روس کا یوکرین کے ’توانائی اور انفراسٹرکچر کے اہداف‘ پر حملے 30 روز کے لیے روکنے کا اعلان

image
روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کی جنگ میں ’انفراسٹرکچر اور توانائی کے اہداف‘ پر حملے 30 روز کے لیے روکنے پر اتفاق کیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور رُوس کے صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان منگل کو ٹیلی فون پر رابطہ ہوا جس میں یوکرین کی جنگ کو ختم کرنے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

صدر ٹرمپ سے گفتگو کرتے ہوئے صدر پوتن نے کہا کہ وہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے ’ممکنہ طریقوں‘ پر امریکہ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

امریکی صدر کی روسی ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کے بعد وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ ’یوکرین میں وسیع جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا فوری طور پر آغاز ہونا چاہیے۔‘

ترجمان وائٹ ہاؤس کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ مذاکرات مشرق وسطیٰ میں فوری طور پر شروع ہوں گے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر امریکہ اور روس کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کے معاشی اور جیوپولیٹیکل اہداف پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔‘

اس سے قبل وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ ’دونوں صدور کے درمیان اچھی گفتگو ہوئی ہے، بات چیت کا آغاز (امریکی وقت کے مطابق) صبح 10 بجے ہوا تھا اور یہ 90 منٹ تک جاری رہی۔‘

وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی چیف آف سٹاف ڈین سکاوینو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ ’صدر ٹرمپ کی روسی ہم منصب کے ساتھ گفتگو اچھی رہی۔‘ 

دونوں صدور کی ٹیلی فونک بات چیت کے بعد کریملن نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ تنازع صرف اسی صورت میں حل ہو سکتا ہے جب مغربی ممالک یوکرین کے لیے فوجی اور انٹیلی جنس تعاون روک دیں۔‘

کریملن نے اس بات پر زور دیا کہ تنازعے کو بڑھنے سے روکنے اور اس کے حل کے لیے اہم شرط یہ ہے کہ یوکرین کو غیرملکی فوجی امداد اور انٹیلی جنس شیئرنگ مکمل طور پر روک دی جائے۔

روس کا کہنا ہے کہ ’یوکرین کو غیرملکی فوجی امداد اور انٹیلی جنس شیئرنگ روک دی جائے‘ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے اس گفتگو سے پہلے امید ظاہر کی تھی کہ وہ صدر پوتن کو اس بات پر قائل کر لیں گے کہ وہ امریکہ کی تجویز کردہ 30 روزہ جنگ بندی کی تجویز کو قبول کریں اور تین سال سے جاری یوکرین جنگ کے مستقل خاتمے کی طرف بڑھیں۔

یوکرین دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کے سب سے بڑے تنازعے میں جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کر چکا ہے، جس میں اب تک لاکھوں افراد ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں، لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور قصبے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’امریکہ کی جانب سے 30 روزہ جنگ بندی کی تجویز پر روس کی جانب سے کوئی ’بامعنی‘ ردِعمل نہیں آیا۔‘

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں صدر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ ’یہ بات ایک بار پھر ظاہر کرتی ہے کہ رُوس جنگ کو مزید طُول دینے اور امن کو ہر ممکن حد تک مؤخر کرنا چاہتا کرتا ہے۔‘

یوکرینی صدر نے یہ بھی کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ امریکی دباؤ یوکرین میں رُوس کو جنگ ختم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہو گا۔‘

ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق ’یوکرین میں وسیع جنگ بندی کے لیے مذاکرات مشرق وسطیٰ میں شروع ہوں گے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب گذشتہ ہفتے ہی صدر پوتن نے یوکرین میں جنگ بندی کی امریکی تجویز کی اُصولی طور پر حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں اس تنازعے کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا ہوگا۔‘

کریملن میں نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جنگ بندی ایسی ہونی چاہیے جو طویل المدت امن کی بنیاد بنے اور اس بحران کی اصل وجوہات کو ختم کر دے۔‘

روسی صدر نے کئی ایسے مسائل کی نشان دہی کی جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.