افغان پناہ گزینوں کی پاکستان سے بے دخلی: ’پاکستان میں ہمیں افغان، افغانستان میں پاکستانی سمجھا جاتا ہے‘

پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، جس سے خوف و بے چینی بڑھ گئی ہے۔ خواتین، طلبہ اور فنکار واپسی سے خائف ہیں جبکہ خیبر پختونخوا حکومت زبردستی بے دخلی کی مخالفت کر رہی ہے۔

پاکستان میں ایک مرتبہ پھر افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کا عمل جاری ہے جس کے دوران گرفتاریوں اور چھاپوں کا ایک سلسلہ دیکھا گیا ہے۔

اس مرتبہ زیادہ توجہ صوبہ پنجاب اور اسلام آباد میں ہے جہاں سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چند افغان شہریوں کا کہنا تھا کہ ’خوف کے سائے ہر وقت منڈلاتے رہتے ہیں، ہمارا تو اب کوئی وطن نہیں رہا۔۔۔ پاکستان میں ہمیں افغان اور افغانستان میں ہمیں پاکستانی سمجھا جاتا ہے۔‘

آئیے سب سے پہلے جانتے ہیں کہ اس وقت افغان پناہ گزینوں کی واپسی کیسے ہو رہی ہے۔

چھاپے اور گرفتاریاں

پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم اور افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے اور گذشتہ ایک ہفتے کے دوران 5500 کے لگ بھگ افغان پناہ گزینوں کو گرفتار کر کے طورخم کے راستے واپس افغانستان بھیجا گیا ہے جبکہ مذید گرفتاریاں جاری ہیں۔

تاہم یہ شاید پہلا موقع ہے کہ اسلام آباد اور باقی تینوں صوبوں کے برعکس خیبر پختونخوا میں اب تک افغان پناہ گزینوں کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی ہے۔ مقامی پولیس ذرائع کاکہنا ہے کہ پشاور سمیت صوبے میں افغان پناہ گزینوں کی نشاندہی کے لیے میپنگ کا کام جاری ہے۔

ایک افغان شہری نے بتایا ہے کہ ’پشاور میں بورڈ کے علاقے، تاج آباد اور تہکال میں افغان شہریوں کے گھروں میں رابطے کیے گئے ہیں اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر واپس اپنے وطن چلے جائیں۔‘

اس وقت سب سے زیادہ اور متحرک کارروائی صوبہ پنجاب میں جاری ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افغان پناہ گزینوں کو گرفتار کرکے مختلف ہولڈنگ سنٹرز میں لایا جاتا ہے جہاں سے باقاعدہ ویریفیکیشن کے بعد انھیں طورخم کے مقام پر پاک افغان سرحد کے راستے واپس روانہ کر دیا جاتا ہے۔

BBC
BBC

افغان پناہ گزینوں میں خوف

’اگر مجھے واپس افغانستان جانا پڑ گیا تو میں تو ڈیپریشن کا شکار ہو جاؤں گی۔‘ یہ بات ایک افغان خاتون ٹیچر نے ڈاکٹر نور کو بتائی جو پشاور میں ایک تعلیمی ادارے سے منسلک ہیں۔

ڈاکٹر نور کے مطابق وہ خاتون ایک ٹیچر ہیں اور شدید خوف میں مبتلا ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب سے یہ کریک ڈاؤن شروع ہوا ہے وہ خاتون ایک ڈاکٹر کے پاس گئی ہیں اور ذہنی سکون کی ادویات لے رہی ہیں۔‘

ڈاکٹر نور نے کہا کہ خواتین ٹیچر اور طالبات کا کہنا تھا کہ ’اگر طالبان سے پہلے والی حکومت ہوتی جس میں خواتین کو کام کی اجازت تھی تو پھر بھی ٹھیک تھا لیکن اب افغانستان واپس جانا تو ایسے ہی ہے جیسے گھر میں بند ہو کر بیٹھ جائیں حالانکہ وہ یہاں پاکستان میں ملازمت کرتی ہیں۔‘

اسی طرح راولپنڈی سے ایک افغان شہری نے دعویٰ کیا کہ ’یہاں بس اڈوں پر پولیس نے کہہ رکھا ہے کہ کسی افغان کو بھی کہیں جانے کے لیے ٹکٹ نہیں دینی ہے۔‘ ایک افغان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ مشکل سے پشاور پہنچے ہیں حالانکہ ان کے پاس یہاں رہنے کا کارڈ ہے۔

افغانستان پر روس کے حملے کے بعد سے افغان شہریوں نے مختلف ممالک کا رخ کیا جن میں ایک بڑی تعداد نقل مکانی کرکے پاکستان پہنچی تھی۔ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے لیکن ان افغان پناہ گزینوں پر ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ کسی بھی وقت ان کے خلاف کارروائی شروع کی جا سکتی ہے۔

اگرچہ حالیہ کارروائی میں خـیبر پختونخوا میں کوئی گرفتاریاں نہیں جا رہیں لیکن اس کے با وجود افغان پناہ گزینوں میں خوف پایا جاتا ہے۔

پاکستان حکومت کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے کی پالیسی پر عمل درآمد شروع ہونے کے بعد ہر افغان گھرانے میں خوف پایا جاتا ہے۔ یہاں ہر افغان کا ایک ہی سوال ہے کہ معلوم نہیں ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔

محمد نبی (فرضی نام ) کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ ہے وہ بتاتے ہیں کہ ان کے رشتہ دار خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر خیبر پختونخوا میں بھی گرفتاریاں شروع کر دی گئیں تو وہ کہاں جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ جب ان کے والدین نے نقل مکانی کی تھی وہ اپنا سارا سامان وہیں افغانستان میں چھوڑ کر آگئے تھے لیکن جب افغانستان میں حالات بہتر ہو گئے تھے تو وہ واپس افغانستان چلے گئے تھے۔

افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر پاکستان آ گئے اور اپنا سارا سامان وہیں چھوڑ دیا تھا۔

اس سے پہلے 2023 میں بھی غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا اور انھیں وطن واپس روانہ کر دیا گیا تھا۔

پنجاب میں زیادہ گرفتاریاں

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں اور افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور اس میں صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ صوبہ پنجاب میں جہاں جہاں افغان پناہ گزین مقیم ہیں وہاں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

صوبہ پنجاب میں بھی دیگر صوبوں کی طرح افغان پناہ گزین یا تو محنت مزدوری کرتے ہیں اور یا ان کے اپنے چھوٹے بڑے کاروبار ہیں۔

ہولڈنگ سنٹرز میں لائے گئے گرفتار پناہ گزینوں کے بارے میں ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ ’پہلے روز پنجاب سے لائے گئے افراد میں خوف تھا اور ان کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’کل رات کو اٹک سے جن غیر قانونی تارکین وطن کو یہاں قیام کے لیے لایا گیا تھا، نفسیاتی دباؤ و صدمے کی وجہ سے بیشتر کو پیٹ درد اور معدے کی خرابی کی شکایات کا سامنا تھا۔ ان کی پریشانی ان کے چہروں سے واضح تھی۔‘

سرکاری افسر نے بتایا کہ ’اس کے بعد آنے والے پناہ گزینوں کی نفسیاتی کیفیت پہلے آنے والے افغان پناہ گزینوں سے کافی بہتر تھی۔ ان میں وہ افغان پناہ گزین شامل تھے جو رضا مندی سے جانے کے لیے تیار تھے اور یا انھوں نے اپنی ذہن سازی کر لی تھی، ان کے رویے مناسب تھے لیکن جنھیں زبردستی گرفتار کرکے لایا گیا تھا ان کی حالت غیر ہوئے جا رہی تھی۔‘

خیبر پختونخوا میں محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ضلع خیبر میں طور خم کے راستے یکم اپریل 2025 سے اب تککل 5568 غیر قانونی اور افغان سیٹزن کارڈ کے حامل پناہ گزینوں کو افغانستان بھجوایا گیا ہے۔ طورخم کے راستے بھیجے جانے والوں میں 2355 افراد افغان سیٹزن کارڈ کے حامل اور 3042 غیر قانونی تارکین وطن بھی شامل ہیں۔

محکمہ داخلہ کے مطابق اب تک اسلام آباد سے 160، صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں سے4227 اور گلگت بلتستان سے ایک افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کو براستہ طورخم افغانستان بھجوایا گیا۔

خیبر پختونخوا میں گرفتاریاں کیوں نہیں ہو رہیں؟

محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابقستمبر 2023 سے اب تکمجموعی طور پر 4 لاکھ، 88 ہزار، 187 غیر قانونی تارکین وطن کو طورخم سرحد سے افغانستان بھیجوایا گیا ہے۔

پشاور میں مقیم ایک افغان شہری نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ شام کو اکٹھے ہوتے ہیں اور اس بارے میں بات چیت کرتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے، اگرچہ خیبر پختونخوا میں اب تک کوئی گرفتاری یا انھیں واپس وطن بھیجنے کے لیے کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی لیکن ان افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ ’کس وقت یہاں حکومت کی پالیسی تبدیل ہو جائے کچھ پتہ نہیں چلتا۔‘

اس وقت افغان پناہ گزینوں کے لیے ایک مرتبہ پھر مشکل ہے اور انھوں نے گھروں میں سامان یا تو پیک کر رکھا ہے یا اس خوف میں ہیں کہ اب وہ اس سامان کا کیا کریں گے۔

وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے چند روز پہلے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کے بارے میں وفاقی حکومت نے غلط پالیسیاپنائی ہے اور ان کی حکومت کسی افغان باشندے کو طاقت کے زور پر نہیں نکالے گے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وفاقی حکومت کی پالیسی کے غلط نتائج آ سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت کسی کو زبردستی نہیں نکالے گی، ’صوبے میں کیمپ لگائے جائیں گے جو اپنی مرضی سے جانا چاہتے ہیں انھیں باعزت طریقے سے رخصت کریں گے۔‘

اس بارے میں علی امین گنڈا پور کے بھائی اور رکن قومی اسمبلی فیصل امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ’وفاقی حکومت کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے جبامریکہ اور برطانیہ میں ایک بچے کی پیدائش پر اسے نیشنیلٹی دی جاتی ہے تو افغان پناہ گزینوں کو بھی یہاں نیشنیلٹی دینے کے کے لیے پالیسی بنائی جا سکتی ہے۔‘

’ان افغان شہریوں نے پاکستان میں انویسٹمنٹ کی ہے اور ماضی میں ان افغان شہریوں کو پاکستان سے نکالنے پر خیبر پختونخوا کی اکانومی پر برے اثرات مرتب ہوئے تھے۔‘

خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا پہلے سے یہ موقف تھا کہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے بارے میں ایک بہتر پالیسی ہونی چاہیے اور اس کے علاوہ خیبر پختونخوا حکومت افغانستان حکومت سے مذاکرات پر بھی زور دے رہی ہے۔

وزیر اعلی علی امین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات سے پاکستان میں امن کے قیام میں مدد مل سکتی ہے اور اس کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے وفاق اور افغان حکام سے رابطے بھی کیے گئے ہیں۔

BBC
BBC

کیا افغان پناہ گزینوں کا رخ پختونخوا کی جانب ہے؟

مرکز اور دیگر صوبوں میں افغان پناہ گزینوں کے خلاف کارروائیوں کے بعد ایسی اطلاعات ہیں کہ اسلام آباد اور پنجاب سے افغان پناہ گزین خیبر پختونخوا کا رخ کر سکتے ہیں لیکن اب تک اس کے کوئی واضح شواہد نہیں ملے ہیں۔

پشاور میں پراپرٹی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسے افغان شہری نہیں آئے جو اسلام آباد یا پنجاب میں چھاپوں کے خوف سے پشاور یا صوبے کے کسی دوسرے شہر میں آئے ہیں۔

پشاور میں پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر سراج یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی اطلاع کے مطابق ’پراپرٹی ڈیلرزکے پاس کوئی ایسے افغان نہیں آئے، ہاں اگر کوئی اپنے رشتہ داروں یا جاننے والوں کے پاس آیا ہو یا کسی نے اپنے طور پر کوئی جگہ لی ہو تو اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘

خواتین، طالبات اور موسیقار زیادہ پریشان؟

موجودہ حالات میں جن افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے ان میں خواتین یا طالبات اور موسیقی سے جڑے افراد زیادہ پریشان ہیں کیونکہ افغانستان میں ان کے لیے مواقع محدود ہیں۔

پشاور اور کوئٹہ سمیت پاکستان میں 500 سے زیادہ ایسے افغان ہیں جن کا روزگار موسیقی اور فن سے جڑا ہوا ہے، ان میں سے بیشتر افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے وقت نقل مکانی کرکے پاکستان آئے تھے۔

راشد خان انھی افغان فنکاروں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگرچہ پشاور سمیت خیبر پختونخوا میں انھیں کچھ نہیں کہا جا رہا لیکن پاکستان کے دیگر علاقوں میں فن سے جڑے لوگوں میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان سے بے دخلی کا مطلب ان افراد کے لیے ایک طرح سے موت ہو گی کیونکہ طالبان موسیقی اور فن کی اجازت نہیں دیتے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.