گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران ٹرمپ نے یوکرین کے صدر زیلینسکی کو کیمروں کے سامنے تقریبا جھاڑ پلائی، اور کئی مواقع پر مطالبہ کیا کہ وہ رعایت دکھائیں۔ دوسری جانب ٹرمپ نے پوتن کی تعریفیں کیں اور بظاہر روسی مطالبات تسلیم کرتے دکھائی دیے۔ لیکن حالیہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک ڈرامائی یوٹرن لے چکے ہیں۔

یوکرین میں جنگ بندی اور امن قائم کرنے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو روسی صدر ولادیمیر پوتن پر ’شدید غصہ‘ آ چکا ہے۔
این بی سی نیوز کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کو پوتن پر غصہ اس لیے ہے کیوں کہ انھوں نے یوکرین کے صدر زیلینسکی کی ’ساکھ پر حملہ کیا‘ اور ساتھ ہی ساتھ دھمکی دی کہ وہ روسی تیل خریدنے والے ممالک پر 50 فیصد ٹیرف عائد کر دیں گے اگر جنگ بندی معاہدے پر اتفاق نہ ہوا۔
ٹرمپ نے انٹرویو میں کہا کہ ’اگر روس اور میں یوکرین میں خون ریزی روکنے کے لیے معاہدہ نہیں کر پاتے، اور اگر میرے خیال میں یہ روس کی غلطی ہوئی، جو ہو سکتا ہے کہ نہ ہو، تو میں ٹیرف لگا دوں گا، روسی تیل پر۔‘
ٹرمپ کا یہ بیان واضح طور پر ایک بڑی تبدیلی ہے، خصوصی طور پر اس لہجے میں جو اب تک ٹرمپ نے روس اور پوتن کے بارے میں رکھا ہوا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے اس بارے میں بیان جاری کرنے کی درخواست پر ردعمل نہیں دیا ہے۔ تاہم یورپی سربراہان کو اب تک یہ تشویش تھی کہ ٹرمپ یوکرین میں جنگ بندی کے مذاکرات میں نتائج سامنے آنے سے قبل ہی پوتن سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران ٹرمپ نے یوکرین کے صدر زیلینسکی کو کیمروں کے سامنے تقریبا جھاڑ پلائی، اور کئی مواقع پر مطالبہ کیا کہ وہ رعایت دکھائیں۔ دوسری جانب ٹرمپ نے پوتن کی تعریفیں کیں اور بظاہر روسی مطالبات تسلیم کرتے دکھائی دیے۔
لیکن حالیہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک ڈرامائی یوٹرن لے چکے ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ امریکہ نے سنجیدگی سے روس کو مذاکرات میں سست روی اپنانے کی وجہ سے نتائج کی دھمکی دی ہے جس سے سفارتی دباؤ اب ماسکو پر ہو گا۔
یورپی سربراہان کو اب تک یہ تشویش تھی کہ ٹرمپ یوکرین میں جنگ بندی کے مذاکرات میں نتائج سامنے آنے سے قبل ہی پوتن سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیںٹرمپ نے، این بی سی نیوز کے مطابق، فون پر دیے جانے والے اس دس منٹ کے انٹرویو میں کہا کہ وہ ’بہت غصے‘ میں ہیں کیوں کہ ٹرمپ نے زیلینسکی کی قیادت کی ساکھ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم ٹرمپ خود بھی یوکرین کے صدر زیلینسکی کو ایک آمر قرار دے چکے ہیں اور یہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں کہ یوکرین میں انتخابات کروائے جائیں۔
ٹرمپ نے انٹرویو میں کہا کہ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے بہت غصہ آیا جب پوتن نے زیلینسکی کی ساکھ کو نشانہ بنایا کیوں کہ اس طرح ہم درست سمت میں نہیں جا رہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ نئی قیادت کا مطلب ہے کہ آپ کا معاہدہ زیادہ دیر نہیں رہے گا۔‘
ٹرمپ نے پوتن کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ روس کو ان کے غصے کا علم ہے تاہم ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ روسی سربراہ کے ساتھ ان کا ’بہت اچھا تعلق‘ ہے اور اگر وہ درست قدم اٹھائیں گے تو ’غصہ جلد ختم ہو جائے گا۔‘
ٹرمپ نے روس کی جانب سے یوکرین میں جنگ بندی نہ کرنے کی صورت میں روسی معیشت کو مذید نشانہ بنانے کی دھمکی دی، اگر ان کے خیال میں ایسا پوتن کی وجہ سے ہوا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ میں فروخت ہونے والی تمام مصنوعات اور تیل پر 25 فیصد تک ثانوی ٹیرف عائد ہو گا۔ ثانوی ٹیرف ان ممالک پر عائد ہوتا ہے جو کسی تیسرے ملک سے کاروبار کرتے ہیں یعنی ایسے ممالک جو روس سے تجارت کر رہے ہیں یا تیل خرید رہے ہیں، امریکہ میں ان کی مصنوعات پر 50 فیصد تک ٹیرف لگ سکتا ہے۔ ان ممالک میں چین اور انڈیا سرفہرست ہیں۔
اس انٹرویو کے بعد یوکرین کے صدر زیلینسکی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’روس اب تک بہانے تلاش کر رہا ہے کہ کسی طرح بھی جنگ کو طول دیا جائے۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’پوتن 2014 جیسا کھیل کھیل رہے ہیں۔‘ ان کا اشارہ اس وقت کی طرف تھا جب روس نے کریمیا پر قبضہ کرلیا تھا۔
زیلینسکی نے لکھا کہ ’یہ سب کے لیے خطرناک ہے اور ایسے میں امریکہ، یورپ اور امن کے خواہشمند عالمی شراکت داروں کی جانب سے مناسب جواب دیا جانا چاہیے۔‘
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ روسی سربراہ اگر درست قدم اٹھائیں گے تو ’غصہ جلد ختم ہو جائے گا‘تاہم ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ رواں ہفتے کے اختتام پر پوتن سے دوبارہ بات کریں گے۔ واضح رہے کہ روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا تھا اور اس وقت روس یوکرین کے 20 فیصد علاقے پر قابض ہے۔
اس جنگ کے چوتھے سال تک روسی فوج کے لیے لڑنے والے تقریبا ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بی بی سی روسی سروس کے علاوہ خودمختار میڈیا گروپ میڈیازونا اور ہلاکتوں پر نظر رکھںے والے رضاکاروں کی تحقیق پر مشتمل ہیں۔
یوکرین نے آخری بار اپنے اعداد و شمار دسمبر 2024 میں جاری کیے تھے جب صدر زیلینسکی نے تسلیم کیا تھا کہ اب تک ان کے 43 ہزار فوجی اور افسران ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم مغربی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں اور حقیقت میں اس سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
اسی انٹرویو کے دوران ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ مذاق نہیں کر رہے تھے جب انھوں نے تیسری بار صدارت کی دوڑ میں حصہ لینے کی بات کی تھی۔ واضح رہے کہ امریکی آئین میں اس کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہے لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ ابھی بہت وقت ہے۔‘ اسی انٹرویو کے دوران ٹرمپ نے ایران پر بمباری کی دھمکی بھی دی اگر تہران جوہری معاہدے پر آمادہ نہیں ہوا۔