یہ سنہ 1966 کی بات ہے جب سپین کے ایک دور افتادہ گاؤں پالومیرس کے رہائشیوں کو لگا کہ ’صاف نیلے آسمان سے برستی آگ ایک قیامت بن کر ان پر اتری ہے۔‘
یہ سنہ 1966 کی بات ہے جب سپین کے ایک دور افتادہ گاؤں پالومیرس کے رہائشیوں کو لگا کہ ’صاف نیلے آسمان سے برستی آگ ایک قیامت بن کر ان پر اتری ہے۔‘
اس خوفناک حادثے کے دو سال بعد بی بی سی کے رپورٹر کرس بریشر نے اس گاؤں کا دورہ کیا۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ امریکہ کے ہائیڈروجن بم کے حادثاتی طور پر گرنے کے بعد کیا ہوا تھا۔
تقریباً آج سے 60 سال قبل سات اپریل 1966 کو ایک گمشدہ جوہری ہتھیار جسے امریکی فوج 80 دن تک شدت سے تلاش کر رہی تھی بالآخر مل گیا تھا۔
ہیروشیما پر گرائے گئے بم سے 100 گنا زیادہ طاقت والا یہ جوہری ہتھیار بحیرہ روم سے 2,850 فٹ (869 میٹر) کی گہرائی سے احتیاط سے نکالا اور اسے حفاظت کے ساتھ امریکی جنگی بحری جہاز یو ایس ایس پیٹرل پر رکھا گیا تھا۔
جب اسے امریکی جنگی جہاز پر رکھ دیا گیا تو امریکی بحریہ کے افسران نے بہت جامع طریقے سے اسے غیر مسلح کرنے کے لیے اسے تھرمونیوکلیئر ڈیوائس کی کیسنگ میں رکھااور اس کے بعد ہی ہر کسی نے سکون کی سانس لی تھی کیونکہ چار ہائیڈروجن بموں میں سے یہ آخری بم تھا جو امریکہ نے سپین پر غلطی سے گرا دیا تھا اور اس سمیت باقی سب برآمد ہو چکے تھے۔
بی بی سی کے رپورٹر کرس بریشر نے سنہ 1968 میں جائے وقوعہ سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ جوہری ہتھیاروں سے متعلق کوئی پہلا حادثہ نہیں۔‘
پینٹاگون نے کم از کم نو ایسے حادثات کی فہرست دی ہے جب ہائیڈروجن بم لے جانے والے ہوائی جہاز کو حادثات پیش آئے لیکن یہ غیر ملکی سرزمین پر ہونے والا پہلا حادثہ تھا، جس میں عام شہری شامل تھے اور اس نے دنیا کی توجہ حاصل کی تھا۔
یہ خوفناک صورتحال ’کروم ڈوم‘ نامی امریکی خفیہ آپریشن کی وجہ سے سامنے آئی تھی۔ سنہ 1960 کی دہائی کے آغاز میں امریکہ نے اپنے سرد جنگ کے حریف سوویت یونین کے ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا تھا۔
اس منصوبے کے تحت جوہری ہتھیاروں سے لیس بی 52 بمبار طیاروں کا ایک بیڑا مسلسل آسمان پر چکر لگاتا رہے گا اور یہ ایک لمحے کے نوٹس پر ماسکو پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گا لیکن زیادہ دیر تک مسلسل فضا میں پرواز کرنے کے لیے ان طیاروں کو دوران پرواز ایندھن بھرنے کی ضرورت تھی۔
17 جنوری سنہ 1966 کو ایسا ہی ایک بمبار طیارہ جنوبی سپین کے المیریا علاقے کے اوپر 31,000 فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا اور اس نے کے سی 135 ٹینکر طیارے کے ساتھ معمول کے مطابق فضا میں دوران پرواز ایندھن بھرنے کی کوشش کی جو تباہ کن ثابت ہوئی۔
اس تباہ کن حادثے سے نمٹنے کے انچارج امریکی میجر جنرل ڈیلمر ولسن نے بی بی سی کے نامہ نگار بریشر کو بتایا تھا کہ ’میرے خیال سے اس حادثے کی ایک وجہ بمبار طیارے کا بہت زیادہ رفتار سے ٹینکر طیارے کے قریب آنا تھا اور اس دوران دونوں طیارے اپنی پوزیشن مستحکم نہیں رکھ سکے تھے۔‘
ایندھن بھرنے والے طیارے کے ساتھ بی-52 بمبار طیارے کے ٹکرانے سے وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور اس میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں ٹینکر طیارے میں موجود عملے کے چاروں افراد ہلاک ہو گئے۔
اس کے نتیجے میں ہونے والے دھماکے سے جنگی طیارےبی-52 کے ٹیل سیکشن میں موجود دو اہلکار بھی مارے گئے تھے جبکہ تیسرا باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا، لیکن اس کا پیراشوٹ نہ کھلنے کی وجہ سے اس کی بھی موت ہو گئی تھی۔
بمبار طیارے کے عملے کے دیگر چار ارکان اپنے جلتے ہوئے طیارے کے ٹوٹ کر زمین پر گرنے سے پہلے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر اس طیارہ حادثہ اس وقت مزید خوفناک شکل اختیار کر گیا جب اس کے ساتھ منسلک خطرناک جوہری ہتھیار سپین کے دور افتادہ گاؤں پالومیرس پر آ گرے تھے۔
وہاں کے لوگوں کو آسمان پر آگ کا ایک بڑا گولہ ایک میل دور سے نظر آیا۔ شکر ہے کہ اس حادثے کے نتیجے میں ایٹمی دھماکہ نہیں ہوا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ بمبار طیارے بی 52 کے وار ہیڈز مسلح نہیں تھے اور غیر ارادی ایٹمی ردعمل یا دھماکے کو روکنے کے لیے ان میں حفاظتی انتظامات تھے لیکن ان میں نصب تھرمونیوکلیئر آلات کے پلوٹونیم کور کے گرد دھماکہ خیز مواد موجود تھا جو کسی متحرک ردعمل کو پیدا کر سکتا تھا۔
لیکن ایک اچھی بات یہ تھی کہ کسی حادثے کی صورت میں، ان جوہری بموں میں پیراشوٹ لگے ہوئے تھے جو لینڈنگ کے وقت زمین پر ٹکرانے کے اثرات کو کم کرنے اور کسی ممکنہ تابکار آلودگی کو روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔
درحقیقت ان میں سے ایک جوہری بم بنا پھٹے دریا میں بحفاظت گرا تھا اور دوسرے دن برآمد کر لیا گیا تھا مگربدقسمتی سے دو دیگر ایٹمی بموں کے پیراشوٹ کھلنے میں ناکام رہے تھے۔
اس صبح ایک ہسپانوی کسان پیڈرو الارکون اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے جب ایک جوہری بم ان کے ٹماٹر کے کھیت میں گرا اور زمین پر ٹکرانے کے باعث پھٹ گیا۔
انھوں نے 1968 میں بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم بالکل اڑا دیے گئے تھے۔ بچوں نے رونا شروع کر دیا تھا اور میں خوف سے مفلوج ہو گیا تھا۔ ایک پتھر میرے پیٹ میں لگا اور مجھے لگا کہ میں مر گیا ہوں۔ میں وہاں مردہ کی طرح پڑا ہوا تھا اور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے بچے میرے مرنے پر رو رہے ہیں۔‘
تباہی اور افراتفری
دوسرا ہائیڈروجن بم بھی اسی دوران قبرستان کے قریب زمین سے ٹکرایا۔ ان دوہرے دھماکوں نے بہت بڑے گڑھے بنا دیئے اور کئی سو ایکڑ پر انتہائی زہریلی، تابکار پلوٹونیم کی دھول بکھر گئی۔ جلتے ہوئے طیارے کا ملبہ بھی ہسپانوی گاؤں پر گر رہا تھا۔
سینورا فلورس نامی ایک دیہاتی نے 1968 میں بی بی سی کو بتایا کہ ’میں رو رہا تھا اور بھاگ رہا تھا۔ میری چھوٹی بچی روتے ہوئے کہہ رہی تھی ’ماما، ماما، ہمارے گھر کو دیکھو، یہ جل رہا ہے۔‘ چاروں طرف دھواں ہی دھواں تھا اور ہم پر بہت سے پتھر اور ملبہ گر رہا تھا مجھے لگا یہ ہمیں لگے گا، وہ اتنا خوفناک دھماکہ تھا کہ ہم نے سوچا کہ یہ دنیا فنا ہو رہی ہے۔‘
جب یہ خبر امریکی فوجی کمانڈ تک پہنچی کہ بمبار طیارہ جوہری ہتھیاروں سمیت گرا ہے تو ایک بہت بڑا آپریشن شروع کر دیا گیا۔ تباہی کے وقت کیپٹن جو رامیرزجو اس وقت میڈرڈ میں امریکی فضائیہ کے وکیل تعینات تھے۔
انھوں نے 2011 میں بی بی سی کی وٹنس ہسٹری کو بتایا کہ ’بہت سے لوگ اس بارے میں بات کر رہے تھے، کانفرنس روم میں بہت افراتفری تھی۔ ہر کوئی ’بروکن ایرو‘ یعنی ’ٹوٹے ہوئے تیر‘ کا ذکر کر رہا تھا۔ مجھے تب معلوم ہوا کہ بروکن ایرو یا ٹوٹا ہوا تیرجوہری حادثے کا کوڈ ورڈ تھا۔‘
امریکی فوجی اہلکاروں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے علاقے تک پہنچایا گیا۔ جب کیپٹن رامیرز پالومیرس پہنچے تو انھوں نے حادثے سے ہونے والی تباہی اور افراتفری کو دیکھا۔
طیارے کے جلے ہوئے ٹکڑوں کا ملبہ پورے علاقے میں بکھرا ہوا تھا، جلتے ہوئے بمبار طیارے بی-52کا ایک بڑاٹکڑا ایک سکول کے صحن میں گرا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا اور وہاں لوگ مختلف سمتوں میں بھاگ رہے تھے۔ میں دھوئيں والا ملبہ دیکھ سکتا تھا، میں اس میں لگی آگ دیکھ رہا تھا۔‘
اس تباہی کے باوجود معجزاتی طور پر گاؤں میں کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا تھا۔ بریشر نے کہا کہ ’تقریباً 100 ٹن آتش گیر ملبہ گاؤں پر گرا تھا لیکن ایک مرغا بھی نہیں مرا تھا۔‘
ایک مقامی سکول ٹیچر اور ڈاکٹر ہلاک ہونے والے امریکی فضائیہ کے اہلکاروں کی باقیات کو لانے کے لیے اس پہاڑی پر چڑھ گئے جہاں آگ جل رہی تھی۔ بریشر نے بتایا کہ ’انھوں نے مرنے والوں کی باقیات کو پانچ تابوتوں میں رکھا مگر جب امریکیوں نے وہاں صرف چار افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تو پانچ تابوتوں کی موجودگی نے ان کے لیے کافی محکمانہ مشکلات کھڑی کر دی تھی۔‘
امریکی بمبار طیارے بی-52 کے عملے میں سے تین جو حادثے کے دوران بحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے وہ ساحل سے کئی میل دور بحیرۂ روم میں اترے اور انھیں مقامی ماہی گیروں کی کشتیوں نے حادثے کے ایک گھنٹے کے اندر بچا لیا۔
چوتھا ہوا بازجو بی-52 کے طیارے میں ریڈار نیویگیٹر تھا حادثہ کے دوران جہاز کے جلتے ہوئے حصے سے ایجیکٹ کرنے میں کامیاب تو ہوا تھا لیکن اس دوران وہ بری طرح جھلس گیا تھا اور وہ خود کو اپنی ایجیکشن سیٹ سے الگ نہیں کر سکا۔ اس کے باوجود وہ اپنا پیراشوٹ کھولنے میں کامیاب ہو گیا اور گاؤں کے قریب زندہ پایا گیا اور اسے ہسپتال لے جایا گیا تھا۔
تاہم اس سب کے باوجود سب سے بڑی پریشانی اور مشکل اس وقت طیارے کے مہلک جوہری پے لوڈ کا پتہ لگانے کی تھی۔ جنرل ولسن نے 1968 میں بی بی سی کو بتایا کہ ’میری بنیادی فکر ان بموں کو برآمد کرنا تھی، جو کہ ہماری اولین ترجیح تھی۔‘
ایک بم غائب تھا
جنرل ولسن نے اس بارے میں مزید بتایا کہ حادثہ کی 'پہلی رات، گارڈیا سول (سپین کی نیشنل پولیس فورس) پالومیرس کے چھوٹے سے بار میں آئی اور یہ وہ واحد جگہ تھی جہاں بجلی تھی۔ انھوں نے ہمیں اطلاع دی کہ انھوں نے ایک چیز دیکھی ہے جسے وہ ایک بم سمجھ رہے ہیں، اس لیے ہم نے فوراً اپنے کچھ لوگوں کو اس ندی کے کنارے پر بھیج دیا جو شہر کے مرکز سے زیادہ دور نہیں تھی۔ اگلی صبح جب ہم وہاں پہنچے تو درحقیقت وہ بم ہی تھا۔ اس وقت صبح کے کوئی 10 یا 11 بجے کی بات ہو گی جب ہمیں تلاش کے دوران دو اور بم ملے۔'
اب تک تین جوہری بم مل چکے تھے لیکن ایک تاحال لاپتہ تھا۔ اگلے دن تک امریکی فوجیوں سے بھرے ٹرک قریبی فوجی اڈوں سے بھیجے جا چکے تھے، جس کے ساتھ ہی پالومیرس کا ساحل تقریباً 700 امریکی فضائیہ کے افراد کا ایک اڈہ بن گیا تھا اور سائنس دان فوری طور پر کسی بھی تابکاری پر قابو پانے اور چوتھے جوہری بم کو تلاش کرنے کی کوشش میں سرگرداں تھے۔
کیپٹن رامیرز نے سنہ 2011 میں یہ بات بتائی کہ 'جب گمشدہ جوہری بم کی تلاش کا کام زور و شور سے شروع ہوا تو سب سے پہلی چیز جو آپ وہاں دیکھ سکتے تھے وہ یہ تھی کہ 40 یا 50 امریکی فضائیہ کے اہلکار ایک قطار میں ہاتھ سے ہاتھ ملائے چلے جا رہے تھے۔ انھوں نے تلاشی کے لیے علاقوں کا تعین کیا تھا۔ وہاں کچھ لوگ گیگر کاؤنٹر ( وہ آلاہ کو کسی بھی ممکنہ تابکاری کی جانچ کرتا ہے) کے ساتھ بھی موجود تھے جنھوں نے وہاں پہنچنا اور ان علاقوں کی نشاندہی کرنا شروع کر دی تھی جو تابکاری سے آلودہ تھے۔'
جب امریکیوں نے ان علاقوں کی نشاندہی کر لی جو جوہری بم سے آلودہ تھے تو انھوں نے مٹی کی اوپری تین انچ تہہ کو کھرچ کر انھیں واپس امریکہ بھیجنے کے لیے بیرل میں بند کرنا شروع کیا۔ تابکاری کی زد میں آنے والی تقریباً 1400 ٹن مٹی جنوبی کیرولائنا میں ایک گودام میں بھیجی گئی۔
سپین (جو اُس وقت فوجی آمر فرانسسکو فرانکو کے سخت گیر دور حکومت میں تھا) اور امریکہ دونوں ہی اس تباہ کن حادثے کو دبانے اور کم اہمیت دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ فرانکو کو خاص طور پر اس بات کا خدشہ تھا کہ تابکاری کے خدشات سپین کی سیاحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جو ان کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ تھی۔
سپین کی عوام اور دنیا کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ حادثے سے تابکاری کا کوئی خطرہ نہیں امریکہ کے سپین میں سفیر اینجیئر بِڈل ڈیوک نے حادثے کے چند ہفتوں بعد بین الاقوامی میڈیا کے سامنے پالوماریس کے ساحل پر سمندر میں نہانے کا مظاہرہ کیا تھا۔
لیکن جب درجنوں امریکی اہلکاروں نے کئی دن تک پورے علاقے میں انتہائی باریک بینی سے تلاشی لی تب بھی انھیں چوتھا ہائیڈروجن بم نہیں ملا۔ پھر کیپٹن رامیرز نے ایک مقامی ماہی گیر سے بات کی جس نے سمندر میں گرنے والے پائلٹس میں سے کچھ کو بچایا تھا۔ وہ ماہی گیر بار بار معذرت کر رہا تھا کہ وہ ایک امریکی پائلٹ کو نہیں بچا سکا جسے وہ پانی میں گہرائی میں ڈوبتا دیکھ رہا تھا۔
کیپٹن رامیرز کو اندازہ ہوا کہ شاید وہ پائلٹ نہیں بلکہ لاپتہ نیوکلیئر بم تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ تمام لاشیں مل چکی تھیں‘ ماہی گیر کے انکشاف کے بعد تلاش کا مرکز فوری طور پر بحیرہ روم بن گیا۔
امریکی بحریہ نے 30 سے زائد جہازوں کا بیڑا جس میں بارودی سرنگوں کو صاف کرنے والے جہاز اور آبدوزیں شامل تھیں، سمندر کی تہہ کی چھان بین کے لیے روانہ کیا۔
سمندر کے نیچے میلوں تک پھیلے علاقے کی تلاش کرنا نہ صرف تکنیکی طور پر بہت مشکل تھا بلکہ اس کے لیے بہت وقت کی بھی ضرورت تھی لیکن کئی ہفتوں کی مسلسل کوششوں کے بعد ایک نیا تیار کردہ ڈیپ ڈائیونگ آلہ ’ایلوِن‘ آخرکار اس لاپتہ بم کو سمندر کے ایک گہرے گڑھے میں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا۔
اس حادثے اور جوہری بم کے لاپتہ ہونے کے تقریباً چار ماہ بعد اس بم کو تلاش کر کے محفوظ بنا لیا گیا اور دوبارہ امریکہ کے حوالے کر دیا گیا حالانکہ امریکی فوج عموماً اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کے معاملے میں سخت رازداری برتتی ہے لیکن اگلے دن انھوں نے غیر معمولی طور پر بین الاقوامی میڈیا کو وہ بم دکھایا۔
امریکی سفیر ڈیوک کا کہنا تھا کہ ’جب تک لوگ اپنی آنکھوں سے بم کو دیکھ نہ لیں وہ کبھی یقین نہیں کریں گے کہ یہ واقعی واپس مل چکا ہے۔‘
تقریباً چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سپین کے علاقے المیریا میں اس واقعے کے اثرات باقی ہیں۔
حادثے کے بعد امریکہ نے صفائی کی ایک بڑی مہم شروع کی لیکن کچھ علاقوں میں تابکاری سے ہونے والی آلودگی اُن کی نظر سے بچ کر باقی رہ گئی۔ بعدازاں امریکہ اور سپین نے مل کر پالوماریس کے رہائشیوں کے لیے ہر سال طبی معائنوں کا بندوبست کرنے پر اتفاق کیا۔ ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ زمین، پانی، ہوا اور مقامی فصلوں کی مسلسل نگرانی کی جائے گی۔
لیکن آج بھی پالوماریس میں تقریباً 100 ایکڑ زمین ایسی ہے جو تابکاری سے آلودہ ہے اور جسے لوہے کی باڑ لگا کر علاقے سے الگ کر دیا گیا ہے۔
یہاں تک کہ 2015 میں امریکہ اور سپین نے مل کر علاقے کو مکمل طور پر صاف کرنے کا معاہدہ بھی کیا لیکن تاحال دونوں ممالک نے اس وعدے پر عمل نہیں کیا۔