’الٹی پھینک کھڑی ہو جائے گی‘: سچن سمیت بہترین بلے بازوں کو چکرانے والی گیند کے مؤجد کی کہانی

ثقلین کے بھائیوں کو لگا کہ لڑکے میں ’سپارک‘ ہے اس لیے پہلے اس سے وکٹ کیپنگ کروائی اور پھر فاسٹ بولنگ، مگر دونوں میں عدم دلچسپی کے بعد انھیں آف سپنر کی حیثیت سے ٹیم میں کھلایا گیا۔
saqlain
Getty Images

یہ بات ہے 1990 کے اوائل کی، جب ایک نوعمر ثقلین نے لکشمی چوک کے علاقے میں کرکٹ کھیلنا شروع کی۔

ظریف میموریل کرکٹ کلب سے بنیادی چیزیں سمجھیں۔ ثقلین کے دونوں بڑے بھائی کرکٹ اچھی کھیلتے تھے، انڈر 19 تک گئے مگر قومی ٹیم تک نہ پہنچ سکے۔

ثقلین کے بھائیوں کو لگا کہ لڑکے میں ’سپارک‘ ہے اس لیے پہلے اس سے وکٹ کیپنگ کروائی اور پھر فاسٹ بولنگ، مگر دونوں میں عدم دلچسپی کے بعد انھیں آف سپنر کی حیثیت سے ٹیم میں کھلایا گیا۔

ایک پوڈکاسٹ میں بات کرتے ہوئے ثقلین نے ابتدائی دنوں کو یاد کیا اور بتایا کہ ایک میچ میں بحیثیت آف اسپنر انھوں نے ایک اوور میں 32 رنز کھائے جس کے بعد انھیں جگہ جگہ چھیڑا گیا۔

انھوں نے وتایا کہ ’وہ رمضان کپ کا میچ تھا جو ہم اس دور میں بیس، بیس اوورز کا ٹی ٹوئنٹی کی طرح کھیلتے تھے، ایک بار کافی رنز کھانے کے بعد گھر واپسی تک ہر کوئی مجھے 32 رنز کھانے والا بولر کہہ کر تنگ کر رہا تھا۔

’تب ہی میں نے ٹھانی کہ ایسی چیز کا سہارا لوں جو صرف میری ہو، جیسے عمران خان کا اِن ڈپر مشہور تھا، عبدالقادر کی گوگلی مشہور تھی، میں نے بھی دعا مانگی مجھے بھی کچھ ایسی ہی چیز مل جائے۔‘

یہیں سے ثقلین مشتاق کے ’دوسرا‘ کی شروعات ہوئیں جس نے سچن سے لے کر مارٹن تک دنیا کے بہترین بلے بازوں کو بھی چکرا کر رکھ دیا۔

وہ متعدد انٹرویوز میں بتا چکے ہیں کہ ’اپنے گھر کی چھت پر ٹیبل ٹینس کی بال سے سپن کرنے کی پریکٹس کرتا تھا۔ تین سال میں میں نے ایک ایسی گیند پر کنٹرول حاصل کر لیا جو آف سپن کی طرح کروائی جاتی مگر موومنٹ لیگ سپن کی جیسے ہوتی۔

’میری انگلیاں چھل جاتی تھیں مگر میں نے اس میں مہارت حاصل کر لی۔‘ اور پھر ثقلین نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

saqlain
Getty Images

ہارون رشید اور ثقلین مشتاق کی 19 میں شمولیت

سابق ٹیسٹ کرکٹر، سلیکٹر اور تقریباً ہر لیول پر کوچنگ کرنے والے ہارون رشید جنھیں دنیا شاہد آفریدی کو متعارف کروانے کی وجہ سے جانتی ہے، ثقلین کو ٹیسٹ ٹیم تک پہنچانے کا وسیلہ بنے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ہارون رشید نے بتایا کہ یہ سنہ 1993/94 کی بات ہے جب وہ انڈر 19 ٹیم کے کوچ تھے تو پاکستان بھر سے جتنی بھی کرکٹ اسوسی ایشنز تھیں سب سے کہا گیا تھا کہ ’دس بچوں کی فہرست دے دیں، کوئی سات اسوسی ایشنز نے 70 بچوں کے نام دیے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ڈیفنس کے ساؤتھ اینڈ کرکٹ کلب میں میں نے ان 70 بچوں کو جمع کیا اور حسیب احسن کی سرپرستی میں سلیکشن کمیٹی نے ان میں سے بہترین بچوں کو سیلیکٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

’کیمپ کے اگلے دن ایک دبلا پتلا لڑکا آیا اور درخواست کی کہ اسے بھی آزما لیا جائے۔ اس کا نام ثقلین مشتاق تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اسے صبح آنے کے لیے کہا تاکہ اس کی بولنگ، بیٹنگ کو جانچ سکوں۔ حسیب احسن، ظہیر عباس اور شفیق پاپا صبح آئے تو میں نے ان کو بھی کہا کہ یہ لڑکا اسوسی ایشن کے ذریعے نہیں آیا ہے مگر ہے بڑا زبردست۔‘

saqlain
Getty Images

ہارون رشید کہتے ہیں کہ ’حسیب احسن خود ایک آف سپنر تھے وہ ثقلین کے ’دوسرا‘ سے چونک گئے۔ ہم نے اسے یوتھ ٹیم میں شامل کیا، اور اس نے دوسرے ہی میچ میں چار وکٹیں لے لیں، جس میں کریگ میک ملن کی وکٹ شامل تھی۔ ’اس کیمپ سے نکل کر وہ انڈر 19 ٹیم میں آیا اور دورۂ نیوزی لینڈ میں صرف 14 کی اوسط سے 18 وکٹیں حاصل کیں۔

پھر ’ڈومیسٹک کرکٹ میں ظہیر عباس ثقلین کو اپنے ساتھ پی آئی اے لے گئے اور پی آئی اے جانے کے بعد ان کا سابقہ پڑ گیا وسیم اکرم اور معین خان سے۔‘

پاکستان کے سابق کپتان معین خان نے بی بی سی سے ثقلین کے بارے میں بات کی ہے۔ معین خان نے کہا کہ ’ثقلین میرے بچوں کی طرح کہہ لیں، چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے، میں ہی تھا جس نے پی آئی اے کی سیلیکشن ٹیم کے ساتھ اسے پہلی دفعہ ماڈل ٹاؤن گراؤنڈ پر دیکھا تھا۔

’ایک منفرد صلاحیت کا حامل سپنر تھا۔ اس کا یہ دوسرا جو تھا، بہترین بال تھی کیونکہ اس پر بڑے آرام سے کوئی بھی بڑے سے بڑا کھلاڑی ’ڈسٹریکٹ‘ ہو سکتا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ثقلین جیسا بولر میری ذاتی کارکردگی کے لیے بہت آئیڈیل تھا کیونکہ اس کی بولنگ پر ہی میرے ون ڈے میں سب سے زیادہ سٹمپ ہیں۔

’میں بحیثیت کیپر جب دل چاہتا تھا اسے دوسرا کروانے کے لیے کہتا تھا کیونکہ مجھے پتہ لگ جاتا تھا کہ بیٹسمین کے پیر کس طرح چل رہے ہیں تو میں ’ثقی‘ کو اشارہ کر دیا کرتا تھا۔‘

saqlain
Getty Images

ٹیسٹ ڈبیو

سنہ 1995 میں ثقلین نے اپنا ٹیسٹ ڈبیو کیا اور اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ میں انھوں نے اروندا ڈی سلوا اور ارجنا رانا ٹنگا کی اہم ترین وکٹیں حاصل کر کے اپنا لوہا منوایا۔

اروندا دو گیندوں پر صفر اور ارجنا گولڈن ڈک پر پویلین لوٹ گئے۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں نائٹ واچ مین کی حیثیت سے آزمایا گیا۔

ثقلین اس دور میں ٹیسٹ ٹیم میں مسلسل جگہ نہ حاصل کر سکے، لیکن جب بھی کھیلتے، کھل کر کھیلتے۔

شیخوپورہ میں وسیم اکرم کے ساتھ 313 رنز کی تاریخی پارٹنرشپ ہو، یا سری لنکا کے خلاف کولومبو ٹیسٹ میں اٹھاون رنز اور نو وکٹیں، انھیں بلے سے بھی جب بھی موقع ملا انھوں نے مایوس نہیں کیا۔ البتہ ون ڈے ٹیم ان کے بغیر نامکمل تھی۔

سنہ 1996 کے عالمی کپ کے بعد ثقلین مشتاق چھا گئے اور سن 1996 اور 1997 میں سال میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر بن گئے۔

وہ تیز ترین 100 وکٹیں لینے والے پہلے سپنر بنے، ساتھ ہی تیز ترین 250 وکٹوں کے ریکارڈ پر ابھی تک قابض ہیں۔

سنہ 1996 میں دورۂ آسٹریلیا میں ان کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ جب انھوں نے سلیم ملک کے ساتھ شراکت قائم کر کے انڈیا کے خلاف کینیڈا میں کھیلے گئے صحارا کپ کے میچ میں فتح حاصل کی تب سے انھیں ایک قابل بھروسہ ٹیل اینڈر بھی سمجھا جانے لگا۔

saqlain
Getty Images

دسمبر 1996 میں ثقلین نے پاکستان کی پہلی مرتبہ آسٹریلیا میں جاری سہ فریقی سیریز میں کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ میں پانچ وکٹیں حاصل کر کے انھیں ہوم گراؤنڈ پر شکست دی اور پھر ویسٹ انڈیز کے خلاف چار وکٹیں حاصل کیں۔

جب پاکستان ٹیم سن 1999-2000 میں آسٹریلیا گئی تو انڈیا کو شامل کر کے ایک اور سہ فریقی سیریز ہوئی، جس میں ابتدائی دو میچوں میں ’ثقی‘ نے برسبین کے کراؤڈ کو جگہ سے نہ ہلنے دیا۔ آسٹریلیا کے خلاف میچ میں جب وہ 34ویں اوور میں بیٹنگ کرنے آئے تو پاکستان کا سکور 103 تھا اور سات وکٹیں گر چکی تھیں۔

پہلے وسیم اکرم کے ساتھ 24 رنز کی اننگز اور پھر آخری سات اوور میں وقار یونس کے ساتھ 50 سے زائد ناقابل شکست رنز جوڑکر انھوں نے پاکستان کو ایک مناسب ٹارگٹ دینے میں مدد دی۔

saqlain
Getty Images

185 کے تعاقب میں آسٹریلین ٹیم 140 بھی نہ کر سکی اور پاکستان کی کامیابی میں ثقلین کے پانچ چوکوں سے لدے ناقابل شکست 37 رنز نے کمال کردیا۔

اگلے ہی روز انھوں نے بیٹنگ کے سلسلے کو وہیں سے جوڑا اور انڈیا کو پردیس میں فتح سے دور رکھا۔ اس بار بھی وہ 34ویں اوور میں ہی بیٹنگ کرنے آئے مگر اب کی بار سکور 120 تھا، ٹارگٹ 196 کا تھا اور وسیم اکرم کی جگہ یوسف بیٹنگ کر رہے تھے۔

جب یوسف 63 رنز بنا کر آوٹ ہوئے تب بھی پاکستان کو جیتنے کے لیے سات اوورز میں 43 رنز درکار تھا اور ساتھ میں تھے ایک بار پھر وقار یونس۔

ثقلین نے یہاں لگاتار دوسرے دن سینئیر بیٹسمین کا رول نبھایا اور یوسف کے آؤٹ ہونے کے فوری بعد سری ناتھ کو چھکا لگا کر اپنے عزائم سے آگاہ کردیا۔

آخری گیند پر ایک رن درکار تھا اور ثقلین نے کامیابی کے ساتھ سنگل لے کر انڈیا کی شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

saqlain
Getty Images

’شابا ثقی شابا، یور سیک، الٹی پھینک کھڑی ہو جائے گی، دوسرا کرو۔۔۔‘

یہ سب آوازیں میری عمر کے ہر کرکٹ کے شائقین نے استعمال کی ہیں۔ معین خان کی آواز میں ان صداؤں نے سب کو اسی سپرٹ میں ڈھال دیا تھا جس سے پاکستان کھیل رہا تھا۔

ثقلین نے ایک روزہ میچز میں دو ہیٹ ٹرک کی ہیں۔ ایک سپنر کا ہیٹ ٹرک کرنا، اس دور میں جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

دونوں ہیٹ ٹرک زمبابوے کے خلاف تھیں، ایک پشاور میں 1996 میں جبکہ دوسری 1999 کے عالمی کپ کے میچ میں۔ دونوں میں وکٹوں کے پیچھے گائیڈ کرنے کے لیے معین خان موجود تھے۔ انہوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ثقلین دوسروں سے الگ کیوں تھا۔

’ثقی ایک منفرد بولر تھا منٹلی سٹرونگ تھا فیزیکلی فٹ، وہ ایک بہت ہی ہمبل بیک گراؤنڈ سے آیا ہوا تھا اور بہت ساری ذمہ داریاں اس سے نبھانی تھی بہت فوکس لڑکا تھا۔‘

’بڑوں کی بات بھی سنتا تھا، یہ چیزیں ہونا کسی بھی بڑے پلیئر کے اندر بہت اہم ہوتی ہیں۔ یہ سب اس کے اندر موجود تھیں۔ میں نے جب بھی اس کو وکٹوں کے پیچھے سے مشورہ دیا، اس نے اس پر عمل کیا، اور اس کا فائدہ ہوا اور ٹیم کو بڑی فتوحات ملیں۔‘

saqlain
Getty Images

ایک روزہ کرکٹ میں ثقلیین کا ریکارڈ عظیم سپنر شین وارن جیسا ہی ہے، وارن کی ثقلین سے صرف پانچ وکٹیں زیادہ ہیں، جبکہ میچوں کا فرق 25 کا ہے۔

وارن کی اوسط 26 کے قریب ہے جبکہ ثقلین کی 22 سے بھی کم۔ ثقلین کی چھ مرتبہ پانچ وکٹوں کی کارکردگی کے مقابلے میں وارن صرف ایک بار ہی پانچ وکٹیں لے سکے۔

شین وارن نے ایک انٹرویو میں ثقلین کی کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ثقلین اکنومیکل بھی ہیں اور ساتھ وکٹیں بھی لیتے ہیں، خاص کر ایک باہر نکلتی گیند سے جسے بیشتر بیٹسمین سمجھ ہی نہیں پاتے، خاص کر انگلش بیٹسمین جنھیں باہر جاتی گیند کو سمجھنے میں ویسے ہی مشکل ہوتی ہے۔‘

saqlain
Getty Images

ثقلین کیوں عہد ساز سپنر تھا؟

معین خان کے مطابق ’وہ بہت اچھی لائن لینتھ پر بال کرتا تھا، اٹیک کرنا جانتا تھا، اس کو پہلے سلیم ملک اور پھر وسیم اکرم نے آخری اوورز میں استعمال کرنا شروع کیا، ون ڈے کے فرسٹ پاور پلے کے اندر اور پھر آخر کے چار پانچ اوورز کے اندر۔

’جس طرح وہ آ کے آخری چار اووز کرتا تھا وہ کوئی سپنر نہیں کر سکا۔‘

سنہ 1999 کا انڈیا کا دورہ جہاں بہت ساری وجوہات کی بنا پر یادگار رہا وہیں اس میں ثقلین مشتاق کی کارکردگی بہترین رہی۔

دورے میں ثقلین نے تین میچوں میں 24 وکٹیں لیں، جس میں دو مرتبہ 10-10 وکٹیں شامل تھیں۔

معین خان اس دورے میں وکٹ کیپر تھے اور انھیں یہ دورہ آج بھی ایسے یاد ہے جیسے کل کی بات ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ثقلین کا دورۂ انڈیا تو کمال تھا۔ چنئی میں دس وکٹیں حاصل کیں اور ہم وہ میچ جیتے، سب کو پتہ ہے کتنا مشکل میچ تھا۔

’سچن تندولکر کتنے آرام سے میچ لے کے جا رہا تھا، اس موقع پر بال کو صرف ٹاس کرنا کسی لیجنڈ کے ذہن میں آ سکتا ہے۔

’کسی ایسے بندے کے ذہن میں جو خود رسک لینا جانتا ہو اور جس کو خود پر بھرپور اعتماد ہو، اس نے وہ بال کی اور وسیم اکرم نے کیچ پکڑا جو میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔‘

saqlain
Getty Images

مرلی، کاؤنٹی کے ساتھی

ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے سری لنکن آف سپنر مرلی دھرن بھی دوسرا سیکھنے کا کریڈٹ ثقلین کو دیتے ہیں۔

ایک انٹرویو میں وہ کہہ چکے ہیں کہ ’1995 کے دورۂ پاکستان میں مجھے ثقلین مشتاق کے ’دوسرا‘ نے کافی متاثر کیا تھا۔ ثقلین عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے، مگر پھر بھی مجھے ان سے اس گیند کے حوالے سے بات کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوئی۔

’ثقلین نے مجھے یہ گیند سکھائی، مگر مجھے اسے ’ماسٹر‘ کرنے میں تین سال لگ گئے اور جب میں نے دوسرا کرنا شروع کیا، تب ہی میں ٹیسٹ کرکٹ میں سو وکٹیں حاصل کر سکا۔‘

سنہ 1997 میں ثقلین نے سرے کاونٹی جوائن کر لی تھی، اور 1974 کے بعد سرے کو نہ صرف پہلی مرتبہ بینسن اینڈ ہیجز کپ جتوانے میں مدد دی بلکہ اسی گراؤنڈ پر مڈل سیکس کے خلاف دس وکٹیں حاصل کیں جس میں ہیٹ ٹرک بھی شامل تھی۔

saqlain
Getty Images

یہاں انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ لیگ سپنر کے ساتھ ان کی جوڑی نے خوب رنگ جمایا اور 1999 کے بعد سے تین مرتبہ چیمپیئن شپ ٹائٹل جتوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

سرے ٹیم کے کپتان سابق ٹیسٹ کرکٹر ایڈم ہولی اوک بھی ثقلین کے پرستار نکلے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’کبھی جب مجھے ڈکلیرئیشن کرنے میں مشکل ہوتی تھی اور لگتا تھا کہ سکور بورڈ پر رنز کم ہیں تو ثقلین مجھے ہمت دلاتا تھا اور کہتا تھا کہ بھلے آخری دن ڈھائی سو کا دفاع کرنا ہو، ہم میچ جیت جائیں گے، تب ہی مجھے لگتا تھا کہ سب کنٹرول میں ہے اور ہم واقعی جیت جاتے تھے۔‘

سنہ 2001 میں معین خان کی قیادت میں نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں پہلے ٹیسٹ میں کامیابی اور دوسرے کو ڈرا کیا تھا۔ ثقلین کی پہلے ٹیسٹ میں آٹھ وکٹوں اور دوسرے میں واحد سنچری نے سیریز ڈرا کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس سیریز میں ثقلین کی سلیکشن پر سوال اٹھے تھے مگر انھیں ساتھ لے جایا گیا جہاں انھوں نے کارکردگی دکھا کر ناقدین کو خاموش کر دیا۔

saqlain
Getty Images

بحیثیت کرکٹر، اختتام

2003 کے عالمی کپ میں ناقص کارکردگی کےبعد، وسیم اکرم، سعید انور اور وقار یونس ریٹائر ہو گئے تھے، جبکہ انضمام اور ثقلین کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔

دانش کنریا اور شعیب ملک کی موجودگی سے ’ثقی‘ قصہ پارینہ بنتے گئے۔ ثقلین نے بنگلہ دیش کے خلاف ملتان ٹیسٹ میں کم بیک کیا، مگر صرف دو وکٹیں حاصل کیں، ان کا آخری ٹیسٹ بھی اسی گراونڈ میں سات ماہ بعد انڈیا کے خلاف کھیلا گیا۔

2004 میں ثقلین کے گھٹنے کے دوسرے آپریشن نے انھیں کرکٹ سے دور کر دیا، اور وہ دھیرے دھیرے سین سے ہی غائب ہو گئے۔

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ثقلین نے کوچنگ کی دنیا میں قدم رکھا اور پاکستان کی کوچنگ سنبھالنے سے پہلے تک نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ سمیت مختلف ٹیموں کے ساتھ کوچنگ سٹاف کا حصہ رہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.