ٹرمپ اپنی دوسری مدت کے اختتام پر 82 سال کے ہو جائیں گے۔ امریکی آئین یہ کہتا ہے کہ ’کوئی بھی شخص صدر کے عہدے کے لیے دو بار سے زیادہ منتخب نہیں ہو سکتا‘ لیکن ٹرمپ کے کچھ حامیوں نے تجویز کیا ہے کہ اس کا حل نکل سکتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ تیسری مدت کے لیے بھی صدارتی انتخاب لڑ سکتے ہیں اور یہ بات ’مذاق نہیں تھی۔‘
تاہم امریکی آئین یہ کہتا ہے کہ ’کوئی بھی شخص کسی بھی عہدے کے لیے دو بار سے زیادہ منتخب نہیں ہو سکتا‘ لیکن ٹرمپ کے کچھ حامیوں نے تجویز کیا ہے کہ اس کا حل نکل سکتا ہے۔
امریکی نیوز چینل این بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں جب ٹرمپ سے تیسری مدت کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بھی کہا کہ ’ایسے طریقے ہیں جو آپ کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔۔۔ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ میں ایسا کروں۔ لیکن میں بنیادی طور پر ان سے کہتا ہوں کہ ہمیں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ انتظامیہ ابھی بہت ابتدائی مرحلے میں ہے۔‘
ٹرمپ تیسری مدت کی بات کیوں کر رہے ہیں؟
ٹرمپ کے حامی آئین کو تبدیل کیے بغیر بھی کسی نہ کسی حل کے لیے بحث کر رہے ہیں (علامتی تصویر)ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی مدت کے اختتام پر 82 سال کے ہو جائیں گے۔ انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ’ملک کی مشکل ترین نوکری‘ میں اپنی خدمات جاری رکھنا چاہیں گے۔
اس کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ’مجھے کام کرنا پسند ہے۔‘
اس معاملے پر یہ ان کا پہلا تبصرہ نہیں ہے۔ اس سے قبل انھوں نے جنوری میں اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ ’یہ میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہو گا کہ ایک بار نہیں بلکہ دو، تین یا چار بار میں آپ کی خدمت کروں۔‘
تاہم، انھوں نے پھر کہا کہ یہ ’جعلی نیوز میڈیا‘ کے لیے ایک مذاق ہے۔
امریکی آئین کیا کہتا ہے؟
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ نائب صدر جے ڈی وینس کے ذریعے تیسری بار صدارتی کرسی تک پہنچ سکتے ہیںامریکی آئین کی 22 ویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ آئین کسی بھی شخص کو تیسری مدت کے لیے کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
آئین کے مطابق کوئی بھی شخص دو مرتبہ سے زیادہ صدر منتخب نہیں ہو سکتا۔
آئین یہ بھی کہتا ہے کہ ’کوئی بھی شخص جس نے دو سال سے زیادہ مدت تک صدر کی حیثیت سے ان حالات میں خدمات انجام دی ہوں کہ جب صدر کوئی اور منتخب ہوا ہو تو ایسا شخص بھی ایک سے زیادہ مرتبہ صدر منتخب نہیں کیا جائے گا۔‘
یاد رہے کہ امریکی آئین میں کسی بھی تبدیلی کے لیے سینیٹ اور ایوان نمائندگان دونوں میں دو تہائی ووٹوں سے منظوری درکار ہوگی۔ اس کے ساتھ اس تبدیلی کے لیے امریکہ کی 50 ریاستوں میں سے تین چوتھائی ریاستوں کی منظوری بھی ضروری ہے۔
ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کانگریس کے دونوں ایوانوں (امریکی پارلیمنٹ) کو کنٹرول کرتی ہے لیکن اس کے پاس اس آئینی ترمیم کے لیے درکار اکثریت نہیں ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کی 50 میں سے 18 ریاستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی برسراقتدار ہے۔
ٹرمپ تیسری بار صدر کیسے بن سکتے ہیں؟
امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹنتاہم ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکی آئین میں خامیاں ہیں۔
ان کا موقف ہے کہ 22 ویں ترمیم واضح طور پر کسی شخص کو دو بار سے زیادہ صدارت کے لیے ’منتخب‘ ہونے سے روکتی ہے لیکن ’جانشینی‘ کے بارے میں کچھ نہیں کہتی ہے۔
اس نظریہ کے مطابق ٹرمپ 2028 کے انتخابات میں نائب صدر کے عہدے کے لیے امیدوار بن سکتے ہیں جبکہ موجودہ نائب صدر جے ڈی وینس صدارتی امیدوار ہوں سکتے ہیں اور اگر وہ جیت جاتے ہیں تو وینس وائٹ ہاؤس میں حلف اٹھانے کے فوراً بعد مستعفی ہو جائیں تو ٹرمپ کو صدر کا عہدہ سنبھالنے کا موقع مل جائے گا۔
پوڈکاسٹر اور ٹرمپ کے سابق مشیر سٹیو بینن نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ ٹرمپ ’دوبارہ انتخابات میں حصہ لیں گے اور جیت جائیں گے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ’کچھ آپشنز‘ موجود ہیں۔
جنوری میں ریاست ٹینیسی کے رپبلکن کانگریس مین اینڈی اوگلس نے ایوان نمائندگان میں ایک قرارداد پیش کی جس میں صدر کو تیسری بار منتخب کرنے کی اجازت دینے کے لیے آئینی ترمیم کا مطالبہ کیا گیا بشرطیکہ وہ مسلسل نہ ہوں۔
اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام سابق صدور میں سے صرف ٹرمپ ہی اہل ہوں گے۔ براک اوباما، بل کلنٹن اور جارج ڈبلیو بش سب نے لگاتار دو مرتبہ خدمات انجام دیں، جب کہ ٹرمپ سنہ 2016 میں جیتے، سنہ 2020 میں ہارے اور سنہ 2024 میں دوبارہ کامیاب ہوئے۔
بہر حال آئین میں ترمیم کے لیے بھاری شرائط کے سامنے اوگلس کی تجویز کسی دیوانے کا خواب لگتی ہے لیکن لوگ اس پر بات کرنے لگے ہیں۔
ٹرمپ کی تیسری مدت کی مخالفت کون کر رہا ہے؟
ٹرمپ کے تیسری مدت کے لیے منتخب ہونے کے ارادے کی نہ صرف اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین بلکہ ان کی اپنی رپبلکن پارٹی کے کچھ اراکین نے بھی مخالفت کی ہےٹرمپ کی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کو ایسی باتوں پر سخت اعتراض ہے۔
ٹرمپ کے پہلے مواخذے میں لیڈ کونسل کے طور پر کام کرنے والے نیویارک کے نمائندے ڈینیئل گولڈمین نے کہا کہ ’یہ حکومت پر قبضہ کرنے اور ہماری جمہوریت کو تباہ کرنے کی ان کی بظاہر کوشش میں ایک اور اضافہ ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر امریکی پارلیمنٹ کے رپبلکن ارکان آئین پر یقین رکھتے ہیں تو وہ ٹرمپ کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے عزائم کی کھل کر مخالفت کریں گے۔‘
ٹرمپ کی رپبلکن پارٹی کے کچھ لوگ بھی اسے برا خیال تصور کرتے ہیں۔
اوکلاہوما کے ریپبلکن سینیٹر مارکوین مولن نے فروری میں کہا تھا کہ وہ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس واپس لانے کی کوشش کی حمایت نہیں کریں گے۔
مولن نے این بی سی کو بتایا کہ ’سب سے پہلے یہ کہ ہم اس وقت تک آئین کو تبدیل نہیں کر رہے ہیں جب تک کہ امریکی عوام ایسا کرنے کا فیصلہ نہ کریں۔‘
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
وائٹ ہاؤسیونیورسٹی آف نوٹرڈیم میں انتخابی قانون کے پروفیسر ڈیرک مولر نے کہا کہ آئین کی 12ویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ’کوئی بھی شخص جو آئینی طور پر صدر بننے کے لیے نااہل ہے وہ ریاست ہائے متحدہ کا نائب صدر بننے کا اہل نہیں ہو گا۔‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے خیال میں کسی بھی شخص کا دو مرتبہ عہدہ رکھنے کی صورت میں وہ نائب صدر کے عہدے کے امیدوار کے طور پر بھی الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ’مضحکہ خیز چال‘ موجود ہے۔‘
بوسٹن کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں آئینی قانون کے پروفیسر جیریمی پال نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ تیسری مدت کے لیے ’کوئی قابل اعتبار قانونی دلیل نہیں ہے۔‘
چار بار امریکی صدر
فرینکلن ڈی روزویلٹ چار بار امریکہ کے صدر منتخب ہوئے (فائل فوٹو)فرینکلن ڈی روزویلٹ چار مرتبہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کا انتقال اپریل 1945 میں، اپنی چوتھی مدت کے تین ماہ بعد ہوا۔
دوسری جنگ عظیم نے روزویلٹ کے دور کو نمایاں طور پر متاثر کیا اور اکثر صدر کے طور پر ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی وجوہات کے طور پر حوالہ دیا جاتا ہے۔
اس وقت، امریکی صدور کے لیے دو میعاد کی حد کو قانون میں نہیں لکھا گیا تھا - بلکہ یہ ایک رواج تھا جو سنہ 1796 میں جارج واشنگٹن کے تیسری مدت کے لیے مسترد ہونے کے بعد سے جاری تھا۔
روزویلٹ کی طویل قیادت کے بعد سنہ 1951 میں یہ روایت 22 ویں ترمیم کے تحت قانون میں شامل کی گئی۔