پاکستانی اداکارہ ایمن خان کا کہنا ہے کہ جو وہ انسٹاگرام پر دکھاتی ہیں ان کی 'حقیقی زندگی' وہی ہے۔ 'ہم ایسے ہی ٹریول کرتے ہیں، گھومتے پھرتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ پیار سے شیئر کرتے ہیں۔'
پاکستانی اداکارہ ایمن خان کا کہنا ہے کہ جو وہ انسٹاگرام پر دکھاتی ہیں ان کی 'حقیقی زندگی' وہی ہے 'ہم ایسے ہی ٹریول کرتے ہیں، گھومتے پھرتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ وہ سب پیار سے شیئر کرتے ہیں۔'
البتہ بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ان کی زندگی زیادہ تر پرائیوٹ ہے۔
'اگر میں 30 فیصد شیئر کرتی ہوں تو 70 فیصد میری پرائیوٹ لائف بھی ہے جو میں سوشل میڈیا پر لوگوں سے شیئر نہیں کرتی۔'
ایمن خان 2012 میں اداکاری کرنا شروع کی اور کئی ڈراموں میں مرکزی کردار بھی نبھائے۔ ان میں سرِفہرست 'باندی'، 'عشق تماشہ'، 'گھر تتلی کا پر'، 'خالی ہاتھ' اور من مائل' ہیں۔
اس وقت ایمن کی عمر صرف 14 سال تھی۔ ان کا آخری ڈرامہ 'باندی' 2018 میں نشر ہوا جس سال انھوں نے ساتھی اداکار منیب بٹ سے شادی کی اور شادی کے بعد انھوں نے اداکاری چھوڑ دی۔
ایمن کا کہنا ہے کہ آج بھی وہ ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز جن کے ساتھ انھوں نے کام کیا، ان کے کم بیک کے منتظر ہیں۔
'جو پروجیکٹز میں نے کیے وہ آج بھی کچھ چینلز پر نشر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے مجھے لگتا ہی نہیں ہے کہ میں نے ایکٹنگ چھوڑ دی ہے۔ میں ایکٹنگ مس کرتی ہوں لیکن اس وقت میں خوش ہوں۔ آگے میراارادہ اداکاری میں واپسی کا ہے۔'
ایمن نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کاکبھی بھی اپنی ساتھی اداکاراؤں کے ساتھ کوئی کامپیٹیشن نہیں تھا۔
'جب میں ڈرامے کر رہی تھی تب سوشل میڈیا اتنااہم نہیں تھا۔ آج کل سوشل میڈیا پر ڈرامہ ہٹ ہونا ٹی وی پر ڈرامہ ہٹ ہونے سے الگ ہے۔ اُس وقت ہم ٹی وی پر ہٹ تھے۔ جو آڈینس ملتی تھی وہ ڈرامے کو چینل سے پہچانتی تھی۔'
ایمن نے اداکاری ضرور چھوڑ دی لیکن وہ سوشل میڈیا پر کافی ایکٹو رہیں۔ یہاں تک کہ وہ پاکستان کی سب سے بڑی سوشل میڈیا سٹار بن گئیں۔
سال 2020 میں ایمن انسٹاگرام پر پاکستان کی سب سے زیادہ فولو کی جانے والی اداکارہ بن گئیں۔ اس وقت ان کے 5.9 ملین فولورز تھے۔
'جب میں انسٹاگرام پرپاکستان کی موسٹ فولوڈ اداکارہ تھی اس وقت کافی لمبے عرصے تک ایسا رہا۔ پیچھے دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ میں جب ایکٹنگ کر رہی تھی تب میں موسٹ فولوڈ ایکٹر تھی اور کام چھوڑنے کے کافی وقت بعد تک مجھے ایوارڈز ملتے رہے۔'
انھوں نے بتایا کہ لوگ انہیں کافیمیسجزکرتے تھے کہ فولورز کیسے بڑھائیں۔
'یہ فولوئنگ صرف انسٹاگرام کی نہیں تھی۔ ہم جب باہر جاتے ہیں، انٹرنیشنل ٹریول کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا تھا کہ ایسے ایسے ممالک کے لوگ ہمیں جانتے ہیں جہاں ہمیں نہیں لگتا تھا کہ ہمارے ڈرامے دیکھے جاتے ہوں گے۔ جیسے انڈیا، بنگلہ دیش اور سعودی عرب۔'
وہ کہتی ہیں 'میں نے جس طرح کے رولز اپنے ڈراموں میں کیے ان میں معصومیت تھی، لوگ کہتے تھے آپ کا رونا ہمیں بہت پسند ہے، آپ کا بات کرنا ہمیں بہت پسند ہے۔ آپ جیسی بیٹی ہونی چاہیے، آپ جیسی بہو ہونی چاہیے۔ ویسا مجھے خود کو مینٹین بھی کرنا پڑا۔'
ایمن کا کہنا ہے کہ'منفی رویوں کا آپ کو تب سامنا کرنا پڑتا ہے جب آپ لوگوں کے اس معیار پر نہیں اتر پاتے جیسا وہ آپ کو سوچ رہے ہوتے ہیں۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ بہت زیادہ باہر جاتی ہوں۔ اپنی فیملی کو وقت دیتی ہوں۔ لوگوں کو یہ ہسند آتا ہے۔'
تاہم انکا یہ بھی کہنا ہے کہ اب سوشل میڈیا پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ پہلے سوشل میڈیا اتنی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔
'پہلے جب انٹرویوز دیے جاتے تھے تب ہم بغیر سوچے سمجھے، ایک بہت لائٹ موڈ میں اپنے بارے میں بات کرسکتے تھے۔ اب آپ کو بہت سوچ سمجھ کر جواب دینا پڑتا ہے۔ اب میں کوشش کرتی ہوں کہ کسی کے بارے میں کوئی بات نہ کروں۔ اچھے طریقے سے سوشل میڈیا کا استعمال کروں اور لوگوں کو آگاہی دوں۔'

کچھ عرصہ قبل ایمن نے ایک شو پر اپنے شوہر منیب بٹ سے کہا کہ وہ کبھی موٹی نہیں ہونا چاہتیں اور منیب سے کہتی ہیں کہ مجھے کبھی موٹا نہ ہونے دینا۔ اس پر ایمن کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اب دو بچوں کی ماں بننے اور اتنے سارے چینجز سے گزرنے کے بعد ایمن کا کہنا ہے کہ پہلے یہ ایک کلچر تھا جس میں صرف پتلی لڑکیاں لوگوں کو پسند ہوتی تھیں۔
'جو تھوڑی سی بھری بھری نظر آتی ہیں ان کو موٹا کہا جاتا اور باڈی شیم کیا جاتا تھا۔ لوگوں نے آپ کے لیے کچھ حدود بنا دی ہیں۔ موٹا ہونا، پتلا ہونا، یہ آج کل ٹرینڈ ہو گیا ہے۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ اب لوگ اس بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔'
ایمن آج بھی سوشل میڈیا پر ہیڈلائنز کی زینت بنی رہتی ہیں۔ کبھی اپنی ڈیٹ نائٹ کو لے کر، کبھی ان کی بیٹی کی سالگرہ کے حوالے سے تو کبھی اپنی ٹریول فوٹوز اور وڈیوز کی وجہ سے۔
'لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈیجیٹل میڈیا بہت آسان ہے۔ لیکن حقیقیت میں ایسا نہیں ہے۔ اس کے لیے آپ کو بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے اپنے انسٹاگرام اور اپنی لائف کو بڑے طریقے سے لے کر چلنا پڑتا ہے۔ کوئی مسئلہ بن جائے تو وہ بہت اثر انداز کرتا ہے۔ ہر چیز آپ کے کام کو متاثر کرتی ہے۔'
وہ کہتی ہیں کہ 'لوگوں کو بھی تھوڑا سا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کچھ باتوں کو درگزر کر دینا چاہیے۔'