انڈونیشیا میں نوجوان رمضان کے مہینے میں اپنے جسم پر بنے ہوئے ٹیٹوز ہٹوا رہے ہیں جو انہوں نے ’کُول‘ نظر آنے کے لیے بنوائے تھے۔خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 30 سالہ تیغو ازلیان سپتورا جو پہلے کبھی گٹارسٹ تھے، ایک کلینک میں بیٹھے درد سے کراہ رہے ہیں کیونکہ ان کے بازو، کمر اور ٹانگوں سے لیزر کی مدد سے ٹیٹوز ہٹائے جا رہے ہیں۔
یہ ٹیٹوز انہوں نے اُس وقت بنوائے تھے جب ان کا ایک میوزیکل بینڈ تھا اور ایک خاص انداز میں نظر آنا چاہتے تھے لیکن اب وہ اسلام کو اپنی عملی زندگی میں اپنانے کے لیے پُرعزم ہیں۔
وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس جسم میں تبدیلی نہیں کرنی چاہیے جو انہیں خدا نے عطا کیا ہے۔’بطور انسان بعض اوقات ہم سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ اب میں خدا کے قریب ہو کر خود کو بہتر بنانا چاہتا ہوں۔ خدا نے مجھے صاف جِلد دی اور میں نے اسے خراب کر دیا جس کا مجھے اب افسوس ہے۔‘ صرف تیغو ازلیان سپتورا ہی نہیں بلکہ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں اُن افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو رمضان کے دوران اپنے جسم سے ٹیٹوز مٹوا رہے ہیں۔ایک اسلامی خیراتی ادارہ امل زکوٰۃ نیشنل ایجنسی مسلمانوں کو رمضان کے مہینے میں ٹیٹوز مٹوانے کے لیے مفت خدمات فراہم کر رہا ہے۔2019 میں شروع کیا گیا ٹیٹو ہٹانے کا یہ پروگرام اب ہر رمضان میں منعقد کیا جاتا ہے۔ رواں سال تقریباً 700 افراد نے اس سروس کے لیے خود کو رجسٹر کرایا اور مجموعی طور پر تقریباً تین ہزار افراد اس کا حصّہ بنے۔اس پروگرام کے کوآرڈینیٹر محمد آصف وحیدی نے بتایا کہ ’ہم ان لوگوں کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں جو خدا کے قریب جانا چاہتے ہیں جن میں وہ لوگ شامل ہیں جو اپنے ٹیٹو کو ہٹانا چاہتے ہیں۔‘
اسلامی خیراتی ادارہ امل زکوٰۃ نیشنل ایجنسی مسلمانوں کو رٹیٹوز مٹوانے کے لیے مفت خدمات فراہم کر رہا ہے (فوٹو: اے پی)
انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے افراد اپنے ٹیٹو کو ہٹانے کے متحمّل نہیں ہو سکتے یا یہ نہیں جانتے کہ وہ کہاں اور کیسے محفوظ طریقے سے ایسا کر سکتے ہیں۔‘
کچھ ایشیائی کلچر میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہی افراد ٹیٹوز بنواتے ہیں جو کسی گینگ یا جرائم سے منسلک ہوتے ہیں۔ وہ خواتین جنہوں نے ٹیٹوز بنوا رکھے ہوتے ہیں انہیں عزت اور شادی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔52 سالہ سری اندرایاتی نے کہا کہ انہوں نے 22 سال کی عمر میں ماں بننے کے بعد اپنے ہاتھ پر اپنی پہلی بیٹی کا نام ٹیٹو کروایا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اُس وقت افسوس ہوا جب ان کے نواسوں نے انہیں اسے مٹانے کا کہا کیونکہ یہ گندے دِکھتے تھے۔’جب میں اپنے نواسے کو سکول لے کر جاتی ہوں تو بچے ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشی کرتے ہیں کہ اس کی دادی کو دیکھو ٹیٹو بنوا رکھے ہیں۔‘