امریکہ کی وفاقی عدالت نے کہا ہے کہ ارب پتی ایلون مسک کے محکمہ برائے حکومتی کارکردگی (ڈوج) نے بین الاقوامی امدادی ایجنسی (یو ایس ایڈ) کو ختم کرکے ممکنہ طور پر آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔
منگل کو میری لینڈ کی وفاقی عدالت کے جج تھیوڈور چوانگ نے محکمہ ڈوج اور ایلون مسک کو یو ایس ایڈ میں مزید کٹوتیوں سے روک دیا ہے۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو یو ایس ایڈ کے تمام ملازمین بشمول وہ جو انتظامی چھٹی پر ہیں، کو ای میل اور کمپیوٹر تک رسائی بحالی کرنی ہوگی۔عدالت نے حکم نامے میں یو ایس ایڈ کا ہیڈکوارٹر پھر سے استعمال کرنے کی اجازت دینے کا حکم بھی دیا ہے۔یو ایس ایڈ کے ملازمین اور کنٹریکٹرز کی جانب سے دائرکردہ مقدمے میں کہا گیا تھا کہ مسک اور ڈوج وہ طاقت استعمال کر رہے ہیں جو آئین نے صرف ان افراد کے لیے مخصوص کر رکھی ہے جو انتخابات جیتتے ہیں یا سینیٹ ان کی توثیق کرتا ہے۔ انتظامیہ نے کہا ہے کہ ڈوج وفاقی حکومت میں دھوکہ دہی اور بدعنوانی کو ختم کرنے جا رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس اور ڈوج نے فیصلے پر تبصرہ کرنے کی درخواست پر جواب نہیں دیا۔مسک، ان کی ٹیم اور ٹرمپ کے سیاسی طور پر منتخب کردہ پیٹ ماروکو نے دو ماہ کے دوران یو ایس ایڈ کو ختم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔فروری کے آغاز میں انتظامیہ نے ایجنسی کے اعلٰی سکیورٹی حکام اور ملازمین کو جبراً چھٹی پر بھیج دیا تھا۔ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کے دن ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا جس میں غیرملکی امداد کی فنڈنگ منجمد کرنے اور بیرون ملک امریکی امداد اور ترقیاتی کاموں کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔ڈیموکریٹک قانون سازوں اور یو ایس ایڈ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پاس فنڈنگ روکنے کا اختیار نہیں جو کانگریس پہلے منظور کر چکی تھی۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں امدادی ادارے یو ایس ایڈ کی بندش اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ احکامات بشمول امیگریشن، ٹرانسجینڈر کے حقوق اور جبری نقل مکانی کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔کانگریس اراکین نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ڈوج کو حکومت کے ادائیگیوں کے نظام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور کہا تھا کہ اس سے سکیورٹی خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔