اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے ججز کے درمیان کشیدگی جمعہ کے روز اس وقت شدت اختیار کر گئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ ٹربیونل کے 3 ارکان، جنہیں رواں ماہ کے اوائل میں ٹربیونل کی تشکیل نو کے وقت تبدیل کر دیا گیا تھا، نے اعلان کیا کہ نہ تو قائم مقام چیف جسٹس اور نہ ہی صدر کو قانونی جواز کے بغیر ٹربیونل کو تحلیل کرنے یا دوبارہ تشکیل دینے کا اختیار حاصل ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ بات ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (اے ڈی اینڈ ایس جے) محمد شبیر کی جوڈیشل سروس اپیل میں بدھ کے روز جاری ہونے والے فیصلے میں سامنے آئی۔
اے ڈی اینڈ ایس جے محمد شبیر نے جج شاہ رخ ارجمند کے اسلام آباد میں سینئر سول جج کے طور پر ابتدائی تقرر اور ترقی اور بعد میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدے پر ترقی کو چیلنج کیا تھا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان پر مشتمل ٹربیونل نے اے ڈی اینڈ ایس جے محمد شبیر کی اپیل پر سماعت کی، جب صدر آصف علی زرداری کی جانب سے 18 مارچ کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشن میں ان کی جگہ جسٹس خادم حسین سومرو، جسٹس محمد اعظم خان اور جسٹس راجا انعام امین منہاس کو مقرر کیا گیا۔
جمعہ کے روز جاری ہونے والے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ ’حکم نامہ مخصوص حالات میں جاری کیا جا رہا ہے، جس کے لیے کچھ وضاحت کی ضرورت ہے‘۔
تینوں ججز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس اعظم خان کے ابتدائی تقرر کو کالعدم قرار دے دیا، جسٹس اعجاز اسحٰق خان کو اس سال کے اوائل میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ترقی دی تھی۔
اس کے علاوہ جج شاہ رخ ارجمند، ڈی اینڈ ایس جے واجد علی، ڈی اینڈ ایس جے ہمایوں دلاور، اے ڈی اینڈ ایس جے قدرت اللہ، ایس سی جے عباس شاہ، احتشام علامہ خان اور انعام اللہ کی تقرریاں بھی کالعدم قرار دے دی گئیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کی روح کے مطابق اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کے لیے قائم ماتحت عدلیہ میں مستقل عہدوں کو ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر بھرنے کی اجازت نہیں ہے۔
درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے کہا گیا ہے کہ ماتحت عدلیہ میں خدمات انجام دینے والے تمام ارکان کو اس حکم نامے کی تاریخ سے 6 ماہ کے اندر ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری واپس لانے کے انتظامات کیے جائیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ٹربیونل کے ارکان نے 13 مارچ کو اپیل پر فیصلہ کیا تھا، لیکن بعد میں انہیں 17 مارچ کی زبانی ہدایت سے آگاہ کیا گیا، جس میں انہیں ہدایت دی گئی تھی کہ وہ فیصلے کا اعلان نہ کریں، کیونکہ ٹربیونل کو تحلیل کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
اس کے بعد 18 مارچ کے نوٹی فکیشن میں مبینہ طور پر قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے مشورے پر ٹربیونل کی تشکیل نو کی گئی۔
تاہم 3 ججز نے اس نوٹی فکیشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک بار جب ٹربیونل ماتحت جوڈیشل سروس ٹریبونل ایکٹ 2016 کے مطابق تشکیل دیا گیا تو اسے قانونی جواز کے بغیر تحلیل یا از سر نو تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ ایک کولیجیئم ہے، اس لیے چیف جسٹس کے دفتر کو دیے گئے انتظامی اختیارات کو اتفاق رائے سے استعمال کیا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس کی جانب سے مقرر کردہ کمیٹی کا کوئی بھی فیصلہ جو قانون کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو، قانون کی نظر میں پائیدار نہیں، جس میں ڈیپوٹیشن، انڈکشن یا پروموشن پر تقرری سے متعلق فیصلے بھی شامل ہیں، اور یہ ٹربیونل کی جانب سے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
تینوں ججز نے کئی تنقیدی تبصرے بھی کیے، عدالت نے اسلام آباد کی عدلیہ میں ڈیپوٹیشن پر ججز کی تعیناتی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے 6 ماہ کے اندر ڈیپوٹیشن پر خدمات انجام دینے والے تمام ججز کی واپسی کا حکم دیا۔
تینوں ججز نے جسٹس خادم حسین سومرو، جسٹس محمد اعظم خان اور جسٹس راجا انعام امین منہاس کی اسلام آباد ہائی کورٹ ٹربیونل کے ارکان کے طور پر تقرر کو غیر آئینی قرار دیا۔
ججز نے یہ بھی کہا کہ قائم مقام چیف جسٹس کو ٹربیونل کے کاموں میں مداخلت کرنے کا کوئی انتظامی اختیار نہیں، جبکہ اس طرح کے اقدامات آئین اور قانون کے دائرے سے باہر ہیں۔
اپنے فیصلے کے اثرات کو تسلیم کرتے ہوئے ججز نے اپنے حکم پر عمل درآمد 30 دن کے لیے معطل کرنے کا حکم دیا تاکہ متاثرہ فریق سپریم کورٹ میں اپیل کر سکے۔
واضح رہے کہ یہ تینوں ججز ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کو چیلنج کیا تھا۔