خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت کو مقتول صحافی ارشد شریف کے نام سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور صوبائی وزیر تعلیم مینہ خان آفریدی کا کہنا ہے کہ وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر ارشد شریف کا نام زندہ رکھنے کے لیے اقدام کیا جا رہا ہے۔صوبائی وزیر تعلیم مینہ خان آفریدی نے کہا کہ محکمہ اعلٰی تعلیم دیگر مختلف تجاویز پر کام کر رہا ہے اور پشاور سمیت دیگر بڑی جامعات کے نام بھی زیر غور ہیں جس میں سے کسی ایک یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کا نام صحافی ارشد شریف کے نام پر رکھا جائے گا۔مینہ خان کے مطابق ’ارشد شریف صحافت کا ایک بہت بڑا نام ہے جنہوں نے حق اور سچ کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دی، ان جیسے صحافیوں کے بارے میں طلبہ کو علم ہونا چاہیے۔‘
صوبائی وزیر مینہ خان آفریدی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ارشد شریف صرف ایک شخص نہیں بلکہ وہ ایک سوچ کا نام ہے جنہوں نے دیگر صحافیوں کے لیے مثال قائم کی۔
’ہماری حکومت ہر طبقہ فکر کی ترجمانی کرتی ہے اس لیے ارشد شریف کو صوبائی حکومت کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔‘’سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے‘سینیئر صحافی محمد فہیم اس حوالے سے کہتے ہیں کہ پاکستان میں عمارتوں، گلی محلوں کا نام کسی کے نام پر رکھنا کوئی نئی بات نہیں لیکن عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر ایسا سیاسی شخصیات کے نام کیا جاتا ہے اور اور غیر سیاسی لوگوں کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔، جن کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہو۔
صوبائی وزیر اعلٰی تعلیم مینہ خان آفریدی کا کہنا ہے کہ طلبہ کو ارشد شریف جیسے صحافیوں کے بارے میں جاننا چاہیے (فوٹو: کے پی اسمبلی)
محمد فہیم کا خیال ہے کہ ارشد شریف کے نام پر سیاسی جماعت کا ٹیگ لگا ہوا ہے۔
’سب کو معلوم ہے کہ ارشد شریف کا نظریاتی تعلق ایک خاص جماعت سے تھا، اس لیے دوسری جماعتیں اس اقدام کو متنازع بنانے کی کوشش کریں گی اور حکومت کو فائدے کے بجائے نقصان ہو گا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے، جیسا کہ ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کا نام تبدیل کر کے عمران خان سٹیڈیم رکھا گیا اور پھر اس فیصلے کو واپس لینا پڑا۔‘’تعلیمی ادارے متنازع ہو سکتے ہیں‘خیبرپختونخوا کے ماہر تعلیم ڈاکٹر فضل الہی کا خیال ہے کہ تعلیمی اداروں کو کسی شخصیت سے منسوب کرنا انہیں متنازع بنانے کا سبب ہو سکتا ہے۔’اگر کسی سیاسی وابستگی پر ڈیپارٹمنٹ کا نام کسی کے نام پر رکھا جاتا ہے تو دوسری جماعت اپنی پسند کی شخصیت کا نام سامنے لائے گی۔‘
ماہر تعلیم ڈاکٹر فضل الہی حکومت کے فیصلے کو دانش مندانہ اقدام کے طور پر نہیں دیکھتے (فوٹو: فیس بک، پشاور یونیورسٹی)
ان کے مطابق ’حکومت کا اقدام تعلیمی اداروں کو مزید پولیٹیسائز کرے گا، جس کا طلبہ کو نقصان ہو گا۔‘
ڈاکٹر فضل الہی نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر حکومت کسی شخصیت کی خدمات کو سراہنا چاہتی ہے تو اس کے بارے میں سیمینار کا انعقاد کرے۔‘خیال رہے ایک روز قبل ہی ایک نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے کہا تھا کہ صحافی ارشد شریف کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔