پنجاب کے ضلع راجن پور کے معمر شاعر، ادیب اور صوفی بزرگ میاں مظفر الدین خواجہ اپنی شاعری میں عمرِ رفتہ کے سائے تلے زندگی کے رنگ بکھیر رہے ہیں۔ وہ خود کو جوان کہتے ہیں اور اس کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے دوسری شادی بھی کر لی ہے۔
ان کی عمر 80 سال ہے اور اب تک یہ مختلف موضوعات پر چار کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں 48 سال کی خاتون ناصرہ سے دوسری شادی کی ہے جس کے بعد سے یہ سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔
80 برس کی عمر میں یہ نہ صرف شادی کے بندھن میں دوبارہ بندھے بلکہ اپنی بارات کو ڈھول کی تھاپ اور پوتے پوتیوں کے ڈانس کے ساتھ ایسا پُررونق بنایا کہ سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے ہونے لگے۔
دُلہن سے ملنے پر 80 سال کے دُلہے کے چہرے پر وہ معصوم سی مسکراہٹ اور شادی کی تقریب میں نوجوانوں کو پیچھے چھوڑ دینے والا ان کا ڈانس، اس شادی کو منفرد بنا رہا ہے۔
میاں مظفر الدین خواجہ نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دراصل اپنے لیے ایک سیکریٹری کے تلاش میں تھے جو ان کا ہاتھ بٹھا سکے۔
ان کے بقول ’آج سے پانچ سال قبل میری پہلی اہلیہ کا انتقال ہوا ان سے میرے بچے بھی تھے بلکہ اب تو پوتے پوتیاں بھی ہیں۔ میری پہلی اہلیہ 61 سال میرے ساتھ رہیں جن کا 2020 میں انتقال ہوگیا۔‘
آج سے پانچ سال قبل اسی مہینے میں جب میاں مظفر الدین خواجہ کی پہلی اہلیہ کا انتقال ہوا تو اس وقت یہ مختلف موضوعات پر شاعری اور نثری مجموعے تیار کر رہے تھے۔
میاں مظفر الدین خواجہ کہتے ہیں کہ ’میری عمر زیادہ تھی اور مجھے فکر تھی کہ تصنیف و تالیف بھی کرنی ہے، میرے ذمے بہت کام تھا جس کی تکمیل ضروری تھی لیکن یہ سارا کام تنہا کرنا مشکل تھا۔‘
’پانچ برسوں میں انہوں نے چار کتابیں شائع کیں اور آج بھی دو کتابوں پر کام کر رہے ہیں جو ان کے مطابق جلد شائع ہوں گی۔ جب انہیں تنہائی ستانے لگی تو انہوں نے مختلف جگہوں پر رشتہ ڈھونڈنے کے لیے اشتہارات دینا شروع کیے۔‘
میاں مظفر الدین خواجہ کے مطابق ’میں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی اشتہار لگایا اور ہر جگہ اس کا ذکر کرتا۔ میرے کچھ کوائف تھے جو اس لڑکی میں ہونا ضروری تھے۔ مجھے متعدد لڑکیوں نے رابطہ کیا اور والدین بھی رابطے میں رہے لیکن کوئی بھی لڑکی میرے کوائف پر پورا نہیں اترتی تھی۔‘
ناصرہ کہتی ہیں کہ ’میری طلاق ہوچکی تھی اور مجھے اس سے بہتر ساتھی نہیں مل سکتا تھا‘ (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
’مجھے ایک ایسی لڑکی چاہیے تھی جو مذہبی اور تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ 40 سال سے زائد عمر کی ہو اور سمجھدار ہو کیونکہ میں اسے اپنا ہنر سونپنا چاہتا تھا۔ مجھے بس اس بات کی فکر تھی کہ میری تصنیف و تالیف کی سرگرمیاں جاری رہیں اور میری یہ وراثت ٹھیک ہاتھوں میں ہو۔‘
میاں مظفر الدین خواجہ مقامی سطح پر ایک دربار میں بھی بیٹھتے ہیں جہاں ان کے چاہنے والے ان کے پاس آکر دعا کرواتے ہیں۔ یہ چاہتے تھے کہ ان کا دربار اور ان کی ذمہ داریاں تقسیم ہو جائیں۔
انہوں نے سب سے پہلے اپنے پرنسپل سیکریٹری عمران کو ہدایت کی کہ دربار کے لیے ایک خاتون سیکریٹری کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ خود تصنیف و تالیف کو وقت دے سکیں۔
میاں مظفر الدین کا کہنا ہے کہ ’میرے سیکریٹری نے بتایا کہ ایک لڑکی ہے جو تعلیم یافتہ بھی ہے اور ذمہ داری بھی سنبھال سکتی ہے۔ میں نے بلانے کا کہا تو ناصرہ آگئیں جنہوں نے ایم اے اسلامیات اور بی ایڈ کر رکھا تھا۔‘
’ہم نے مسلسل چار دن تک ان کا انٹرویو جاری رکھا۔ پھر چوتھے روز ہم نے انہیں کام پر رکھنے کا کہا۔ لیکن ساتھ ہی مجھے لگا کہ یہی وہ لڑکی ہے جس میں میرے کوائف پورے ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنے سیکریٹری کو بتایا کہ اگر نکاح کے لیے خاتون ڈھونڈنی ہو تو وہ بالکل ناصرہ کی طرح ہونی چاہیے۔ میاں مظفر الدین کہتے ہیں کہ پرنسپل سیکریٹری نے ان سے ہی نکاح کا مشورہ دیا۔ میں نے ان کے گھر پیغام بھیجا تو شام ہوتے ہی خوش خبری سنا دی گئی کہ وہ اور ان کے گھر والے راضی ہیں۔
میاں مظفر الدین خواجہ نے اپنی بارات کو ڈھول کی تھاپ اور پوتے پوتیوں کے ڈانس کے ساتھ پُررونق بنایا (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)
ناصرہ کے گھر سے مثبت پیغام ملنے کے بعد میاں مظفر الدین خواجہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’خدا جب دیتا ہے تو چپڑ پھاڑ کے دیتا ہے۔‘
15 مارچ کو ہی ان کا نکاح ہوا اور ناصرہ کی رخصتی کی تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر خود میاں مظفر الدین خواجہ نے بھی رقص کیا اور ان کے پوتے بھی ناچتے رہے۔
رخصتی کے بعد کئی دن گزر گئے لیکن آج بھی ان کے ہاں مبارک باد کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ناصرہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شادی کے بعد میں بہت اچھا محسوس کر رہی ہوں۔ میری طلاق ہوچکی تھی اور مجھے اس سے بہتر ساتھی نہیں مل سکتا تھا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے جب پیغام ملا تو میں نے اس کا ذکر اپنی والدہ سے کیا۔ میری والدہ نے کہا کہ پہلے سوچ لو پھر ہمیں کسی بھی طرح کا الزام نہیں دینا لیکن میں فیصلہ کر چکی تھی۔‘
’مجھ سے ان کی تنہائی دیکھی نہیں جا رہی تھی اور مجھے بھی لکھنے پڑھنے کا شوق ہے تو ہماری جوڑی بہت اچھی بنی ہے۔ میرا خوب استقبال ہوا اور ان کو گھر والوں نے بہت عزت دی ہے۔‘
ناصرہ کہتی ہیں کہ ’میرا اب مقصد یہی ہے کہ میں اپنے شوہر کا خواب پورا کروں، تصنیف و تالیف میں بھی ان کی مدد کروں اور اُن سے اُن کا ہنر بھی سیکھوں۔‘
دوسری شادی کے بعد میاں مظفر الدین خواجہ نے اپنی نئی نویلی دُلہن کے لیے اشعار بھی لکھے۔ وہ لکھتے ہیں:
بن تیرے ناصرہ گزارا نہیں ہے
اب تیری جدائی گوارا نہیں ہے
ہے کس کی عطا کا کرشمہ مظفر
میں نے تو تم کو پکارا نہیں ہے