پیروں کے تلووں میں جسم کے کسی بھی دوقرے حصے سے زیادہ پسینے کے غدود ہوتے ہیں جن کی تعداد فی مربع سینٹی میٹر 600 کے قریب ہوتی ہے۔ تاہم پسینہ خود بدبودار نہیں ہوتا بلکہ نمکیات، گلوکوز، وٹامنز اور امینو ایسڈز کے مرکب میں بیکٹریا کی افزائش اسے بدبودار بنا دیتی ہے۔
جلد کو زیادہ دھونے سے جلد کی نازک جلد ٹوٹ جاتی ہے، جس سے جلد سے قدرتی تیل نکل جاتا ہےہم میں سے بہت سے لوگ اپنے پیروں کو روزانہ رگڑ رگڑ کر دھونے کے عادی ہوتے ہیں جبکہ بعض ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ نہانے کے دوران پاؤں پر سے بس پانی بہا لینا ہی کافی ہوتا ہے۔
ان دونوں عادات کے تناظر میں اہم بات یہ جاننا ہے کہ کیا آپ اپنے پاؤں صحیح طریقے سے دھو رہے ہیں یا نہیں؟
جب ہم نہاتے ہیں تو فطری طور پر جسم کے کچھ حصوں پر ہماری توجہ زیادہ اور کچھ پر کم ہوتی ہے۔ تاہم بعض اوقات نہانے کے دوران پاؤں اس لیے بھی نظر انداز ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے جسم کا سب سے نچلا حصہ ہیں۔
تاہم ماہرین کے مطابق پیروں کو اگر بہت زیادہ نہیں تو بھی مناسب توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس اور یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول روزانہ صابن اور پانی کی مدد سے پاؤں دھونے کو صحت کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ اور اس کی سب سے اہم وجہ پیروں کی ناگوار بُو سے بچنا ہے۔
پیروں کے تلووں میں جسم کے کسی بھی دوسرے حصے سے زیادہ پسینے کے غدود ہوتے ہیں جن کی تعداد فی مربع سینٹی میٹر 600 کے قریب ہوتی ہے۔
تاہم پسینہ خود بدبودار نہیں ہوتا بلکہ نمکیات، گلوکوز، وٹامنز اور امینو ایسڈز کے مرکب میں بیکٹریا کی افزائش اسے بدبودار بنا دیتی ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ہل سے منسلک لیکچررہولی ولکنسن کہتی ہیں کہ ’انگلیوں کے درمیان کا حصہ بہت نم اور گرم مرطوب ہوتا ہے اس لیے وہاں زیادہ جراثیم موجود ہوتے ہیں۔‘
ہمارے پاؤں زیادہ تر جوتے اور موزوں سے ڈھکے ہوتے ہیں اور اس وجہ سے بھی پیروں میں نمی کی زیادہ مقدار دن کے بیشتر حصے کے دوران برقرار رہتی ہے۔
اگر آپ انسانی جسم کے کسی بھی حصے کے فی مربع سینٹی میٹر پر دوربین کے ذریعے بہت قریب سے دیکھیں تو آپ کو اس حصے میں کہیں بھی 10ہزار سے لے کر 10 لاکھ تک بیکٹیریا دکھائی دیں گے۔
جراثیموں کی یہ تعداد جسم کے نم اور زیادہ درجہ حرارت والے حصوں خصوصاً پاؤں میں زیادہ ہوتی ہے۔
پیروں پر بہت سے بیکٹیریا ہوتے ہیں، جیسا کہ کورنی بیکٹیریم اور سٹیفی لوکوکساور۔ اور اگر پیروں میں پسینہ بھی موجود ہو تو ایسپرگیلس، کریپٹو کاکس، ایپی کوکیوکم، کنڈیڈا، ٹرائی کوسپورسم، اور دیگر اقسام کے ان گنت بیکٹیریا یہاں جگہ بنا لیتے ہیں۔
انسانی پاؤں میں جسم کے کسی بھی حصے سے زیادہ بیکٹیریا اور پھپوندی کی اقسام پائی جاتی ہیں اور شاید یہ سب باقاعدگی سے پاؤں دھونے کی عادت کی حوصلہ افزائی کے لیے اچھی وجوہات ہیں۔
اس حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق میں 40 افراد کے پیروں کے تلووں سے نمونے لیے گئے۔
تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ پاؤں دھونے سے بیکٹیریا کی تعداد پر خاصا فرق پڑتا ہے۔
جو لوگ دن میں دو بار اپنے پیر دھوتے تھے اُن کے پاؤں میں تقریباً 8,800 بیکٹیریا فی مربع سینٹی میٹر ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس جو لوگ ہر دوسرے دن نہاتے تھے ان کے پیروں میں فی مربع سینٹی میٹر 10 لاکھ سے زیادہ بیکٹیریا پائے گئے۔
تاہم پیروں میں مائیکروجنزم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ پاؤں سے بدبو لازمی آئے گی، یہ پریشانی کی بات نہیں تاہم پیروں پر بیکٹیریا کی اقسام ان کی تعداد سے زیادہ اہم ہیں۔

سٹیفی لوکوکس نامی بیکٹیریا پاؤں کی ناگوار بُو کے لیے ذمہ دار غیر مستحکم فیٹی ایسڈ (Volatile fatty acids) پیدا کرنے کا بنیادی عنصر ہیں۔
پیروں کی جلد پر پسینے کے غدود الیکٹرولائٹس، امینو ایسڈ، یوریا اور لیکٹک ایسڈ کا مرکب خارج کرتے ہیں۔
سٹیفی لوکوکس بیکٹیریا فوڈ پروسیسنگ کے دوران امینو ایسڈ کو غیر مستحکم فیٹی ایسڈ (VFA) میں تبدیل کرتے ہیں۔ اس عمل میں اہم کیمیائی عنصر آئی سوویلیرک ایسڈ خارج ہوتا ہے جس کی بدبو ہمیں بےچین اور بے آرام کر دیتی ہے۔
سنہ 2014 میں کی جانے والی ایک تحقیق میں 16 افراد کے پیروں کا جائزہ لیا گیا اور اس میں یہ بات سامنے آئی کہ پیروں کے تلووں پر موجود 98.6 فیصد بیکٹیریا سٹیفیلوکوکس تھے۔
آئی سوویلیرک ایسڈ سمیت غیر مستحکم فیٹی ایسڈ کی سطح پاؤں میں بدبو کا باعث بنی اور ان کی تعداد پاؤں کے اوپری حصے کے برعکس تلووں میں نمایاں دکھائی دی۔
اس تحقیق کے مطابق پاؤں کی بدبو کا تعلق سٹیفی لوکوکس بیکٹیریا کی تعداد سے پایا گیا جبکہ صابن کا پیر کے تلووں تک نہ پہچنا بھی اس بدبو کی وجوہات میں سے ایک ہے۔
تاہم پاؤں دھونے کا تعلق محض بدبو کو روکنے تک محدود نہیں ہے۔ بہت سی بیماریوں اور پیروں کے مسائل سے بچنے کے لیے پاؤں کو صحیح طریقے سے دھونا ضروری ہے۔
نیویارک کے ہسپتال ماؤنٹ سینائی کے ماہر امراض جلد پروفیسر جوشوا زیچنر کہتے ہیں کہ ’انگلیوں کے درمیان تنگ جگہ کی وجہ سے اس مقام پر مائیکروبیل انفیکشن کا سب سے زیادہ خطرہ ہے جو خارش، سوجن اور بدبو کا سبب بن سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق اس عمل سے جلد کی حفاظت کے لیے موجود تہہ میں خلل پڑتا ہے۔ یہ جرثوموں کے جلد پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے انفیکشنز کا خطرہ بھی بڑھا سکتا ہے۔
پروفیسر جوشوا زیچنر کے مطابق سب سے عام مسئلہ ’ایتھلیٹس فٹ‘ ہے، جو پاؤں کی جلد کا فنگل انفیکشن ہے۔ اس انفیکشن کی ذمہ دار پھپوندی گرم، تاریک اور مرطوب درجہ حرارت میں پروان چڑھتی ہے۔
لہذا یہ حالت عام طور پر انگلیوں کے درمیان خالی جگہوں کو متاثر کرتی ہے. اس لیے اس حصے کو صاف اور خشک رکھنا ضروری ہے جو ہمارے پاؤں کی صحت کے لیے ایک اچھی عادت ہے۔ یہ انفیکشن آپ کے پیروں کے تلووں اور انگلیوں کے درمیان خارش اور جلد کے پھٹنے جیسی علامات کا سبب بن سکتا ہے۔
اگر آپ اپنے پیروں کو صاف رکھنے کی اچھی عادت کو اپنا لیں تواس سے پاؤں کی جلد سٹیفی لوکوکس یا سیوڈموناس بیکٹیریا کے انفیکشن سے محفوظ رہ سکتی ہے۔
اگرچہ یہ بیکٹیریا قدرتی طور پر آپ کی جلد پر موجود ہوتے ہیں تاہم اگر یہ کسی بھی کٹ کے ذریعے آپ کے خون کے دھارے میں داخل ہوتے ہیں تو یہ سنگین انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے۔
ہولی ولکنسن کا کہنا ہے کہ ’پاؤں میں انفیکشن ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہاں زیادہ بیکٹیریا ہوتے ہیں اور ایسے میں اگر آپ کو پیروں میں کوئی چوٹ لگتی ہے، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ جراثیم اس زخم میں داخل ہو سکتے ہیں۔‘
لیکن دوسری جانب اگر آپ اپنے پیروں کو اچھی طرح سے صاف کرتے ہیں تو بھی جلد میں انفیکشن کا امکان ہو سکتا ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ پیروں کو باقاعدگی سے دھونے سے بیکٹیریا کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ لہذا اگر آپ کو زخم لگتا ہے تو خون کے دھارے میں داخل ہونے کے لیے زخم کے آس پاس کے جراثیم کم ہوں گے۔
اگر آپ کو ذیابیطس ہے تو اس صورت میں تو پیروں کو بار بار دھونا اور اُن کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں میں پیتھوجینک بیکٹیریا کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو ان کے پیروں کی جلد پر رہتے ہیں۔
ہولی ولکنسن کا کہنا ہے کہ ’ہمارے جسم میں موجود جراثیم انفیکشن کا سبب بننے کے موقع کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسی لیے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے پیروں کا خاص خیال رکھیں، کیونکہ اس کی وجہ سے انھیں انفیکشن ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‘
ذیابیطس کے شکار افراد کی قوت مدافعت بھی کمزور پڑنے کا خدشہ ہوتا ہے اس لیے اگر انھیں انفیکشن ہو جائے تو ان کا جسم اس سے بہتر طور سے لڑ نہیں سکتا۔
شوگر کے مریضوں کے پیروں پر کٹ لگنے اور زخم ہونے کا بھی خطرہ رہتا ہے اور اگر ان کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو ان کے لیے انگلیوں، پیروں، یا یہاں تک کہ اعضا کو کاٹنا پڑ سکتا ہے۔
ہولی ولکنسن کے مطابق ’اگر آپ کی بلڈ شوگر بڑھی ہوئی یا بے قابو ہے تو آپ کے پیروں کے اعصاب کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یوں آپ کو اپنے پیروں کو ٹھیک سے محسوس کرنا تک بھی مشکل ہو سکتا ہے۔ پیروں کو دھونے کا عمل آپ کو ٹھیک سے جانچ کرنے اور انفیکشن سے محفوظ رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔‘
ہولی ولکنسن اورڈائیبیٹکس یوکے جیسی فلاحی تنظیمیں تجویز کرتی ہیں کہ ذیابیطس کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ ہر روز اپنے پاؤں مناسب طریقے سے دھوئیں۔
تاہم دیگر لوگوں کے لیے ماہرین کیا کہتے ہیں؟
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کے لیے روزانہ پاؤں دھونے سے صحت کو بہت کم فائدہ ہوتا ہے اور یہ جلد کے مسائل کا خطرہ بھی بڑھا سکتا ہے۔
بہرحال جسم کے دیگر حصوں کی ماندد پیروں کی جلد بھی ضروری افعال کو انجام دینے کے لیے مددگار اور فائدے مند جرثوموں کی اپنی کمیونٹی پر انحصار کرتی ہے.
یہ کمیونٹی نقصاندہ بیکٹیریا پر غالب آتی ہے اور وہ ماحول پیدا کرتی ہے جس سے جلد کو نم اور ملائم رہتی ہے اور یہاں تک کہ زخموں کی مرمت میں بھی مددگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔
بار بار رگڑ کر دھونے سے اُن فائدہ مند جراثیم کی تہہ بھی کم ہوتی ہے، خاص طور پر اگر پانی گرم ہو۔
اس کے نتیجے میں جلد خشک، حساس اور خارش زدہ ہو سکتی ہے۔
پھٹی ہوئی جلد بیکٹیریا کو عام طور پر جلد کے حفاظتی حصار کو توڑنے کی اجازت دے سکتی ہے، جس سے انفیکشن کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
جوشوا زیچنر کا کہنا ہے کہ ’جلد کو زیادہ دھونے سے جلد کی رکاوٹ میں خلل پڑ سکتا ہے، جلد قدرتی تیل سے محروم ہو سکتی ہے، جس سے خشکی اور سوزش میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے خارش ، خشک جلد پیدا ہوتی ہے اور ایکزیما جیسے حالات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
جوشوا کا کہنا ہے کہ ’یہ بھی ضروری ہے کہ پیروں کی جلد کو ضرورت سے زیادہ سکرب یا ایکسفولییٹ نہ کیا جائے۔‘
ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اینٹی بیکٹیریل صابن جلد پر جراثیموں کے نازک توازن کو خراب کر سکتے ہیں اور اس سے فائدہ مند بیکٹیریا بھی ختم ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے جسم کسی حد تک جرثوموں کو چیلنج کرنے کے بھی عادی رہے ہوں۔
آسان الفاظ میں کہیں تو اگر ہم نے بچپن میں بیکٹیریا اور وائرس کا سامنا نہیں کیا ہوتا تو ہمارا جسم بیکٹیریل اور وائرل حملوں سے ردعمل کرنا اور اُن سے لڑنا نہیں سیکھ پاتا۔ اسی لیے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس وجہ سے بہت زیادہ نہانا یا بار بار غسل کرنا بھی ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پاؤں کو کتنی بار دھونا چاہیے؟
اور اس سب تفصیل کے بعد اب سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ہمیں اپنے پاؤں کتنی بار دھونے چاہییں؟ اس سوال کا جواب ہر شخص کی جسمانی حالت اور ماحول پر منحصر ہے.
ہولی ولکنسن کے مطابق:
- ذیابیطس کے مریضوں کے لیے سفارش کی جاتی ہے کہ وہ ہر روز باقاعدگی سے اپنے پیروں کو دھوئیں، لیکن اگر آپ کو کوئی عارضہ لاحق نہیں تو ہر دوسرے دن پاؤں کی اچھی طرح صفائی کرنا کافی ہے
- اگر آپ زیادہ ورزش کرتے ہیں تو آپ کو اپنے پیروں کو کسی ایسے شخص سے زیادہ باقاعدگی سے دھونا چاہیے جو کم فعال ہوں یعنی ورزش وغیرہ نہ کرتے ہوں
- پاؤں دھونے کا طریقہ بھی اہم ہے۔ آپ اپنے پیروں کو کس طرح دھوتے اور خشک کرتے ہیں اس کا بھی صحت پر اثر پڑتا ہے
- بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ نہانے کے دوران پاؤں پر پانی بہنانے ہی ہمارے پاؤں دھل جاتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہمیں درحقیقت اپنے پیروں کو صابن کی مدد سے باقاعدہ طور پر دھونے کی ضرورت ہے
تاہم برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی میں نیورو سائنس اور فزیالوجی کے ایک لیکچرر ڈین بومگارڈ اپنے مریضوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے پیروں کو مناسب طریقے سے خشک کریں۔
ّین بومگارڈ کا کہنا ہے کہ ’جب آپ کی انگلیوں کے درمیان نمی اور گرم درجہ حرارت موجود ہو تو کئی قسم کے انفیکشن کا امکان بڑھ جاتا ہے۔‘