت پسندوں کی جانب سے حملہ کیا گیا ہے، جس میں انجن ڈرائیور سمیت 10 افراد کی موت کی تصدیق ہوگئی ہے۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے یرغمال بنائے گئے مسافروں کی بازیابی کے لیے سکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن جاری ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق اب تک 80 مسافروں کو رہا کردیا گیا ہے جو جائے وقوعہ سے پانچ کلومیٹر دور پنیر ریلوے سٹیشن پر پہنچ گئے ہیں۔ رہا کیے جانے والے مسافروں میں 43 مرد، 26 خواتین اور 11 بچے شامل ہیں۔
ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ریلوے عمران حیات نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے 10 اموات کی تصدیق کردی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں انجن ڈرائیور اور سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے نو مسافر شامل ہیں جو چھٹیوں پر آبائی علاقوں کو جارہے تھے۔ انہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
عمران حیات نے بتایا کہ عسکریت پسندوں میں سے کچھ پہاڑوں کی طرف فرار ہوگئے اور جاتے ہوئے 17 یرغمالی مسافروں کو بھی اپنے ساتھ پہاڑوں کی طرف لے گئے۔ جبکہ کچھ حملہ آوروں نے جائے وقوعہ پر اب تک ٹرین کے مسافروں اور عملے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ریلوے کنٹرولر کے مطابق رہا ہونے والے مسافروں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ریلوے عملے اور مسافروں کو ایک ساتھ بٹھا کر ان پر بندوقیں تان رکھی تھیں۔
یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے سکیورٹی فورسز کی کارروائی
کوئٹہ میں سکیورٹی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے آپریشن کیا جا رہا ہے۔ اس دوران سکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔‘
کوئٹہ کی فضائی ٹریفک مصروف نظر آرہی ہے اور شہر کے فوجی ہوائی اڈے سے بڑی تعداد میں ہیلی کاپٹر کو بولان کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی نے 20 مسافروں کو قتل کرنے اور 182 کو یرغمال بنانے دعویٰ کیا ہے۔ کالعدم تنظیم نے کارروائی کی صورت میں تمام یرغمالیوں کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
قبل ازیں کوئٹہ ڈویژن کے ریلوے کنٹرولر محمد کاشف نے اردو نیوز کو بتایا کہ حملے کے باعث ٹرین پہاڑی کے اندر بنی ہوئی سرنگ میں رُک گئی ہے۔انہوں نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مسافر ٹرین کوئٹہ سے راولپنڈی اور پشاور جا رہی تھی جس میں سینکڑوں مسافر سوار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ٹرین ضلع کچھی (بولان) کے علاقے مشکاف سے نکل کر سبی کی طرف روانہ تھی، جس پر سبی سے تقریباً 33 کلومیٹر پہلے ضلع کچھی کی حدود میں سرنگ نمبر آٹھ کے قریب حملہ ہوا۔
بولان کے علاقے میں ماضی میں بھی عسکریت پسند حملے کر چکے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ریلوے کنٹرولر کے مطابق ’اس دوران مسافر ٹرین کے عملے سے ہمارا رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ شدید فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ جاری ہے۔
محمد کاشف کے مطابق ٹرین کے عملے نے بتایا کہ حملے کے باعث ٹرین سرنگ میں رُک گئی ہے اس کے بعد ہمارا ان سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ریلوے کنٹرولر کے مطابق ٹرین کی نو بوگیاں ہیں اور اس میں تقریباً 400 مسافروں کی ریزرویشن تھی۔ بولان حساس علاقہ تصور کیا جاتا ہے اور ماضی میں ہونے والی تخریبی کارروائیوں کے پیش نظر سکیورٹی کے خصوصی اقدامات کیے تھے۔ بولان سے گزرنے والی ہر ٹرین میں دس سے پندہ ایف سی اور پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریلوے پٹری اور سرنگوں کے قریب سکیورٹی چیک پوسٹیں بھی بنائی گئی ہیں اور سکیورٹی اہلکار ریلوے ٹریکس کے قریب گشت بھی کرتے ہیں۔
کوئٹہ اور سبی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر پیرو کنری کے قریب شدید فائرنگ کی اطلاعات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ اور سبی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور ایمبولینسز جائے وقوعہ کی طرح بھیجی گئی ہیں۔
شاہد رند کے مطابق دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے جائے وقوعہ تک رسائی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ’ابتدائی اطلاعات کے مطابق واقعہ دہشت گردی کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔‘
خیال رہے کہ بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں، ناکہ بندیوں اور مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کے واقعات اور احتجاج کی وجہ سے مسلسل سڑکوں کی بندش کی وجہ سے لوگ ٹرینوں میں سفر کرنے کو ترجیح دے رہے تھے۔ریلوے حکام کے مطابق نشانہ بننے والی مسافر ٹرین صبح نو بجے کوئٹہ سے روانہ ہوئی تھی اس نے بولان سے گزرتے ہوئے سکھر کے راستے لاہور، راولپنڈی اور پھر پشاور جانا تھا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جون 2024 کے آخر میں بھی اس ضلع میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے بڑا حملہ کیا تھا اور بلوچستان کو سندھ سے ملانےوالی این 65 شاہراہ کو درہ بولان کے 50 سے 70 کلومیٹر حصے میں چار مقامات پر حملے کرکے کنٹرول میں لیا۔ کولپور، مچھ، گوکرت اور پیر غائب میں بیک وقت سیکورٹی فورسز کے کیمپوں، چوکیوں، پولیس اور لیویز تھانوں، ریلوے سٹیشن اور دیگر سرکاری عمارات کو ہدف بنایا۔دو دنوں سے زائد تک جاری رہنے والے ان حملوں میں بارہ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی میں نو حملہ آوروں کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔درہ بولان کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟ضلع کچھی پہلے بولان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ساڑھے چار لاکھ آبادی والے اس ضلع میں اکثریت بلوچ اور براہوی قبائل کی ہے۔ کچھی کا شمار بلوچستان کے سب سے شورش زدہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ اس کے پہاڑوں میں کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کے علاوہ داعش، تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے ٹھکانے بھی رہے ہیں۔ضلع کچھی کوئٹہ سے صرف 35 کلومیٹر دور کولپور کے مقام سے شروع ہوتا ہے۔ اس کی سرحدیں مستونگ، قلات، سبی اور ہرنائی سے لگتی ہیں۔ یہاں کے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان میں سے گزرنے والا درہ بولان کو تاریخی اور تزویراتی اہمیت حاصل ہے۔ یہ سینکڑوں سالوں تک افغانستان اور ایران سے ہندوستان کو جانے والے تاجروں اور حملہ آوروں کی گزرگاہ رہا ہے۔انگریزوں نے افغانستان پر حملے کے لیے درہ بولان کو استعمال کیا۔ اس دوران انہیں مقامی قبائل کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ریلوے پٹری اور سرنگوں کے قریب سکیورٹی چیک پوسٹیں بھی بنائی گئی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
برطانوی حکومت نے 18ویں صدی کے آخر میں یہاں کے مشکل پہاڑی سلسلوں میں ریلوے لائن بچھائی جسے صدی بعد بھی ریلوے کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ اس ریلوے ٹریک پر کوئٹہ اور سبی کے درمیان پہاڑوں کے اندر 17 سرنگیں بنائی گئی ہیں ۔ کوئٹہ سے پنجاب اور سندھ آنے اور جانےوالی ٹرینوں کو ان سرنگوں میں سے گزرنا پڑتا ہے۔
مسافر ٹرین انہی سرنگوں میں سے آٹھ نمبر سرنگ کے قریب حملے کا نشانہ بن گئی ہے۔ریلوے لائن اور ریلوے سٹیشنز کےعلاوہ یہاں انگریز دور میں تقریباً ایک صدی قبل بنائی گئی سینٹرل جیل مچھ مشہور ہے جس میں سابق گورنر نواب اکبر بگٹی، نواب غوث بخش بزنجو، خان عبدالصمد خان اچکزئی اور اہم سیاسی شخصیات قید رہی ہیں۔