اقوام متحدہ تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے 20 مارچ کو ’بین الاقوامی یوم مسرت‘ کے طور پر مناتا آ رہا ہے اور اس دن کے حوالے سے دنیا بھر میں خوش و خرم ممالک کی فہرست بھی جاری ہوتی ہے۔اب یہاں یہ کہنا بے سود ہوگا کہ ہمارا برصغیر ہندوپاک اس فہرست میں کہاں آتا ہے۔ ہمارے یہاں مسرت کی تعریف کچھ ادبی ہے جسے انگریزی کے معروف شاعر پسرسی بیسی شیلی نے یوں بیان کیا ہے، ’آور سویٹسٹ سانگ آر دوز دیٹ ٹیل آف سیڈیسٹ تھاٹ‘، یعنی ہمارے سب سے خوش کن نغمے وہ ہیں جن میں اداسیوں کی کہانی ہے۔یا پھر بالی وڈ کی فلم ’عدالت‘ کے لیے راجیندر کشن کے لکھے گیت میں بھی اس کا اظہار ہے جس میں انہوں نے لکھا: گھر سے چلے تھے ہم تو خوشی کی تلاش میںغم راہ میں کھڑے تھے وہیں ساتھ ہو لیےبہر حال ہمارا یہاں ’خوشی کی تلاش‘ یا ’یوم مسرت‘ کی نوید سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ہم اس دن کو اس لیے یاد کر رہے ہیں کہ 20 مارچ کو ’گوریوں کے عالمی دن‘ کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔آج اگر کسی سے پوچھا جائے کہ آپ نے آخری بار گوریا کب دیکھی تھی تو شاید آپ کو یاد نہ آئے۔ اب شہروں میں تو کیا دیہاتوں سے بھی گوریا نایاب ہو چکی ہیں۔عالمی یوم گوریا 2025 کو ’فطرت کے چھوٹے سفیر کو خراج تحسین‘ کے عنوان کے تحت منایا جا رہا ہے۔ آج گوریا کے متعلق بات کرتے ہیں کہ یہ ننھی چڑیا کس طرح ہمارے گھروں اور آنگن میں پرے کے پرے اترتی تھیں اور شام کو کسی گھر کے پاس موجود بیری کے درختوں پر بسیرا کرتیں جن کے شور سے کان پڑی آوازیں بھی سنائی نہیں دیتی تھیں۔لیکن اب عام انسان کیا ماہرین طیور بھی اس کے دیدار کو ترستے ہیں۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ پہلی چڑیا ہے جو انسانوں کے ساتھ انتہائی قریب رہتی آئی ہے۔
20 مارچ کا دن یوم گوریا کے طور پر منایا جاتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
لندن کی رایل سوسائٹی کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یہ پرندہ انسانوں کے ساتھ کوئی 11 ہزار سال سے رہ رہا ہے اور اس نے انسانی زندگی کو بہتر بنانے اور نظام فطرت کو پائیداری دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب سے کتے انسان کے دوست ہیں اس وقت سے ہی گوریا بھی انسان کی دوست ہیں اور انسان دوست ماحولیات کو بنانے میں کتے سے بھی پیش پیش رہی ہیں۔سائنس کے مطابق چڑیاں اور بطور خاص گوریا ماحولیاتی نظام کے لیے بہت ضروری ہیں۔ یہ چھوٹا پرندہ حیاتیاتی تنوع کو مزید فروغ دینے اور ماحولیاتی نظام میں پودوں کی نشوونما میں معاونت کرتا ہے جس کے نتیجے میں صحت مند اور سرسبز ماحول بنتا ہے۔صحت مند اور سرسبز ماحول کو بنانے کے لیے چڑیاں بیج کھاتی ہیں اور اسے بیٹ کی شکل میں جگہ جگہ پھیلاتی ہیں جس سے ہمارے اردگرد کی آب و ہوا پھلتی پھولتی ہے۔گوریا کے عالمی دن منانے کا مقصد دنیا میں چڑیوں کو تحفظ فراہم کرنا اور ان کی کم ہوتی تعداد کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔ گوریا میں کمی کا احساس نئی صدی کی ابتدا سے قبل ہی محسوس کیا جانے لگا تھا لیکن گوریا کا پہلا عالمی دن 20 مارچ 2010 کو منایا گیا۔ نیچر فار ایور سوسائٹی نے گھریلو چڑیوں اور دیگر عام پرندوں کو بچانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ’ورلڈ سپیرو ڈے‘ منانے کی مہم کا آغاز کیا۔نیچر فار ایور سوسائٹی انڈیا کو ایک مسلم کنزرویشنسٹ محمد دلاور نے قائم کر رکھا ہے۔ انھوں نے اس کام کی ابتدا مغربی ریاست مہاراشٹر کے ناسک سے کی اور اپنے آس پاس کی چڑیوں کے متعلق لوگوں میں بیداری پیدا کی۔
تحقیق کے مطابق گوریا چڑیا انسانوں کے ساتھ 11 ہزار سال سے رہ رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
2018 کی رایل سوسائٹی کی تحقیق کے مطابق انڈیا میں بعض چڑیوں کی آبادی میں اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن گوریا کی تعداد میں 60 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی۔
ماہر طیور کے مطابق دنیا بھر میں گوریا کی 26 اقسام ہیں جن میں سے پانچ اقسام انڈیا اور پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ ہندی اخبار دینک جاگرن میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق لکھنؤ میں صرف ساڑھے پانچ ہزار گوریاں بچ گئی ہیں جبکہ انڈین پنجاب میں ان کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے۔ انہوں نے 2015 کے چڑیوں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ رپورٹ شائع کی ہے۔ انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ آندھرا پردیش میں ان کی تعداد میں 80 فیصد کمی آئی ہے جبکہ کیرالہ، گجرات اور راجستھان جیسی ریاستوں میں 20 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔چڑیاں اور بطور خاص گوریا ماحولیاتی توازن میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ اپنے بچوں کو الفا اور کیٹ ورم نامی کیڑے کھلاتی ہیں جو کہ فصلوں کے لیے انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ کیڑے فصلوں کے پتے مار کر تباہ کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ چڑیاں ان کیڑوں کو کھاتی ہیں جو مون سون کے موسم میں ظاہر ہوتے ہیں۔محمد دلاور نے ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں جب ہندوستان میں شیروں جیسی پر شکوہ نسلوں کے تحفظ کے لیے بے پناہ دلچسپی تھی عام چڑیا کے تحفظ میں بہت کم دلچسپی تھی۔
گوریا چڑیا حیاتیاتی تنوع کے فروغ میں اہم سمجھی جاتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ شہروں میں پہلے جیسی چڑیاں نہیں ہیں، لیکن انہیں چڑیوں کی آبادی کا کوئی تاریخی ڈیٹا نہیں مل سکا۔ اور انہیں زبانی اور کہانیوں کے شواہد پر انحصار کرنا پڑا کہ یہ چڑیاں جو کبھی شہری علاقوں میں ہر جگہ موجود تھیں، ان کو دیکھنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’چڑیاں معدومیت کے خطرے کی زد میں آنے والی نسل نہیں تھیں، اس لیے ان میں کوئی دلچسپی نہیں لی گئی۔‘
بہر حال اب بھی اس پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا ہے اور اس کی تیزی سے کم ہوتی تعداد کی وجوہات کا بھی قطیعت کے ساتھ پتا نہیں چل سکا ہے۔ لیکن انسان دوست ماحول کے پھلنے پھولنے کے لیے اس خوشی کی پیامبر کا ہونا بھی ہماری خوشیوں میں اضافے کا سبب ہو سکتا ہے۔ خوشی کے تمام انڈیکس میں خیر کے کام کو مرکزیت حاصل ہے اور گوریا کا بچانا اور اس کے تحفظ کے لیے کوشش کرنا بھی اس میں شامل ہے۔اگر آپ نے مولانا ابوالکلام آزاد کی تصنیف غبار خاطر میں ’چڑیا چڑے‘ کی کہانی پڑھی ہے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کس طرح وہ قیدخانے میں ان کے لیے امید کی پیامبر تھی۔