پچھلے چند دنوں میں ہی اسلام اباد سے وحید مراد کو اٹھایا گیا۔ کراچی سے فرحان ملک کو، احمد نورانی ملک سے کہیں باہر بیٹھے ہیں ان کے بولنے کی سزا کے طور پر ان کے دو بھائی غائب ہیں۔ گلوکار اور تازہ تازہ باغی بنے سلمان احمد پر بھی پیکا لگا ہے۔

ایک کہانی لکھی تھی منٹو نے جس کا نام تھا ’نیا قانون۔‘ کہانی کا انجام تھا کہ قانون تو سرکار نے نیا بنا دیا لیکن کرتوت نہیں بدلے۔
اب صحافی برادری پیکا کے خلاف شور مچا رہی ہے۔ قانون سخت ہے، سزا پہلے ملتی ہے، پورے خاندان کو ملتی ہے پھر بعد میں جرم کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔
ملزم کو رات کے اندھیرے میں اٹھایا جاتا ہے، دروازے توڑے جاتے ہیں۔ گھر والوں کو کچھ دیر تک سمجھ نہیں آتا کہ گھر میں ڈکیتی ہو رہی ہے یا قانون کے محافظ گھسے ہیں۔
اس کے بعد بندہ غائب، تھانے کچہریوں کے چکر، کسی درمند اور مفت وکیل کی تلاش، پھر بندہ برآمد ہوتا ہے ہتھکڑیوں میں ریمانڈ بھی فوراً مل جاتا ہے۔ جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی ملزم کو یہ فیصلہ سنا دیا جاتا ہے کہ تمھاری زندگی، تمھارا دھندہ ہی اصل میں ایک جرم ہے۔
ریاست کی خواہش بہت قدیمی ہے کہ ہمارے کسی عمل پر سوال نہ اٹھایا جائے۔ بادشاہ کی بے لباسی کی طرف اشارہ نہ کیا جائے، گزرتی ہوئی شاہی سواری کو یہ یاد نہ دلایا جائے کہ اس سے پہلے آنے والوں سواروں کو کیا انجام ہوا تھا۔پچھلے چند دنوں میں ہی اسلام اباد سے وحید مراد کو اٹھایا گیا۔ کراچی سے فرحان ملک کو، احمد نورانی ملک سے کہیں باہر بیٹھے ہیں ان کے بولنے کی سزا کے طور پر ان کے دو بھائی غائب ہیں۔
گلوکار اور تازہ تازہ باغی بنے سلمان احمد پر بھی پیکا لگا ہے۔
ریاست کی خواہش بہت قدیمی ہے کہ ہمارے کسی عمل پر سوال نہ اٹھایا جائےسنسرشپ نیوز رومز کی اور سوشل میڈیا کی مقصود نہیں ہے بلکہ ارادہ یہ ہے کہ لوگوں کے دماغوں میں گھسا جائے اس سے پہلے کہ وہ کوئی ایسے بات سوچیں جس پر پیکا لگ سکتا ہو وہ اپنی بوڑھی ماؤں کا سوچیں جنھیں تھانے کچہریوں میں کیمروں کے سامنے بیٹھ کر اپنے بچوں کی جان کی بھیک مانگنی پڑے گی۔
پیکا کی دہشت والے اس موسم میں اردو زبان کے خوبصورت شاعر منیر نیازی کی برسی تھی، کسی نے ان کا یہ شعر یاد کرایا:
اک تیز رعد جیسی سزا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے
جہاں تک اردو ادب کی سمجھ ہے منیر نیازی کو تنہائی، محبت اورہمارے گھروں میں بستے آسیبوں کا شاعر مانا جاتا ہے۔ کبھی جیل گئے، نہ کبھی کسی جلسے یا مشاعرے میں مکا لہرا کر کوئی باغی نظم پڑھی لیکن جیسے جیسے ان کے مقبول عام شعر یاد آتے گئے یوں لگا کہ پیکا کی ہر شق ان پر فٹ آتی ہے۔
ہم میں سے بہت سے قلم کے مزدور سمجھتے ہیں کہ ہمیں بات کرنے کا ہنر آتا ہے اس لیے ہم پیکا سے محفوظ رہیں گے۔
منیر نیازی بھی اپنی زندگی میں محفوظ رہے لیکن اگر ریاست بعد از مرگ فنکاروں کو تمغے دے سکتی ہے تو اسے ان پر پیکا بھی لگانا چاہیے۔
کیا مطلب تھا منیر نیازی کا جب انھوں نے فرمایا:
ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا
کیا اس مصرعے میں ان کا اشارہ ہماری ہائی جیک ہونے والی ٹرین کی طرف نہیں ہے۔
کیا وہ اس شعر میں ایف آئی اے کے ان اہلکاروں کا مذاق نہیں اڑا رہے جو پیکا کے ملزمان سے تفتیش کرتے ہیں۔
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
اور کیا اس شعر میں نو مئی والے شرپسندوں کی سہولت کاری نہیں ہو رہی:
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی راکھ کو بھی اڑا دینا چاہیے
اور وہ جو ان کی ’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘ والی نظم میں ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے بزرگ سیاستدان نواز شریف کا مذاق نہیں اڑایا گیا؟
اور اردو ادب کے وہ قاری جو پنجابی سے نابلد ہیں انھیں بھی منیر نیازی کی پنجابی نظم کے یہ شعر یاد ہیں۔ دوبارہ پڑھیں اور سوچیں کیا اس میں قیدی نمبر 804 کا نوحہ نہیں لکھا گیا:
کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی