ممبئی حملے کے ملزم کی انڈیا کو حوالگی: پاکستانی نژاد ملزم طہور رانا کا ان حملوں میں کیا کردار تھا؟

طہور رانا 26 نومبر 2008 کو ممبئی پر ہونے والے حملے میں انڈین ایجنسیوں کو مطلوب ہیں۔ امریکہ سے طہور رانا کی حوالگی کو ممبئی حملے کے سلسلے میں انڈین ایجنسیوں کی ایک بہت بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔

کئی برس کی قانونی جدوجہد کے بعد ممبئی بم دھماکوں کے ایک مبینہ ملزم اور پاکستانی نژاد کینیڈین تاجر طہور رانا کو امریکہ سے خصوصی پرواز کے ذریعے آج انڈیا لایا گیا۔

طہور رانا 26 نومبر 2008 کو ممبئی پر ہونے والے حملے میں انڈین ایجنسیوں کو مطلوب ہیں۔ امریکہ سے طہور رانا کی حوالگی کو ممبئی حملے کے سلسلے میں انڈین ایجنسیوں کی بہت بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔

طہور رانا پاکستانی نژاد کینڈین شہری ہیں اور دہشتگردی کے ایک اور مقدمے میں امریکہ میں سزا کاٹ رہے تھے۔

طہور رانا کو جمعرات کو امریکہ سے انڈیا کے شہر دلی بذریعہ خصوصی پرواز لایا گیا اور انڈیا کی نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ان کی حوالگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے ’طہور حسین رانا کو اپنی تحویل میں لینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔‘

این آئی اے کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ طہور رانا کو انڈیا کے حوالے کرنے سے قبل وہ امریکہ میں جوڈیشل حراست میں تھے۔

یاد رہے کہ طہور رانا کو انڈیا کی نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) اور خفیہ ایجنسیوں کے سینئیر اہلکار امریکہ سے اپنی تحویل میں لینے کے لیے اتوار کو امریکہ پہنچے تھے۔

واضح رہے کہ رواں برس فروری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طہور رانا کو فوری طور پر انڈیا کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وائٹ ہاؤس میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا کہ طہور رانا ’دنیا کے بہت بُرے لوگوں میں سے ایک ہیں‘ اور اُن کا ’2008 کے دوران ممبئی میں ہوئے دہشتگرد حملے سے تعلق تھا۔‘

ٹرمپ نے کہا تھا کہ جیسے ہی امریکی عدالت طہور رانا کو انڈیا کے حوالے کرنے کی اجازت دے گی، انھیں بھیج دیا جائے گا۔

طہور رانا کی انڈیا آمد سے قبل دلی کے ہوائی اڈے پر کمانڈو تعینات کیے گئے تھے اور تہاڑ جیل سے ایک مخصوص قسم کی گاڑی انھیں لانے کے لیے بھیجی گئی تھی۔

اس سے قبل بدھ کی رات دیر گئے وزارت خارجہ نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا جس میں طہور رانا پر مقدمہ چلانے کے لیے ایڈوکیٹ نریندر مان کو تین برس کے لیے خصوصی سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔

طہور رانا کا ممبئی حملوں سے کیا تعلق ہے؟

نومبر 2008 میں انڈیا کے شہر ممبئی میں ہونے والے حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے اور انڈیا کی جانب سے عسکریت پسند تنظیم لشکر طیبہ کو اس کا موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا۔

سنہ 2011 میں شکاگو کی وفاقی عدالت کے ججوں نے طہور رانا کو ’لشکر طیبہ کی مدد کرنے کا مجرم‘ قرار دیا تھا لیکن انھیں ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی اور ان میں براہ راست ملوث ہونے جیسے الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔

ان جرائم پر انھیں سنہ 2013 میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ سنہ 2020 میں طہور رانا کو کووڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ہمدردی کی بنیاد پر امریکی جیل سے رہا کیا گیا تھا لیکن انڈیا کی جانب سے حوالگی کی درخواست کے بعد انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔

طہور رانا نے اپنے خلاف عائد تمام الزامات سے انکار کیا تھا۔

انڈین حکام نے طہور رانا پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے اپنے بچپن کے دوست ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے ساتھ مل کر سازش کی اور پاکستانی عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ کی مدد کی۔

اس کیس میں استغاثہ نے کہا کہ سنہ 2006 میں رانا نے ہیڈلی کو ممبئی میں شکاگو میں واقع اپنی امیگریشن سروس فرم کا دفتر کھولنے کی اجازت دی تھی، جسے ہیڈلی نے 2008 کے حملے کے لیے مقامات کی تلاش کے لیے کور کے طور پر استعمال کیا تھا۔

رانا پر یہ بھی الزام تھا کہ اس نے ہیڈلی کو اپنی فرم کے نمائندے کے طور پر پیش کرنے کی اجازت دی تاکہ اشتہارات کے لیے جگہ خریدنے میں دلچسپی ظاہر کر کے اخبارات کے دفاتر تک رسائی حاصل کی جا سکے۔

ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں امریکہ میں 35 سال قید کی سزا کاٹنے والے ہیڈلی نے سنہ2011 میں طہور رانا کے خلاف گواہی دی تھی۔

رانا کا دفاع کرنے والے وکلا کی ٹیم نے اُس وقت کہا تھا کہ ان کے پرانے دوست ہیڈلی نے انھیں استعمال کیا اور گمراہ کیا۔

ممبئی حملوں سے متعلق کیس پر سماعت کے دوران امریکی عدالت کو بتایا گیا تھا کہ جب ہیڈلی نے ممبئی پر حملے کی تیاری شروع کی تو انھیں 2006 سے 2008 تک کئی بار ریکی کے لیے ممبئی آنا پڑا۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بار بار ممبئی کیوں جا رہے ہیں، اس کے لیے انھوں نے ممبئی میں رانا کی ٹریول ایجنسی کی برانچ کھولی۔

رانا کے بارے میں امریکی عدالت کو پراسیکیوٹر کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ انھوں نے یہ کام ’لشکر طیبہ کے کہنے پر کیا۔‘

ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ممبئی حملے کے ایک اہم ملزم ہیں اور انڈین ایجنسیوں کو مطلوب ہیں۔ انڈیا نے ہیڈلی کی حوالگی کے لیے بھی شدید کوششیں کیں لیکن امریکہ نے انھیں وعدہ معاف سرکاری گواہ بنا کر قید کر دیا ہے۔

ممبئی حملے میں چھ امریکی شہری بھی مارے گئے تھے۔ رانا کو 12 الزامات کے تحت سزا سنائی گئی تھی، جن میں امریکی شہریوں کے قتل میں معاونت اور حوصلہ افزائی بھی شامل ہے۔

ممبئی میں یہ حملہ کئی اہم مقامات پر کیا گیا تھا اور حملہ آور ایک کشتی کے ذریعے ممبئی کے ساحل پر اترے تھے۔حملہ آوروں نے الگ الگ گروپوں میں تاج محل ہوٹل، ٹرائڈنٹ ہوٹل، ممبئی کے مرکزی ریلوے سٹیشن، ایک بڑے ریستورانٹ اور ایک اسرائیلی ثقافتی مرکز پر حملہ کیا تھا۔

تاج ہوٹل
Getty Images
ممبئی حملے میں نشانہ بننے والا تاج ہوٹل

پاکستان نژاد طہور رانا کون ہیں اور انھیں کیسے گرفتار کیا گیا؟

طہور رانا سنہ 1961 میں پاکستان میں پیدا ہوئے اور یہیں ان کی پرورش ہوئی۔ میڈیکل کی ڈگری کے بعد انھوں نے پاکستان فوج کی میڈیکل کور میں شمولیت اختیار کی تھی۔

وہ اور اُن کی اہلیہ، جو خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں، سنہ 2001 میں امیگریشن لینے کے بعد کینیڈا کے شہری بن گئے تھے۔

سنہ 2009 میں اپنی گرفتاری سے چند سال قبل رانا نے امریکی شہر شکاگو میں امیگریشن اور ٹریول ایجنسی کھولی اور اس کے ساتھ دیگر کاروبار بھی شروع کیے۔

امریکی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کے مطابق اکتوبر 2009 کے دوران رانا اور ان کے دوست ہیڈلی کو ایف بی آئی نے شکاگو کے ہوائی اڈے پر اچانک اس وقت پکڑ لیا جب وہ ڈنمارک میں ایک اخبار ’يولاندس بوستن‘ کے دفتر پر حملہ کرنے کے لیے پرواز میں سوار ہو رہے تھے۔

ڈنمارک کے کارٹونسٹ کرٹ ویسٹرگارڈ نے سنہ 2005 میں پیغمبرِ اسلام کے متناز‏ع خاکے شائع کیے تھے جس پر اسلامی دنیا میں شدید ناراضی ظاہر کی گئی تھی۔

تفتیش کے دوران ممبئی حملوں میں ان کے ملوث ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔

اکتوبر 2009 میں گرفتاری کے بعد ہیڈلی نے اعتراف کیا تھا کہ وہ پاکستان میں لشکر طیبہ کے تربیتی کیمپوں میں شرکت کر چکے تھے۔ امریکی محکمۂ انصاف کے مطابق ہیڈلی نے اس تحقیقات میں امریکی حکومت سے تعاون کیا اور وہ رانا کے ٹرائل میں حکومتی گواہ بھی بنے۔

سنہ 2009 میں طہور رانا کے بھائی اور صحافی عباس رانا نے اخبار دی ہِل ٹائمز کو بتایا تھا کہ ’میں اپنے بھائی کو جانتا ہوں۔ وہ بااصول، سچا اور محنتی شخص ہے۔‘

’طہور رانا صرف ایک مہرہ ہے‘

انڈیا کے وزیر خارجہ امت شاہ نے طہور رانا کی حوالگی کو بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ ’طہور رانا کی حوالگی وزیر اعظم مودی کی سفارتکاری کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ مودی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ جو لوگ انڈیا کی سرزمین، لوگوں اور اس کے وقار پر حملے کے مرتکب ہیں انھیں ان کے جرم کی سزا دلائی جائے۔‘

جبکہ انڈیا کے سابق سیکرٹری داخلہ جی کے پلئی کا کہنا ہے کہ ’طہور رانا صرف ایک مہرہ ہے۔‘

روزنامہ ’ہندو‘ میں شائع ایک انٹرویو میں پلئی نے کہا کہ ’رانا کا بہت چھوٹا سا کردار تھا۔ اس نے ممبئی میں امیگریشن آفس کھول کر ہیڈلی کو انڈیا آنے اور ملازمت دینے میں مدد کی تھی۔ہیڈلی نے انڈیا کے کئی دوروں میں دہشت گردوں کی کشتی اترنے کی جگہ اور اہداف کی نشاندہی کی تھی۔‘

پلئی کا کہنا ہے کہ جب این آئی اے اپنی چارج شیٹ داخل کرے گی تو اس سے معلوم ہوگا کہ کیا انھیں کچھ نئے شواہد ملے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ڈیوڈ کولمین ہیڈلی امریکی حکومت اور پاکستان کی خفیہ سروس آئی ایس آئی کے لیے ڈبل ایجنٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔ امریکہ نے دھوکہ دہی کی ہے۔ دہشت گردی کی سازش کے بارے میں جانکاری ہونے کے باوجود انھوں نے ہیڈلی کو انڈیا مخالف سرگرمیاں جاری رکھنے دیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے اور اسے کسی سے کوئی مطلب نہیں ہے۔‘

اب جب کہ طہور رانا این آئی اے کی تحویل میں ہیں، این آئی اے کے تفتیش کاروں کو یہ امید ہے کہ وہ لشکر طیبہ اور حرکت الجہادی اسلامی جیسی تنظیموں کے نیٹ ورک اور حافظ محمد سعید، ذکی الرحمن لکھوی، ساجد میر، اور حرکت الجہادی اسلامی کے الیاس کشمیری جیسے لوگوں کے کردار کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکے گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.