’ہمیشہ کام کرنے اور کبھی آرام نہ کرنے‘ کا رواج جو نوکری پیشہ افراد کو ذہنی طور پر توڑ رہا ہے

ہمیشہ کام کرنا اور کبھی آرام نہ کرنے کا رواج، جو ڈیجیٹلائزیشن کے عروج کے ساتھ پھیل گیا ہے، کام کے دباؤ کی اس سطح کو مزید بڑھا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے بچنا ممکن ہے۔
work
Getty Images

سنہ 2020 میں ایمی ہیلتھ کیئر کی ایکبڑی کمپنی کے لیے بطور مارکیٹنگ ایگزیکٹو کام کر رہی تھیں اور وہ مسلسل دباؤ میں تھیں۔

ایک دن وہ میٹنگ کروانے میں مصروف تھیں کہ اچانک ان کا سر چکرا گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ میں پانی کی کمی کا شکار ہوں، یا شاید میں نے مناسب مقدار میں کچھ کھایا نہیں تھا، لیکن یہ کیفیت ایسے ہی رہی، اس لمحے کے بعد، مجھے سب کچھ تاریک لگنے لگا۔‘

انھیں مسلسل ایک آواز سنائی دے رہی تھی۔ انھوں نے اپنے شوہر کو اپنی اس کیفیت کے بارے میں بتایا کہ یہ ایسے تھا کہ جیسے سمندر میں جا کر طبیعت خراب ہونے لگتی ہے اور ایسے محسوس ہو رہا ہو کہ جہاز تباہ ہو رہا ہو یا ٹوٹ رہا ہو۔

وہ بتاتی ہیں کہ اچانک مجھے کمزوری محسوس ہونے لگی۔ ایمی کو علاج کے لیے کئی ماہ کی چھٹی لینا پڑی۔ وہ کہتی ہیں کہ میری ذہنی صحت خراب ہو رہی تھی۔

’مجھے نہاتے ہوئے چکر آتے تھے اور میں بیمار محسوس کرتی تھی۔ میں اپنے بچوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی تھی یہ میرا جسم تھا جو کہہ رہا تھا کہ بس!‘

برین فوگ یا دماغ کا کسی کام پر توجہ نہ رکھ پانا، تھکاوٹ، کام کرنے کی امنگ میں کمی اور ذہنی تھکاوٹ کی دیگر علامات کو باآسانی نظرانداز کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنے کے آپ کی صحت پر بہت خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ایمی کو احساس ہوا کہ ان کی اس حالت کا تعلق ان کے کام سے ہے اور یہ ایک تشویشناک بات تھی۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے میں نفسیات کی پروفیسر کرسٹینا مسلیچ نے پہلی بار اس اصطلاح کا استعمال کئی دہائیوں قبل کیا تھا۔

اسے طویل عرصے تک کام کے دباؤ کے ردعمل سے منسلک کیا گیا ہے جسے درست طریقے سے نمٹا نہیں گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی طبّی حالت یا تشخیص نہیں ہے، اس لیے اس کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے سنہ 2019 میں اس رجحان کو ’برن آؤٹ سنڈروم‘ کے طور پر تسلیم کیا اور اور اس کی مخصوص علامات کی نشاندہی کی۔

کنگز گلوبل انسٹیٹیوٹ برائے خواتین کی کی سربراہ پروفیسر ہیجونگ چانگ نے خبردار کیا کہ ’ہم بہت زیادہ محنت کر رہے ہیں، حد سے زیادہ۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیشہ کام کرنے اور کبھی آرام نہ کرنے‘ کا رواج، جو ڈیجیٹلائزیشن کے عروج کے ساتھ پھیل گیا ہے، کام کے دباؤ کی اس سطح کو مزید بڑھا رہا ہے۔‘

پروفیسر چانگ نے خبردار کیا ہے کہ زیادہ کام کی وجہ سے پیدا ہونے والا ذہنی تناؤ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ کچھ ممالک نے رپورٹ کیا ہے کہ یہ 70 فیصد سے زیادہ کارکنوں کو متاثر کرتا ہے۔

یہ صورت حال مالی نقصان کا باعث بھی بنتی ہے۔ اے ایکس اے انشورنس کمپنی کے 2024 کے مطالعے کے مطابق، اس سے برطانوی معیشت پر سالانہ 102 بلین پاؤنڈ سے زیادہ لاگت آتی ہے۔

ذہنی تھکاوٹ
Getty Images

علامات کو پہچاننا

تھکاوٹ کے علاوہ، ماہرین توجہ دینے کے لیے دو اہم علامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کام سے تھک گئے ہیں، اور دوسرا یہ کہ آپ کو برا لگتا ہے جب آپ کام کرتے ہیں۔

ڈاکٹر پلمبلی کا کہنا ہے کہ ’ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے کام میں اس نکتے پر توجہ نہ دے رہے ہوں۔ مثال کے طور پر آپ میٹنگ یا پریزنٹیشن کے لیے تیاری نہیں کرتے۔

بہت سے لوگ اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ سوچ رہے ہیں۔

’آپ ہر وقت فرار کے بارے میں سوچتے ہیں۔ میرے کچھ کلائنٹ کہتے ہیں کہ ’کاش مجھے کووڈ ہوتا۔‘

برن آؤٹ
Getty Images

تھکاوٹ کے پانچ مراحل

پہلا مرحلہ کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ آپ ہر چیز پر ہاں کہتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ کام کرنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ بہت زیادہ محنت کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں تناؤ بڑھتا ہے۔

دوسرا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ان چیزوں کو ترک کرنے لگتے ہیں جو پہلے آپ کے لیے اہم تھیں، جیسے ملاقاتیں یا دوستوں سے ملاقات۔ آپ اپنے تجربات کا پورا ذخیرہ کھو سکتے ہیں۔ اب آپ مزید ان چیزوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے جن میں آپ کو مزہ آتا تھا۔ ایک توجہ والا اہم کام شاید ایک جدوجہد بن جائے۔

پھر آپ غیر متحرک محسوس کرنے لگتے ہیں۔ مستقل طور پر افسردگی کا احساس بے حسی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ تنہائی کے احساس میں بدل سکتا ہے کہ آپ اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت سے لوگوں کی موجودگی کو محسوس نہیں کرتے ہیں۔

اب آپ کو تھکاوٹ محسوس ہونے لگتی ہے اور آپ دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرنے سے توانائی حاصل نہیں کر سکتے۔ نتیجتاً آپ کو کامیابی محسوس نہیں ہوتی اور آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کی موجودگی کا کوئی اثر نہیں ہے۔

جب ملازمین ذہنی تھکاوٹ کی حالت میں پہنچ جاتے ہیں، تو وہ مکمل طور پر تھک جاتے ہیں اور جذباتی طور پر بے حس ہو جاتے ہیں۔ آپ شاید اس صورت حال میں کام جاری رکھ سکتے ہیں، لیکن درحقیقت آپ اپنے روزمرہ کے معمولات کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ ذہنی تھکن کا آخری طبّی مرحلہ ہے، جس میں لوگ اس حالت سے نکلنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ پچھلی نسلوں نے اسے ’ٹوٹ جانے‘ کے معنی سے تعبیر کیا ہو گا۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ اس پر بات کرنے یا گھر سے باہر جانے سے قاصر ہوتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ خوف سے مفلوج ہو جاتے ہیں۔ انھیں بحالی میں مہینوں یا کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔

برن آؤٹ
Getty Images

چھ عوامل جو خطرات کو مزید بڑھاتے ہیں

کام کا بوجھ - بوجھ کا احساس ہونا، بہت زیادہ کام کرنے کے لیے کافی وقت یا وسائل کا نہ ہونا۔

کنٹرول کی کمی - روزمرّہ کے فیصلوں کے سلسلے میں بہت کم خود مختاری۔

انعامات کا فقدان - اچھا کام کرنے پر تعریف یا انعام کی کمی۔

سماجی خرابی - مینیجرز، ساتھیوں، مریضوں، یا کلائنٹس کے ساتھ معاون تعلقات کا فقدان مسائل کو حل کرنا مشکل بناتا ہے اورایک زہریلا ماحول پیدا کرتا ہے، جس سے آپ کو ہراساں کیے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔

انصاف کی کمی - امتیازی سلوک کا سامنا کرنا، کام کی جگہ پر برابری کی کمی، یا ترقی کی راہ میں رکاوٹیں۔

اقدار کا تصادم - ایسے ماحول میں کام کرنا جو آپ کی اخلاقیات سے متصادم ہو۔

برن آؤٹ
Getty Images

ذہنی تھکاوٹ سے صحت یاب ہونا

پروفیسر سبین سونٹاگ نے ملازمین کی صلاحیتوں کا جائزہ لیا۔ انھوں نے دیکھا کہ جو ملازمین ’ذہنی طور پر زیادہ مطالبات کا سامنا کرنے کے بعد کام سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ ان میں ’جذباتی اور ذہنی تھکاوٹ کا امکان کم ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر پلمبلی کسی ایسے شخص کو تلاش کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جس سے آپ رابطہ کر سکتے ہیں وہ ’شاید آپ کو روشنی کی کرن دکھا سکے۔‘ مشیر ہونا ضروری نہیں۔ شاید کوئی دوست یا ساتھی ہو۔

’برن آؤٹ ڈاکٹر‘ کی مصنفہ ڈاکٹر کلیئر ایشلے کہتی ہیں کہ ’معروف خیال کے برعکس، آپ کو برن آؤٹ سے بچنے کے لیے اپنی زندگی میں بہت بڑی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جیسے کہ اپنی نوکری چھوڑنا۔‘

اس کے بجائے وہ تین سطحوں پر توجہ مرکوز کرنے کو کہتی ہیں۔ اپنے کام پر قابو پانا، اپنی صحت کا خیال کرنا اور ایک معاون کمیونٹی کی تعمیر۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.