پے در پے تجربات اور نت نئے ’انقلابوں‘ کا حاصل یہ ہے کہ اب اس ٹیم کے ڈھانچے میں مشترکہ سپرٹ کا فقدان نظر آتا ہے اور لاشعوری طور پہ، ہر سٹیک ہولڈر کا دھیان اپنی گردن بچانے پہ مرکوز ہے۔ ایسے میں نتائج واقعی آخری ترجیح ہی رہ جاتے ہیں۔
’سٹرائیک ریٹ سے بے نیاز سینیئرز کے کندھوں پر اٹکی پاکستانی ٹیم اب آئی سی سی رینکنگ چارٹ میں تنزل کے نئے جہان دریافت کر رہی ہے‘آخر کچھ تو ایسا رہا ہو گا کہ پچھلے 34 برس میں ویسٹ انڈیز پاکستان سے ایک بھی ون ڈے سیریز نہ جیت پائی اور اب اگر یہ معجزہ ہو ہی گیا ہے تو پھر کچھ نہ کچھ بدلاؤ بھی ایسا آیا ہو گا کہ پاکستان اپنی بساط سے بھی بڑے مارجن کی شکست کھانے تک جا پہنچا۔
الجھن مگر یہ ہے کہ ویسٹ انڈین کرکٹ تو خود وقت سے کہیں پیچھے لڑھک رہی ہے اور اگر برائن لارا جیسے سابق لیجنڈز کی ایمرجنسی بورڈ میٹنگز کے اعلامیے بھی آئی سی سی سے مالی امداد کی درخواستیں ڈال رہے ہیں تو پھر یہ جیت اچانک کہاں سے اُبھر آئی؟
سو، اس کا سیدھا سیدھا مطلب یوں ہوا کہ فی الوقت پاکستان کی ون ڈے کرکٹ ویسٹ انڈیز کے معیار سے بھی نیچے جا چکی ہے اور سٹرائیک ریٹ سے بے نیاز سینیئرز کے کندھوں پر اٹکی یہ ٹیم اب آئی سی سی رینکنگ چارٹ میں تنزل کے نئے جہان دریافت کر رہی ہے۔
قصور یہاں صرف پاکستان کی ون ڈے کرکٹ کے معیار کا نہیں ہے، بحیثیت مجموعی نچلے ڈومیسٹک ڈھانچے سے اوپر تک کا پورا سسٹم ایسی بے یقینی کا شکار ہے کہ اس ماحول میں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی اور مستقبل بینی ممکن ہی نہیں ہے۔
کبھی ڈومیسٹک ٹورنامنٹس کے نئے ایڈیشن لانچ ہوتے ہیں تو کبھی فارمیٹ بدلے جاتے ہیں۔ کبھی کوچ بدلتے ہیں تو کبھی کپتان ایک ہی سیریز کے بعد چلتے کر دیے جاتے ہیں۔
جس ماحول میں یہ تعین کرنا بھی دشوار ہو کہ اگلی سیریز تک کیا برقرار رہے گا اور کیا بدل چکا ہو گا، اس ’ایکو سسٹم‘ میں کوئی مثبت سرگرمی کیسے فروغ پا سکتی ہے اور کوئی نیا عزم کیسے پروان چڑھ سکتا ہے؟
’ڈاٹ بالز کا جو رجحان ٹی ٹونٹی کرکٹ میں پاکستان کے دامن گیر ہوا تھا وہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ حالیہ ون ڈے سیریز میں لوٹ کر آیا‘جن سینیئرز کو ٹی ٹونٹی کرکٹ سے سائیڈ لائن ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ وہ فارمیٹ کی جدید رفتار سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، اب یہ انھیں کون سمجھائے کہ ون ڈے فارمیٹ کی بھی جدید رفتار بدل چکی ہے اور نوّے کی دہائی کے اطوار اب قابلِ عمل نہیں رہے۔
ڈاٹ بالز کا جو رجحان ٹی ٹونٹی کرکٹ میں پاکستان کے دامن گیر ہوا تھا اور پچھلے ورلڈ کپ سے ہزیمت کا سبب ٹھہرا تھا، وہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ حالیہ ون ڈے سیریز میں لوٹ کر آیا اور عمومی بولنگ کے سامنے بھی پاکستانی بلے بازوں کے ہاتھ بندھے دکھائی دیے۔
یہ مخمصہ بھی ابھی تک پاکستانی تھنک ٹینک نہیں سجھا پایا کہ پانچویں بولنگ آپشن کا کیا کیا جائے۔ چونکہ بولنگ و بیٹنگ دونوں شعبے ہی ناقابلِ اعتبار بن چکے، سو پاکستان کے لیے یہ سوال ہمیشہ کی طرح اب بھی قائم ہے کہ آخر ٹوٹل کتنے بلے باز اس ٹیم کے لیے ضروری ہیں۔
اور پھر ٹیم سلیکشن میں بے ثباتی کا رونا تو تب رویا جائے کہ اگر سلیکشن کمیٹی اور تھنک ٹینک کے اپنے یہاں کوئی ثبات و تسلسل موجود ہو۔ کہ جو بے یقینی کرکٹ بورڈ کے ٹاپ پہ ہے، وہ نہ صرف نیچے گراس روٹ لیول تک دکھائی دیتی ہے بلکہ سب سے اوپری منظرنامے پہ انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی جھلکتی ہے۔
پے در پے تجربات اور نت نئے ’انقلابوں‘ کا حاصل یہ ہے کہ اب اس ٹیم کے ڈھانچے میں مشترکہ سپرٹ کا فقدان نظر آتا ہے اور لاشعوری طور پہ، ہر سٹیک ہولڈر کا دھیان اپنی گردن بچانے پہ مرکوز ہے۔ ایسے میں نتائج واقعی آخری ترجیح ہی رہ جاتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ کے اس ’ایکو سسٹم‘ سے یہ توقع یکسر عبث ہے کہ یہ چلتے چلتے پاکستان کو انٹرنیشنل کرکٹ کی مسابقت میں آسٹریلیا، انگلینڈ یا نیوزی لینڈ کی سطح تک لے جا پائے گا کیونکہ یہ ایکو سسٹم تو خود اپنی بقا کے امکان سے بھی بے خبر ہے۔
’کیا دو سال بعد بابر اعظم اس ون ڈے ٹیم میں جگہ بنا پائیں گے، یہ کوئی بھی نہیں جانتا‘پاکستان کرکٹ کا یہ زوال کوئی نیا مظہر تو نہیں مگر اس سے پہلے حالات کیسے بھی دگرگوں رہے ہوں، کوئی ایک فارمیٹ تو بہرحال پاکستانی شائقین کے لیے تشفی کا سامان رہتا تھا کہ بھلے وہ ٹیسٹ کرکٹ میں ورلڈ کلاس نہ سہی، ٹی ٹونٹی میں تو تھے۔
اب اگلا ون ڈے ورلڈ کپ دو سال بعد ہے اور کیا دو سال بعد بھی محمد رضوان ہی ون ڈے کپتان ہوں گے؟ اس سوال کا جواب خود محمد رضوان بھی نہیں جانتے۔ کیا دو سال بعد بابر اعظم اس ون ڈے ٹیم میں جگہ بنا پائیں گے، یہ کوئی بھی نہیں جانتا۔
اگر پاکستان اپنے کرکٹ برانڈ کی بحالی چاہتا ہے تو اس کی سمت پہلا قدم وہ استحکام ہے جو بجائے خود اس سیٹ اپ کے لیے اجنبی ہو چکا۔ سسٹم، ادارے اور افراد تبھی کوئی مثبت نمو پا سکتے ہیں اگر وہ اپنے مستقبل بارے بے یقینی سے محفوظ ہوں۔
جو بے یقین ایکو سسٹم اب پاکستان کرکٹ کی پرداخت کا ذمہ دار ہے، یہ اگر یونہی چلتا رہا تو پھر یہی ہو گا کہ جو کرکٹ کلچرز دہائیوں سے پاکستان پہ فتح کے خواہاں ہیں اور مالی مداوے کے لیے بھی آئی سی سی کے چشم براہ ہی رہتے ہیں، ان کے لیے بھی پاکستان کو مات کرنا کچھ مشکل نہ رہے گا۔