روسی حملے کا خطرہ جس نے ناروے جیسے پُرامن ملک کو بھی خفیہ فوجی بنکرز بحال کرنے پر مجبور کر دیا ہے

ناروے ایک ایسی سرزمین ہے جہاں متعدد بنکرز موجود ہیں۔ سرد جنگ کے عروج پر کم آبادی والے پہاڑی ملک میں تقریباً تین ہزار زیرِ زمین ایسے اڈّے موجود تھے جہاں ناروے اور اس کے اتحادی ممالک کی فوجیں چھپ سکتی تھیں اور کسی بھی حملہ آور کی زندگی مشکل بنا سکتی تھیں۔

ہر برس لاکھوں کی تعداد میں سیاح ناروے کا رُخ کرتے ہیں لیکن یہاں ایک خفیہ دنیا بھی ہے جو انھیں کبھی نظر نہیں آتی۔ ان کی نظروں سے اوجھل دور پہاڑی غاروں میں لڑاکا طیارے اور جوہری آبدوزیں موجود ہیں۔

ناروے ایک ایسی سرزمین ہے جہاں متعدد بنکرز موجود ہیں۔ سرد جنگ کے عروج پر کم آبادی والے پہاڑی ملک میں تقریباً تین ہزار زیرِ زمین ایسے اڈّے موجود تھے جہاں ناروے اور اس کے اتحادی ممالک کی فوجیں چھپ سکتی تھیں اور کسی بھی حملہ آور کی زندگی مشکل بنا سکتی تھیں۔

ناروے دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر کی اٹلانٹک وال کا حصہ تھا اور اس سے قبل بھی وہاں قائم بنکرز کی موجودگی سے ملک کے لوگ ناآشنا تھے۔

اب جب یوکرین کی جنگ مشرقی یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ایسے میں ناروے سرد جنگ کے دوران بنائے گئے اپنے دو زیرِ زمین اڈّوں کو ایک بار پھر بحال کر رہا ہے۔

آرکٹک سرکل کے شمال میں روس کے قریب ناروے کی سرحد پر بارڈوفوس ایئر سٹیشن اور الوسورن بحری بیس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کہ آپ کوئی جاسوسی فلم دیکھ رہے ہوں۔ ان کی دیواریں پتھریلی ہیں لیکن کنکریٹ سے بنائی گئی ہیں اور یہاں عسکری ساز و سامان بھی موجود ہے۔

الوسورن بحری بیس کو پہاڑ کاٹ کر بنایا گیا ہے اور تقریباً 900 فٹ کا بڑا پتھر اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اس بیس کا باہری ٹنل تقریباً تین ہزار فٹ لمبا ہے جس کا ایک دیوہیکل دروازہ بھی ہے۔

لیکن ان بنکرز کی آج کیوں ضرورت پڑ رہی ہے؟ یہ بنکرز سوویت یونین کی مہم جوئی کے سبب بنائے گئے تھے اور اب اس کا کوئی وجود باقی نہیں ہے۔ کیا ایسے مہنگے بنکرز پر ایک بار پھر رقم لگانا دانشمندانہ عمل ہے؟

بارڈوفوس ایئر سٹیشن کی نمائشی ویڈیو میں لاک ہیڈ مارٹن کے ایف 35 طیارے اس بنکر کے اوپر کسی شکاری کی طرح آسمان پر چکر لگاتے ہوئے نظر آئے تھے۔

یہ ایئر سٹیشن سنہ 1938 میں جرمن لڑاکا طیاروں کے استعمال میں بھی رہا ہے جو قریب ہی موجود ایک بحری بیڑے کی حفاظت پر مامور تھے۔

جنگ کی ابتدا کے بعد رائل نارویجین ایئرفورس پہاڑ میں بنائے گئے اس ایئر سٹیشن میں اپنے لڑاکا طیاروں کو سویت حملوں سے محفوظرکھنے کے لیے چھپاتی تھی۔ اس ایئربیس میں ہر چیز موجود تھی جس کی ضرورت لڑاکا طیاروں یا اس کے پائلٹس کو محسوس ہوتی تھی۔

یہاں فیول کا ذخیرہ، اسلحے کا ذخیرہ اور جہازوں کی مرمت کے لیے بھی جگہ موجود تھی۔

پھر تقریباً 40 برس پہلے اس ایئربیس کو بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بارڈوفوس ایئر سٹیشن کی ضرورت ایک پھر پڑ گئی ہے۔

اس ایئربیس کو اپ گریڈ کیا گیا ہے تاکہ روس کے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں ناروے ایف 35 لڑاکا طیاروں کو محفوظ رکھا جا سکے۔

یوکرین پر روس کے حملے نے دنیا کو دکھایا ہے کہ اس کے مہنگے عسکری جہازوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک ایف 35 طیارے کی قیمت آٹھ کروڑ سے 10 کروڑ ڈالر تک ہے اور گراؤنڈ پر موجود ان طیاروں پر اگر کمیکازی ڈرون سے حملے کیے جائیں تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے کیونکہ ایک کمیکازی ڈرون کی قیمت صرف 300 ڈالر ہے۔

ڈرون حملوں کے خطرے کو محدود کرنے کے لیے لڑاکا طیاروں کو مختلف مقامات پر منتقل کیا جا سکتا ہے اور اس سے بہتر یہ ہوگا کہ ان طیاروں کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔ اس کام کے لیے پہاڑوں سے بہتر دوسری کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔

آلوسورن بحری بیس کیوں بنائی گئی تھی؟ اس بات کو جاننے کے لیے اس علاقے کے نقشے پر صرف ایک نگاہ ڈالنا ہی کافی ہے۔ یہ ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں ناروے کا سمندر بحیرہ بیرنٹس سے ملتا ہے۔ جزیرہ بیئر اور سوالبارڈ کو ایک زمانے میں 'دا بیئر گیپ' کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں اٹلانٹک میں باہر نکلنے والی روسی آبدوزیں اور جنگی جہاز گھسنے سے قاصر تھے۔

اس بحری بیس کی تعمیر 1950 کی دہائی کے بعد مختلف مرحلوں میں ہوئی تھی جس کا مقصد اس 'بیئر گیپ' کو 'بیئر ٹریپ' میں تبدیل کرنا تھا۔

اس بحری اڈے کی تعمیر میں 450 ملین ڈالر خرچ ہوئے تھے اور یہاں بحری اور ہوائی طیاروں دونوں کو کھڑا کرنے کی جگہ موجود ہے۔ اس بیس پر خرچ ہونے والی رقم کا بڑا حصہ نیٹو نے دیا تھا لیکن جب تک یہ مکمل ہوئی تب تک سویت یونین ٹوٹ چکا تھا۔

سرد جنگ میں کمی آنے کے باوجود بھی آرکٹک میں مشن پر نکلنے والے نیٹو کے بحری جہاز یہاں لنگر انداز ہوتے تھے۔

سنہ 2009 میں روس کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرے کے باوجود بھی ناروے کی پارلیمنٹ نے اس خفیہ بحری اڈےکو بند کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد یہ جگہ نجی سرمایہ کاروں کو صرف سات کروڑ پاونڈز میں فروخت کر دی گئی تھی۔

اس کے بعد یہاں موجود سُرنگیں کاروں اور ٹرکوں سے بھر گئی تھیں۔ اس بیس کے نئے مالک نے دو روسی ریسرچ جہازوں اور ماہی گیروں کی کشتیوں کو بھی اسے استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔

اس حوالے سے روسی میڈیا نے گمراہ کُن خبریں بھی نشر کی تھیں کہ اس اڈے کے نئے مالک بھی روسی ہی ہیں۔

سنہ 2020 میں ول نور گورنمنٹل سروسز نے اس جگہ پر قائم کمپنی کا بڑا حصہ خرید لیا۔ اس کے بعد سے یہاں مرمت اور اپ گریڈیشن کا کام شروع ہوا اور اب یہاں ناروے کی فوج کی موجودگی بڑھ رہی ہے۔

امریکی بحریہ بھی یہاں اپنی جوہری آبدوزیں کھڑی کرنے میں دلچسپی دکھا رہی ہے۔

ناروے کے ان خفیہ اڈوں کی بحالی کی ایک ہی وجہ ہے: روس۔

ناروے کو سکیورٹی خدشات سنہ 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد محسوس نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ تحفظات اسے پہلے سے تھے۔

یوکرین پر روس کے حملے نے دنیا کو دکھایا ہے کہ اس کے مہنگے عسکری جہازوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک ایف 35 طیارے کی قیمت آٹھ کروڑ سے 10 کروڑ ڈالر تک ہے اور گراؤنڈ پر موجود ان طیاروں پر اگر کمیکازی ڈرون سے حملے کیے جائیں تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے کیونکہ ایک کمیکازی ڈرون کی قیمت صرف 300 ڈالر ہے۔

ڈرون حملوں کے خطرے کو محدود کرنے کے لیے لڑاکا طیاروں کو مختلف مقامات پر منتقل کیا جا سکتا ہے اور اس سے بہتر یہ ہوگا کہ ان طیاروں کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔ اس کام کے لیے پہاڑوں سے بہتر دوسری کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔

آلوسورن بحری بیس کیوں بنائی گئی تھی؟ اس بات کو جاننے کے لیے اس علاقے کے نقشے پر صرف ایک نگاہ ڈالنا ہی کافی ہے۔ یہ ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں ناروے کا سمندر بحیرہ بیرنٹس سے ملتا ہے۔ جزیرہ بیئر اور سوالبارڈ کو ایک زمانے میں 'دا بیئر گیپ' کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں اٹلانٹک میں باہر نکلنے والی روسی آبدوزیں اور جنگی جہاز گھسنے سے قاصر تھے۔

اس بحری بیس کی تعمیر 1950 کی دہائی کے بعد مختلف مرحلوں میں ہوئی تھی جس کا مقصد اس 'بیئر گیپ' کو 'بیئر ٹریپ' میں تبدیل کرنا تھا۔

اس بحری اڈے کی تعمیر میں 450 ملین ڈالر خرچ ہوئے تھے اور یہاں بحری اور ہوائی طیاروں دونوں کو کھڑا کرنے کی جگہ موجود ہے۔ اس بیس پر خرچ ہونے والی رقم کا بڑا حصہ نیٹو نے دیا تھا لیکن جب تک یہ مکمل ہوئی تب تک سویت یونین ٹوٹ چکا تھا۔

سرد جنگ میں کمی آنے کے باوجود بھی آرکٹک میں مشن پر نکلنے والے نیٹو کے بحری جہاز یہاں لنگر انداز ہوتے تھے۔

سنہ 2009 میں روس کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرے کے باوجود بھی ناروے کی پارلیمنٹ نے اس خفیہ بحری اڈےکو بند کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد یہ جگہ نجی سرمایہ کاروں کو صرف سات کروڑ پاونڈز میں فروخت کر دی گئی تھی۔

اس کے بعد یہاں موجود سُرنگیں کاروں اور ٹرکوں سے بھر گئی تھیں۔ اس بیس کے نئے مالک نے دو روسی ریسرچ جہازوں اور ماہی گیروں کی کشتیوں کو بھی اسے استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔

اس حوالے سے روسی میڈیا نے گمراہ کُن خبریں بھی نشر کی تھیں کہ اس اڈے کے نئے مالک بھی روسی ہی ہیں۔

سنہ 2020 میں ول نور گورنمنٹل سروسز نے اس جگہ پر قائم کمپنی کا بڑا حصہ خرید لیا۔ اس کے بعد سے یہاں مرمت اور اپ گریڈیشن کا کام شروع ہوا اور اب یہاں ناروے کی فوج کی موجودگی بڑھ رہی ہے۔

امریکی بحریہ بھی یہاں اپنی جوہری آبدوزیں کھڑی کرنے میں دلچسپی دکھا رہی ہے۔

ناروے کے ان خفیہ اڈوں کی بحالی کی ایک ہی وجہ ہے: روس۔

ناروے کو سکیورٹی خدشات سنہ 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد محسوس نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ تحفظات اسے پہلے سے تھے۔

فرتیوف نانیسن انسٹیٹیوٹ سے منسلک ریسرچ فیلو آندریاس آستھاجین کہتے ہیں کہ 'سنہ 2006 اور 2008 میں روس کے شمالی بیڑے میں بڑی سرمایہ کاری ہو رہی تھی اور آرکٹک میں روسی فوج کی مشقیں بھی چل رہی تھی۔ روس کی آرکٹک میں موجود وسائل میں دلچسپی بھی بڑھ رہی تھی۔'

وہ کہتے ہیں کہ 'پوتن کا روس سویت یونین تو نہیں ہے۔ لیکن ناروے کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو دونوں معاملات ایک جیسے ہی ہیں؟ اگر جنگ شروع ہو جاتی ہے تو آپ روس کو کیسے روکیں گے؟ آپ روس سے کیسے لڑیں گے؟'

صرف ناروے ہی سرد جنگ کے دوران بنائے گئے اڈے بحال نہیں کر رہا بلکہ حالیہ برسوں میں روس نے بھی آرکٹک میں موجود اپنے 50 سے زائد اڈوں کو بحال کیا ہے۔ سویڈین کی بحریہ بھی جزیرہ مسکو میں اپنے زیر زمین بحری اڈے میں واپس آ چکی ہے جو کہ سٹاک ہوم سے صرف 25 میل دور ہے۔

دیگر ممالک صرف اپنے پُرانے بنکرز ہی نہیں بحال کر رہے بلکہ وہ نئے عسکری اڈے تعمیر بھی کر رہے ہیں۔

چین نے جزیرہ ہائنان پر متنازع ساؤتھ چائنا سی میں اپنی آبدوزوں کے لیے ایک بڑی بیس بنائی ہے، جبکہ وہ اپنے دارالحکومت بیجنگ میں ایک زیرِ زمین کمانڈ سینٹر بھی بنا رہا ہے۔

ایران نے بھی خلیج فارس میں ایک زیرِ زمین بحری اڈہ بنایا ہے اور اس نے 'زیرِ زمین میزائل سٹی' کی نمائش بھی کی تھی۔

عسکری بلاگر سر ہمفری کہتے ہیں کہ ’جوہری بنکرز بنانے کی سوچ بہت طاقتور ہے۔ میرے خیال میں اس کی جڑیں سرد جنگ سے ملتی ہیں اور خصوصاً یہ ڈاکٹر سٹریجن لو کمانڈ سینٹر سے متاثر ہے۔‘

مصنف پال اوزورک کہتے ہیں کہ ’کشتیاں، آبدوزوں اور جہازوں کو سرنگوں میں چھپانے سے انھیں فضائی بمباری سے بچایا جا سکتا ہے۔ اگر بنکر شکن بموں کا استعمال کیا جائے تب بھی حملوں کا خطرہ کم ہی ہو گا۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ شاید برطانیہ جیسے ممالک ناروے کے نقشِ قدم پر چلنے میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں کیونکہ اس پر خطیر رقم خرچ ہو گی۔

سرد جنگ کے دوران بنائے گئے بنکرز اور اڈوں کو برطانیہ میں فروخت کر دیا گیا تھا اور ان میں سے بیشتر اب نائٹ کلبز اور عجائب گھروں کا روپ دھار چکے ہیں۔ کچھ کو تباہ کر دیا گیا اور ایک کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔

دیگر بنکرز اب یا تو استعمال کے قابل نہیں رہے یا پھر بلاسٹ پروف نہیں رہے۔

پال اوزورک کہتے ہیں کہ ’ان بنکرز کی بحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ان پر خرچ ہونے والی رقم ہی ہو گی۔ ان بنکرز سے تمام ساز و سامان کو نکال لیا گیا ہو گا اور اب وہاں اس سامان کو دوبارہ پہنچانے یا وہاں کمیونیکیشن کیبلز کا جال بچھانا ایک مہنگا کام ہو گا۔‘

یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے کہ اگر انھیں الوسورن اڈے کی طرح بند کر دیا گیا ہے تو پھر ان کی سکیورٹی بیرونی انٹیلیجنس سروسز کے ہاتھوں کمپرومائزڈ ہو چکی ہو گی، چاہے یہاں روسی جہازوں نے دورےنہ بھی کیے ہوں۔

سر ہیپفری کہتے ہیں کہ ’اب ان اڈوں کے آپریشنل فوائد بھی محدود ہیں کیونکہ اب ہر کوئی ان کی یہاں موجودگی کے بارے میں جانتا ہے اور یہ گذشتہ 60 برسوں سے ایک ہدف رہے ہیں اور اب سیٹلائٹ کے ذریعے یہاں کے وینٹیلیشن شافٹ اور داخلی راستوں کی تصاویر کو دیکھا جا سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ان اڈوں کو قریبی علاقوں میں ہونے والے کسی جوہری بم حملے سے محفوظ رہنے کے لیے بنایا گیا تھا نہ کہ آج کے جدید دور میں کسی جی پی ایس گائیڈڈ بم کے حملے سے محفوظ رہنے کے لیے۔‘

البتہ برطانیہ میں سرد جنگ کے دوران بنکنگھم شائر میں بنایا جانے والا رائل ائیرفورس کمانڈ کا بنکر آج بھی زیر استعمال ہے جیسا کہ نارتھ ووڈ ہیڈ کوارٹر کا بنکر جو شمال مغربی لندن میں ایک فوجی ہیڈ کوارٹر ہے اور اسے 2006 سے 2011 کے دوران دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔

موڈ کورشام اب عسکری مواصلات کے لیے ایک خفیہ اڈہ ہے جو کورشام کی سرنگوں کے وسیع نیٹ ورک پر بنایا گیا ہے۔ یہ برطانوی حکومت کے نیوکلیئر وار ہیڈ کوارٹر کا مقام تھا، جن میں سے کچھ اب بھی فوج کے زیر استعمال ہیں۔

موتھبالڈ کے اڈوں کو عوام کو بتائے بغیر دوبارہ فعال کیا جا سکتا ہے۔

برطانوی کابینہ کے دفتر نے قومی سلامتی کی بنیاد پر جوہری جنگ کی منصوبہ بندی سے متعلق دستاویزات کو جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عوامی سطح پر جاری کی گئیں تھیں ان کو اب دوبارہ سے خفیہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

روس کے یوکرین پر حملے نے بہت سے لوگوں کو دنگ کر دیا تھا۔ 'اوزوراک کہتے ہیں کہ ’بالآخر اگر آپ کسی اچانک حملے سے خوفزدہ ہیں تو آپ کا فطری ردعمل یہ ہی ہے کہ آپ محفوظ رہنے کے لیے زیرِ زمین چلے جائیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.