ڈاؤن سنڈروم: ’ابتدا سے توجہ دینے کا پھل ملا، آج میری بیٹی ایک کامیاب کاروبار چلاتی ہے‘

ڈاؤن سنڈروم (ڈی ایس) سے متعلق عام آگاہی کے لیے بین الاقوامی دن 21 مارچ کو منایا جا رہا ہے۔ ڈاؤن سنڈروم کا عالمی دن 2012 سے اقوام متحدہ کے ذریعہ سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔

آج ڈاؤن سنڈروم سے متعلق عام آگاہی کے لیے بین الاقوامی دن منایا جا رہا ہے۔ ڈاؤن سنڈروم کا عالمی دن 2012 سے اقوام متحدہ کی طرف سے سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔

اس جینیاتی مرض کی آگاہی پھیلانے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس کا عالمی دن سال کے تیسرے مہینے کے 21 ویں دن آتا ہے۔ یہ ایک اضافی کروموزوم کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے جو ڈاؤن سینڈروم کا سبب بنتا ہے۔

اس برس اس دن کا تھیم ’ہمارے سپورٹ سسٹم کو بہتر بنانا ہے۔‘ اس تھیم کا مقصد جامع امدادی نظام کو مضبوط بنانا ہے تاکہ ڈاؤن سنڈروم والے افراد کو وہ دیکھ بھال، تعلیم اور مواقع ملیں جس کے وہ مستحق ہیں۔

ماہرین کے مطابق ڈاؤن سنڈروم تب ہوتا ہے جب آپ ایک اضافی کروموزوم کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ جینیاتی حالت عام طور پر کسی کے سیکھنے اور جسمانی خدوخال کو متاثر کرتی ہے۔

علشبہ کی والدہ نے کیسے انھیں ایک کامیاب آرٹسٹ بنایا

علشبہ اب 24 برس کی ہیں اور کراچی میں ایک کیفے چلا رہی ہیں۔ وہ کئی زبانیں بول سکتی ہیں۔ علشبہ کا سفر مشکل تھا۔ مگر ان کی والدہ کی بروقت اور بھرپور توجہ سے اب وہ ایک کامیاب آرٹسٹ بھی ہیں۔

علیشبہ کی والدہ ڈاکٹر عفت سلطانہ نے بی بی سی کے نامہ نگار اعظم خان کو بتایا کہ علشبہ کے آرٹ کی چار بار نمائش بھی ہو چکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ علشبہ نے برطانوی پارلیمنٹ کا دورہ بھی کیا اور اپنی ایک پینٹنگ کا تحفہ بھی دیا جو اب بھی برطانوی پارلیمنٹ کی دیوار کی زینت بنی ہوئی ہے۔

عفت سلطانہ کے مطابق ’علشبہ کا فن صرف لوگوں کی مدد نہیں بلکہ اُن کے لیے ہمت اور اُمید کی بھی ایک کرن بن رہا ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ والدین پہلے اپنی صحت کا خیال رکھیں کیونکہ اگر وہ ٹھیک رہیں گے تو کچھ کر سکیں گے۔ ان کے مطابق ڈاؤن سنڈروم والی کیفیت سے جو بچہ یا بچی گزر رہی ہوتی ہے اسے معمول پر لانے کے لیے پہلے 1000 دن یعنی تین برس کا عرصہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عفت سلطانہ کے مطابق اس عرصے میں والدین سپیچ تھراپی سے لے کر ہر طرح سے اپنے بچے کی نشوونما کو بہتر بنانے کے لیے ان کے ساتھ سرگرمیاں کر سکتے ہیں۔

انھوں نے علشبہ کی تعلیم گھر سے شروع کی۔

علشبہ واحد ایسی نہیں ہیں کہ جو اس طرح کی کیفیت سے دوچار رہی ہیں۔

ورلڈ ڈاؤن سنڈروم ڈے کے منتظمین کے مطابق ہر 800 میں سے ایک بچہ اس حالت یا کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے واضح اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں کیونکہ اس خاص کیفیت کی مردم شماری میں بھی درجہ بندی نہیں کی جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ کوئی بیماری، مرض یا ایسی حالت نہیں ہے جس کا فوری علاج ممکن ہو سکے۔ ڈاؤن سنڈروم کے ہونے کی کوئی خاص وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ ابھی تک یہی معلوم ہے کہ یہ ایک قدرتی امر ہے۔

اس کیفیت والے افراد میں عمومی طور پر اتفاقاً ایک اضافی کروموزوم ہوتا ہے کیونکہ پیدائش سے قبل سپرم میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم پوری دنیا کے تمام خطوں میں موجود ہے اور عام طور پر سیکھنے کے انداز، جسمانی خصوصیات اور صحت پر متغیر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس کی تین قسمیں ہیں اور اس کی سب سے معروف قسم کو ٹرائیسومی پکارا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں کروموزوم کی تین کاپیاں بن جاتی ہیں یعنی یہ ایک کروموزوم اپنی تین کاپیاں پیدا کر دیتا ہے۔ دوسری دو اقسام میں ٹرانزلوکیشن اور موزیزسم شامل ہیں۔

سنڈروم کا نام ڈاکٹر جان لینگڈن ڈاؤن کے نام پر رکھا گیا ہے جو اس کی درجہ بندی کرنے والے پہلے سائنسدان تھے۔

کراچی ڈاؤن سنڈروم پروگرام کی سی ای او تابش شہزاد کہتی ہیں کہ پاکستان میں تقریباً تین لاکھ ایسے بچے ہیں اور کراچی میں ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچوں کی تعداد 30 ہزار بنتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایسے بچوں پر اگر توجہ دی جائے تو وہ معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت ان کے ادارے کے پاس تقریباً ڈھائی ہزار ایسے بچے ہیں جن کو ضروری سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ تابش شہزاد کے مطابق وہ ان بچوں کی تین طرح کی تھراپی فزیکل، اکوپیشنل، (معمولات سے متعلق) اور سپیچ تھراپی کی سہولت دے رہی ہیں۔

ان کے مطابق یہ بچے تعلیم اور ہنر حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت ان کے ادارے سے وابستہ ایسے بچے ہیں جو اب مختلف اداروں میں انٹرن شپ کر رہے ہیں، جس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔

Children with Down's syndrome gather in Graha Pandawa, Yogyakarta, Indonesia, to take part in the 2023 Down syndrome day celebration in March 2023
Getty Images
ڈاؤن سنڈروم تب ہوتا ہے جب آپ ایک اضافی کروموزوم کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ جینیاتی حالت عام طور پر کسی کے سیکھنے اور جسمانی خدوخال کو متاثر کرتی ہے۔

ڈاؤن سنڈروم کی علامات

پاکستان ڈاؤن سنڈروم ایسوسی ایشن (پی ڈی ایس اے) کے سی ای او عابد لاشاری، جن کے ادارے نے علشبہ کو بھی مددفراہم کی تھی، کے مطابق ایسے بچے ایک ہی شکل کے ہوتے ہیں۔

ان کے چہروں کی ایک جیسی خصوصیات ہوتی ہیں۔ ان کے قد اور دماغ چھوٹا ہوتا ہے۔ انھیں نظر کے چشمے لگ جاتے ہیں اور آئی کیو لیول پچاس فیصد سے کم ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ایسے بچے کم بولتے ہیں۔ تاہم سپیچ تھراپی کے بعد دو تین سال بعد یہ بولنا شروع کر یتے ہیں۔

عابد لاشاری کے مطابق ان سے ہزار سے زائد والدین نے رابطہ کر کے ایسے بچوں کے بارے میں مدد طلب کی ہے۔ ان کے مطابق صوبہ سندھ میں تو ان کا ادارہ ایسے بچوں کی براہ راست دیکھ بھال کرتا ہے تاہم دوسرے صوبوں میں وہ آن لائن رہنمائی دیتے ہیں۔

A small group of toddlers sit on the floor of a daycare room as they play together with various toys.
Getty Images
ڈاؤن سنڈروم کی پانچ علامات کیا ہیں

ان کے مطابق ایسے بچوں کی آٹھ سے دس سال تک تھراپی کا سیشن کرنا چاہیے تاکہ وہ روبہ صحت ہو سکیں۔

عابد لاشاری کے مطابق سنہ 2022 کی مردم شماری کے مطابق اس وقت پاکستان میں معذوری کے شکار افراد کی تعداد 9.64 فیصد بنتی ہے۔

ان کے مطابق پاکستان میں مردم شماری میں ڈاؤن سنڈروم سے متعلق علیحدہ سے درجہ بندی نہیں کی جاتی اور عمومی نوعیت کے سوالات پوچھ کر معذوری کا تعین کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس وقت ملک میں ڈاؤن سنڈروم کی صحیح تعداد کے بارے میں درست معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

کیا ڈاؤن سنڈروم کا کوئی علاج ہے؟

A child with Down Syndrome plays in the park at
Getty Images

ڈاؤن سنڈروم کا کوئی علاج نہیں ہے۔

ہر فرد کی جسمانی اور ذہنی ضروریات، طاقت اور حدود کی بنیاد پر اسے مدد بہم پہنچائی جا سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ صحت کی دیکھ بھال تک مناسب رسائی، ابتدائی ’انٹروینشن‘ (مداخلت) کے پروگرام اور جامع تعلیم کے ساتھ ساتھ مناسب تحقیق، فرد کی نشوونما اور بحالی کے لیے بہت ضروری ہو جاتی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم والے لوگوں کی صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات کو پورا کرکے ان کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

اس میں دماغی اور جسمانی حالت کی نگرانی کے لیے صحت کے پیشہ ور افراد کے ساتھ باقاعدگی سے چیک اپ اور فزیو تھراپی، پیشہ ورانہ تھراپی، سپیچ تھراپی، مشاورت یا خصوصی تعلیم جیسی بروقت مداخلت کی فراہمی شامل ہوسکتی ہے۔

یہ سب کرنے سے انھیں معاشرے کا عام شہری بنانے میں مدد ملتی ہے اور اس سے ان کی ذاتی صلاحیت بھی اضافہ ہوتا ہے۔

ڈاؤن سنڈروم کا شکار بہت سے افراد کا معیار زندگی بہت اچھا ہوتا ہے۔ وہ عام سکول میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔اور عام افراد کی طرح کام کرتے ہیں۔ اور ان میں سے کچھ تو شادی کر کے اپنی آزادانہ زندگی گزارتے ہیں۔

ڈاؤن سنڈروم والے کچھ افراد نے تو اعلیٰ درجے کی ملازمتیں بھی حاصل کی ہیں، جیسے کہ سپین میں مار گیلسرن، جو کہ والینسیا کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ڈاؤن سنڈروم میں مبتلا یورپ کی علاقائی یا قومی پارلیمنٹ کا حصہ بننے والی پہلی خاتون ہیں۔

Mar Galcerán, after collecting her certificate as a parliamentarian of Les Corts de Valencia, in September 2023 in Valencia, Spain
Getty Images
Mar Galcerán

ایلی گولڈسٹین بھی ایسی ہی ایک مثال ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹرز نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ بات نہیں کر سکیں اور کبھی چلنے کے قابل نہیں ہوں گی۔ مگر انھوں نے سب کو غلط ثابت کیا اور ایک تاریخ رقم کی۔ فیشن اور ڈائزائن سے متعلق مشہور میگزین ووگ کے ٹائٹل صفحے پر ایک کامیاب ماڈل کے طور پر ان کی تصویر شائع ہوئی ۔

ڈاؤن سنڈروم کا شکار رہنے والی ہادی کراٹر برطانیہ کی ایک سماجی کارکن ہیں، جو اس قانون سازی کو چیلنج کر رہی ہے جس میں پیدائش تک اسقاط حمل کی اجازت دی جاتی ہے۔

وہ اپنا مقدمہ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں لے گئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ موجودہ قوانین امتیازی ہیں۔

An olympic officer with down syndrome provides equipment check of an athlete after competition in Rhythmic Gymnastics sport discipline during the Special Olympics Summer World Games Berlin 2023 in Messe conference centre.
Getty Images

ڈاکٹر عفت سلطانہ کا کہنا ہے کہ وہ اب خوش ہیں کہ اس حوالے سے اب آگاہی بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ والدین کا آگاہ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک کیفیت ہے جس سے ان بچوں کو نکالا جاتا ہے۔

عفت سلطانہ کے مطابق ’ہم نے سیکھنا ہے کہ کیسے ایک بچہ بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’سب سے ہم رول اس میں تھراپی کا ہے۔ جتنا جلدی ماں باپ اس کو تسلیم کریں اتنا ہی بہتر ہے۔ جو ضرورت ہے وہ بچے کو فوری مہیا کی جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ علشبہ کے معاملے میں انھوں نے یہی کیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس وقت اس بارے میں آگاہی بھی زیادہ نہیں تھی مگر میں نے ایک دن بھی ضائع کیے بغیر علشبہ کی طرف توجہ کی اور اب میں یہ دیکھ کر خوش ہوں کہ علشبہ اپنی زندگی کا بھرپور لطف لے رہی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.