لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، افغانستان کا مستقبل کس قدر متاثر ہو سکتا ہے؟

image

افغانستان میں بچیاں چار سال سے تعلیم سے محروم ہیں کیونکہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے ساتھ ہی بچیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی تھی اور لاکھوں لڑکیاں آج بھی آنکھوں میں یہ خواب سجائے ہوئے ہیں کہ شاید انہیں کسی روز سکول جانے کا موقع ملے۔

عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون میں ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اگر طالبان کی یہ پالیسی برقرار رہتی ہے تو آنے والے دنوں میں خواتین کی صحت اور ملک کی ترقی پر شدید منفی اثرات پڑیں گے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کا کہنا ہے کہ بچیوں کی تعلیم پر دوبارہ پابندی ستمبر 2021 میں لگائی گئی تھی جس کی وجہ سے 20 لاکھ سے زائد بچیاں تعلیم سے محروم ہوئیں اور پابندی کا یہ سلسلہ 2030 تک چلا تو یہ اعداد و شمار دو گنا سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔

یونیسف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ ’اس صورت حال کے نتائج لڑکیوں اور خود افغانستان کے لیے بھی تباہ کن ہوں گے۔ اس سے صحت کے نظام، معیشت اور ملک کے مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘

لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی 2021 میں اقتدار سنبھالنے والے طالبان کی جانب سے کیے گئے سخت ترین اقدامات میں سے ایک ہے، جس کی وجہ سے لڑکیاں چھٹی سے آگے نہیں پڑھ پاتیں اور افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اس قسم کی پابندی عائد ہے۔

طالبان کا دعویٰ کہ ان کا یہ اقدام اسلامی قوانین کے مطابق ہے جبکہ ایسے ہی اقدامات انہوں نے پچھلے دور حکومت میں بھی کیے تھے جو 1996 سے 2001 تک تھا۔

اس پابندی کے اثرات لڑکیوں کی تعلیم تک محدود نہیں بلکہ افغانستان کے معاشرے میں کئی دہائیوں تک ظاہر ہونے کا امکان ہے تاوقتیکہ یہ پالیسی تبدیل نہیں کر لی جاتی۔

افغان ٹائمز کی چیف ایڈیٹر سلمیٰ نیازی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اس پابندی کے تباہ کن اثرات کئی نسلوں تک جائیں گے، اس سے بڑے پیمانے پر برین ڈرین کے ساتھ ساتھ معاشی جمود اور غربت میں بھی اضافہ ہو گا۔

یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق اقتصادی لحاظ سے بچیوں کو سکولوں سے باہر رکھنے کی وجہ سے افغانستان ہر سال اپنی مجموعی پیداوار کا دو اعشاریہ پانچ فیصد کھو دیتا ہے۔

طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

سلمیٰ نیازی کا کہنا تھا کہ پڑھی لکھی خواتین ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور صحت کے نظام اور گورننس سمیت کئی میدانوں میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔

ان کے مطابق ’ان پر تعلیم کے دروازے کی بندش سے صنفی امتیاز بڑھتا ہے، جس سے افرادی قوت اور پیداواری صلاحیت محدود ہوتی ہے جبکہ کم عمری کی شادی اور دوران زچگی اموات کے خطرات بھی بڑھتے ہیں۔ اس کے اثرات دہائیوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔‘

سینٹ جارج یونیورسٹی لندن سے وابستہ ڈاکٹر عائشہ احمد نے بھی عرب نیوز سے بات چیت میں ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا ہے۔

’اگرچہ لڑکے اور مرد تعلیم تک رسائی رکھتے ہیں تاہم پھر بھی معیاری تعلیم کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں۔‘

ان کے مطابق ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ مختلف عمروں کے گروپس تعلیم پر پابندی سے متاثر ہوں گے اور اس کے اثرات نسلوں تک چلیں گے۔‘

طالبان کی جانب سے دسمبر 2024 میں خواتین کی طبی تعلیم بند کیے جانے سے خواتین کی صحت سے متعلق خطرات شدید تر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

دسمبر 2024 میں طالبان حکومت نے خواتین کی طبی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

یونیسف کی کیھترائن رسل نے خبردار کیا صرف چند خواتین ڈاکٹر اور مڈ وائیوز کی دستیابی کی وجہ سے دوران زچگی ہلاکتوں میں ایک ہزار چھ سو اور نومولودوں کی اموات میں ساڑھے تین ہزار کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

افغانستان پہلے سے ان ممالک کی فہرست میں موجود ہے جہاں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح بہت بلند ہے اور 10 ہزار بچوں کی پیدائش میں کم سے کم چھ سو اموات ہوتی ہیں جو کہ عالمی سطح کی اوسط کے تقریباً تین گنا ہے۔

طالبان کی جانب سے خواتین پر عائد اس شرط سے کہ وہ مرد کو ساتھ لے کر نکلیں، ان خواتین کو مزید خطرات سے دوچار کر رہی ہے جو زچگی کے عمل سے گزرتی ہیں۔  

یو این ویمن کا کہنا ہے کہ 2026 تک تعلیم پر پابندی کے باعث بچوں کی پیدائش میں 45 اور زچگی میں اموات کی شرح میں 50 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

عائشہ احمد نے خواتین کو طبی تربیت سے روکنے پر طالبان پر ’تعصب کو نسل کشی میں تبدیل‘ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہ ’لڑکیاں اور عورتیں بس مر جائیں گی۔‘

28 فیصد کے قریب افغان لڑکیوں کی شادی 18 سال سے قبل کر دی جاتی ہے اور یونیسف کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ تعلیم پر پابندی کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں کا سلسلہ بڑھے گا جس سے لڑکیوں کو صحت کے شدید مسائل کا سامنا ہو گا۔‘

یونیسف کا کہنا ہے کہ بچیوں کی تعلیم پر پابندی سے کم عمری میں شادی کا سلسلہ بڑھا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

عائشہ احمد کے مطابق ’ایسی پالیسیوں تحت طالبان منظم انداز میں خواتین کی خودمختاری ختم کر رہے ہیں اور جان بوجھ کر لڑکیوں کے لیے سپیس کم کی جا رہی ہے۔‘

افغانستان کی سابق وزیر برائے خواتین امور حسینہ صافی کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی افغانستان کو مزید تنہائی کا شکار کرے گی اور ہر سطح پر عدم مساوات بڑھے گی۔‘

انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’جب ایک مرد کو تعلیم دیتے ہیں تو صرف ایک فرد کو پڑھاتے ہیں لیکن جب آپ ایک عورت کو پڑھاتے ہیں تو آپ ایک پورے خاندان کو پڑھاتے ہیں کیونکہ بچے کا پہلا سکول ماں کی گود ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’قرآن کا پہلا لفظ اقرا ہے جس کا مطلب ہے پڑھو، جس سے اسلام میں تعلیم کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان مشکلات کے باوجود بھی افغانستان کے خاندانوں کی کوشش رہتی ہے کہ وہ متبادل ذرائع سے اپنی بچیوں کو پڑھا سکیں اور خفیہ سکولوں کا رخ کرتے ہیں۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.