اس سکینڈل کے آغاز کے بعد اسرائیلی حکومت میں کھلبلی مچ گئی اور بہت سے لوگوں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ اگرچہ وزیر اعظم نتن یاہو کے قریبی عہدیداران الزامات کی تردید کرتے ہیں تاہم حکومت نے غیر معمولی اقدامات اٹھائے تاکہ تفتیش کو کسی طرح روکا جا سکے۔

حالیہ چند دنوں کے دوران اسرائیل میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن کا تعلق براہ راست ’قطر گیٹ‘ نامی سکینڈل سے ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کو سوموار کے دن اسی سکینڈل کی وجہ سے پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
اسرائیل کے سنجیدہ جرائم کے یونٹ سے تعلق رکھنے والے تفتیش کاروں نے اسرائیلی وزیر اعظم سے ان کے یروشلم میں واقع دفتر میں سوالات کیے۔ اس ملاقات کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم کو سوموار کی صبح تل ابیب کی ڈسٹرکٹ عدالت سے جلد نکلنا پڑا جہاں وہ ایک اور کرپشن مقدمے میں بیان دے رہے تھے۔
تو قطر گیٹ ہے کیا اور اس کا قطر سے کیا تعلق ہے؟
یہ معاملہ اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیروں سے جڑا ہے جن پر الزام ہے کہ انھوں نے مبینہ طور پر قطر کے لیے لابنگ کی۔ اس مقدمے میں فی الحال نتن یاہو ملزم نہیں ہیں بلکہ ایک گواہ کے طور پر ان سے سوالات کیے گئے۔ تاہم سوموار کے دن اسرائیلی پولیس نے ان کے دو قریبی مشیروں کو حراست میں لے لیا جو اس مقدمے کے مرکزی ملزمان ہیں۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق نتن یاہو کی جانب سے دیا جانے والا بیان بہت احتیاط سے جانچا جائے گا جس کے بعد ملک کی اٹارنی جنرل اس بات کا فیصلہ کریں گی کہ مقدمے میں ان کی کیا حیثیت ہو گی۔
اس تفتیش کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب مبینہ طور پر اسرائیلی فوج کے سابق ترجمان ایلی فیلڈسٹین پر الزام عائد ہوا کہ انھوں نے قطر میں کام کرنے والی ایک بین الاقوامی کمپنی اور اسرائیلی حکومت کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا۔
اسرائیلی پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کے مطابق ایلی فیلڈ سٹین، جو اس وقت فوج کے ترجمان کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، کی مدد سے اس کمپنی نے قطر کا ایک مثبت پہلو اجاگر کرنے کے لیے مواد مہیا کیا جسے اسرائیلی میڈیا میں تشہیر ملی۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کے سابق ترجمان پر الزام ہے کہ انھوں نے قطری کاروباری منصوبوں کو بھی اسرائیل میں مدد فراہم کی۔
تاہم تفتیش کاروں کے مطابق اس کام میں وہ اکیلے نہیں تھے اور جلد ہی انھوں نے وزیر اعظم نتن یاہو کے ایک اعلی مشیر جوناتھن ارچ کو بھی اس منصوبے میں شامل کر لیا اور ان دونوں کو ایک امریکی شہری نے اس کام کے لیے معاوضہ ادا کیا جو قطری کمپنی کی نمائندگی کر رہا تھا۔
مارچ میں پولیس نے ان دونوں اسرائیلی عہدیداران سے پوچھ گچھ کی جس کی بنیاد ایک غیر ملکی ایجنٹ سے رابطہ قائم کرنے، فراڈ، منی لانڈرنگ اور رشوت لینے کے الزامات تھے۔ تاہم اس مقدمے کے حوالے سے حساس معلومات ظاہر نہ کرنے کے عدالتی حکم کی وجہ سے اس وقت بہت زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔
تاہم فیلڈسٹین پر خفیہ دستاویزات کو لیک کرنے اور اسرائیل کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات بھی شامل ہیں۔ وزیر اعظم نتن یاہو کے ایک اعلی مشیر جوناتھن ارچ اور اسرائیلی فوج کے سابق ترجمان فیلڈسٹین کے علاوہ نتن یاہو کی سیاسی جماعت کے سابق کنسلٹنٹ اسرائیل این ہورن بھی اس مقدمے میں شامل ہیں۔
اس تفتیش کی شروعات اس وقت ہوئی تھی جب مشرق وسطی میں کام کرنے والے ایک اسرائیلی کاروباری شخصیت گل بیرجر سے منسلک ریکارڈ کی اشاعت ہوئی اور یہ علم ہوا کہ انھوں نے فیلڈسٹین کو قطری حکومت کے لیے کام کرنے والے لابسٹ کی جانب سے رقم ٹرانسفر کی ہے۔
اس کے بعد پراسیکیوٹر جنرل نے تفتیش کا آغاز کیا اور بہت سے صحافیوں کو بھی سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے ایک صحافی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ براہ راست قطری حکومت کے لیے کام کرنے والی شخصیات سے رابطے میں تھے جنھیں کیس میں غیر ملکی ایجنٹ کا نام دیا گیا ہے۔
پولیس ذرائع نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا ہے کہ اس تفتیش میں مبینہ قطری رقم کی وزیر اعظم نتن یاہو کے قریبی عہدیداران کو مئی 2022 سے اکتوبر 2024 کے درمیان منتقلی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے ہی رواں سال فروری میں خفیہ ادارے اور پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس سکینڈل کی تفتیش شروع کریںاس تفتیش کے آغاز کے بعد اسرائیلی حکومت میں کھلبلی مچ گئی اور بہت سے لوگوں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ اگرچہ وزیر اعظم نتن یاہو کے قریبی عہدیداران ان الزامات کی تردید کرتے ہیں تاہم حکومت نے غیر معمولی اقدامات اٹھائے تاکہ تفتیش کو کسی طرح روکا جا سکے۔ لیکن ان اقدامات نے وزیر اعظم نتن یاہو کے مخالفین کے شکوک کو مذید بڑھا دیا۔
21 مارچ کو یہ بات سامنے آئی کہ وزیر اعظم نتن یاہو نے اسرائیلی کاوئنٹر انٹیلیجنس ادارے شن بیٹ کے سربراہ کو عہدے سے ہٹا دیا جبکہ اسرائیلی سپریم کورٹ کی جانب ایسا کرنے پر پابندی لگائی جا چکی تھی۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں ایک انتہائی خفیہ ادارے کے سربراہ کو اس طریقے سے عہدے سے ہٹانا نہایت سنجیدہ عمل سمجھا جاتا ہے۔
سرکاری طور پر اس قدم کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ شن بیٹ کے سربراہ سات اکتوبر 2023 کو ہونے والے حماس کے حملے میں ناکامی کے مرتکب ہوئے تھے اور وہ اعتماد کھو چکے تھے۔ تاہم نتن یاہو کے اس قدم کو سیاسی سمجھا جا رہا ہے اور اسے وزیر اعظم کے اس سکینڈل میں ملوث ہونے پر تفتیش سے جوڑا جا رہا ہے۔
اسرائیلی سپریم کورٹ کی جانب سے بعد میں یہ حکم بھی دیا گیا کہ شن بیٹ کے سربراہ کو ہٹانے کا فیصلہ معطل کیا جائے لیکن نتن یاہو نے ایک نئے سربراہ کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس کے بعد یہ کوشش کی گئی کہ تفتیش کی سربراہی کرنے والے پراسیکیوٹر جنرل کو بھی ہٹا دیا جائے۔
اسرائیلی خفیہ ادارے کے سربراہ کو ہٹانے کے دو دن بعد، 23 مارچ کو، اسرائیلی کابینہ نے متفقہ طور پر اٹارنی جنرل پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ اس عمل میں نتن یاہو شریک نہیں تھے کیوں کہ مفادات کے ٹکراؤ کے اصول کے تحت وہ قانونی نظام سے جڑے کسی معاملے میں شرکت نہیں کر سکتے۔
اس حکومتی کوشش کی سربراہی ملک کے وزیر برائے انصاف نے کی۔ یاد رہے کہ اٹارنی جنرل نے ہی رواں سال فروری میں خفیہ ادارے اور پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس سکینڈل کی تفتیش شروع کریں۔