طبی ماہرین کے مطابق خواتین کے امپلانٹس ہٹوانے کی بنیادی وجہ خوبصورتی سے متعلق خیالات یا رجحان ہے۔ ان کے مطابق اب ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے جس میں چھوٹی اور قدرتی نظر آنے والی چھاتیاں زیادہ پسند کی جا رہی ہیں۔
کیٹریانا برسیٹ امپلانٹس ہٹوانے سے قبل اور ہٹوانے کے بعد 32 سالہ یوکرینی بلاگر اور ماہرِ غذائیت کیٹریانا کروپکینا نے جب سوشل میڈیا پراپنے بریسٹ امپلانٹس (چھاتی میں مصنوعی سیلیکون یا امپلانٹ) ہٹوانے سے متعلق پوسٹ شیئر کی تو انھیں اس بات کا کبھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کا یہ انکشاف کتنے زیادہ لوگوں پر اثر انداز ہو گا۔
کیٹریانا کی انسٹاگرام ویڈیو کواب تک 75 لاکھ بار دیکھا جا چکا ہے جبکہ ان کے مطابق انھیں ایک ہزار سے زائدایسی خواتین کے پیغامات موصول ہوچکے ہیں جو اپنے امپلانٹس ہٹوانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہیں۔
کیٹریانا نے بی بی سی سے بات چیت کے دوران کہا کہ ’مجھے بس یہ احساس ہوا کہ بڑی چھاتیاں مجھے نہ زیادہ خوش، نہ زیادہ صحت مند اور نہ ہی زیادہ خوبصورت بناتی ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ انھوں نے اس وقت کیا جب ان کی کم عمر بیٹی نے کہا کہ’میں بھی ماما کی طرحاپنے سینے کو بڑا کروانا چاہتی ہوں۔‘
کیٹریانا نے کہا ’اس ایک لمحے نے مجھے احساس دلایا کہ میں اپنی بیٹی کے لیے ایک غلط مثال قائم کر رہی ہوں۔‘
تاہم کیٹریانا ایسا فیصلہ کرنے میں تنہا نہیں بلکہ دنیا بھر میں بہت سی خواتین اب اپنے بریسٹ امپلانٹس ہٹوانے کا فیصلہ کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔
لیکن آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
وجہ کیا ہے؟
طبی ماہرینکے مطابق خواتین کے امپلانٹس ہٹوانے کی بنیادی وجہ خوبصورتی سے متعلق خیالات یا رجحان ہےپلاسٹک سرجنز کی دنیا کی بڑی تنظیم انٹرنیشنل سوسائٹی آف ایسیتھٹک پلاسٹک سرجری (آئی ایس اے پی ایس)کے تازہاعداد و شمار کے مطابق بریسٹ امپلانٹس ہٹوانے (جنھیں بریسٹ ایکسپلانٹس بھی کہا جاتا ہے) کی شرح میں 2019 سے اب تک 46.3 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
دوسری جانب 1990 سے 2000 کی دہائی میں خوب پسند کی جانے والیسرجریبریسٹ آگمینٹیشن (سینے کو بڑا کروانے کی سرجری) میں اسی دورانیے میں صرف 5.4 فیصد اضافہ ہوا، اور صرف 2022 سے 2023 کے درمیان اس میں 13 فیصد کمی بھی واقع ہوئی۔
طبی ماہرینکے مطابق خواتین کے امپلانٹس ہٹوانے کی بنیادی وجہ خوبصورتی سے متعلق خیالات یا رجحان ہے۔ ان کے مطابق ابایک نیا رجحان سامنے آیا ہے جس میں چھوٹے سائز اور قدرتی نظر آنے والی چھاتیاں زیادہ پسند کی جا رہی ہیں۔
امریکن سوسائٹی آف پلاسٹک سرجنز (اے ایس پی ایس) میں سوشل میڈیا سب کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر کرسٹی ہملٹن کہتی ہیں کہ خواتین 2025 میں ویسا نظر نہیں آنا چاہتیں جیسا وہ اب سےپانچ یا 10 سال پہلےنظر آنا چاہتی تھیں۔
وہ مزید کہتی ہیں: ’90 کی دہائی اور 2000 کی دہائی میں جو امپلانٹس لگائے جاتے تھے، وہ عام طور پر بہت بڑے سائز کے ہوتے تھے۔ اب بہت سی خواتین یا تو چھوٹے امپلانٹس کی طرف جا رہی ہیں یا اگر ان کے پاس قدرتی ٹشو کافی مقدارمیں ہے، تو مکمل طور پر امپلانٹس ہٹوا کر بریسٹ لفٹ کروا رہی ہیں جبکہ بعض خواتینفیٹس کی منتقلی بھی کراتی ہیں تاکہ حجم کا کچھ حصہ واپس آ جائے۔‘
ان کے مطابق اب مجموعی طور پر ’چھوٹے سائز کی چھاتیاں فیشن میں ہیں۔‘
برازیلین پلاسٹک سرجن ایسوسی ایشن (ایس بی سی پی) کے صدر ڈاکٹر برونو ہرکنھوف بھی اس خیالسے اتفاق کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ خواتین خود کو زیادہ بڑھے ہوئے سینوں کے ساتھ پہچان نہیں پاتیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ اب اپنے کلینک میں بریسٹ امپلانٹس ہٹانے کی سرجریاں نئے امپلانٹس لگانے سے زیادہ کر رہے ہیں۔
وہاس کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ ’کچھ خواتین مستقبل میں دوبارہ امپلانٹس تبدیل کرانے کی جھنجھٹ سے بچنا چاہتی ہیں کیونکہ امپلانٹس عام طور پر 10 سے 20 سال تک چلتے ہیں اور اس کے بعد انھیں سرجری کے ذریعے ہٹانا یا تبدیل کرنا ضروری ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر ہرکنہوف کے مطابق اب بریسٹ امپلانٹس سے متعلق پیچیدگیوں مثلاً امیون سسٹم کے ردعمل اور بریسٹ امپلانٹ بیماری کے بارے میں آگاہی بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے کچھ خواتین امپلانٹس ہٹوانے یا لگوانے سے گریز کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے: ’اب سلیکون سے متعلق بیماریوں اور مدافعتی ردعمل کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب ہیں۔ انسانی جسم میں سلیکون ری ایکشندے سکتا ہے، جس سے جوڑوں میں درد، بالوں کا گرنا اور وزن میں اضافے جیسی علامات ظاہر ہو سکتے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ امپلانٹس کا تعلق بعض اقسام کے کینسر سے بھی ہو سکتا ہے۔
’یہ کینسر امپلانٹ کے اردگرد بننے والے کیپسول میں پیدا ہو سکتا ہے۔ تاہم جب اس کیپسول کو ہٹا دیا جائے تو مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر ہملٹن کا کہنا ہے کہ ’یہ انتہائی نایاب صورت حال ہے لیکن بہرحال ایک حقیقت ہے، خاص طور پر کچھ خاص اقسام کے امپلانٹس میں اس صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔‘
کیٹریاناکا امپلانٹس بھی انھی میں سے ایک تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ میڈیکل ٹیسٹ میں کوئی کینسر ظاہر نہیں ہوا، پھر بھی انھوں نے 10 گنا زیادہ یقین کے ساتھ امپلانٹس ہٹانے کا فیصلہ کیا۔
لیکن ڈاکٹر ہملٹن کا کہنا ہے کہ ’یہ خواتین کے ایکسپلانٹس کرانے کی اصل وجہ نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ زیادہ تر ایک جمالیاتی حس میں تبدیلی کا رجحان ہے۔‘
وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ امپلانٹس لگانے کی پرانی تکنیکس بھی خواتین کے انھیں ہٹوانے کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
ان کے مطابق پرانے طریقہ کار میں امپلانٹس کو عضلات کے نیچے رکھا جاتا تھا جس کی وجہ سے حرکت کرتے وقت سینے کی شکل غیر فطری نظر آتی تھی۔
’جب آپ پرانےطریقے سے لگائے گئے امپلانٹس والی خواتین کو دیکھتے ہیں تو اکثر یہ مسئلہ ہوتا تھا مثلاً جب وہ ورزش کرتی تھیں، کسی کو گلے لگاتی تھیں یا یوگا کرتی تھیں، تو امپلانٹس ایک طرف کو سرک جاتے تھے۔‘
جبکہ نئے طریقہ کار میں امپلانٹس کو آگے لگایا جاتا ہے، جس سے زیادہ قدرتی نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
’اب قدرتی نین نقش پسند کیے جا رہے ہیں‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی نین نقوش کو اپنانے کا رجحان بریسٹ امپلانٹ سے بھی زیادہ آگے بڑھ گیا ہےدونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی نین نقوش کو اپنانے کا رجحان بریسٹ امپلانٹ سے بھی زیادہ آگے بڑھ گیا ہے۔
ڈاکٹر ہملٹن کہتے ہیں کہ ’یہ رجحان اب چہرے، ناک، بریسٹ اور پوری باڈی کے لیے دیکھنے میں آ رہا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں فلرز اور بٹوکس سمیت کچھ کاسمیٹک سرجریوں کے زیادہ استعمال کے سبب غیرقدرتی نتائج سامنے آئے تھے جس کی وجہ سے لوگوں نے اپنی سوچ پر نظرِ ثانی کی۔
ڈاکٹر ہملٹن کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم سب ہی ایسی مثالیں دیکھ چکے ہیں جہاں ہمیں فلرز بہت غیرقدرتی نظر آئے۔‘
دوسری جانب ڈاکٹر ہرکنھوف کا کہنا ہے کہ ’اب لوگ قدرتی نین نقش پسند کرتے ہیں جسے بڑھا چڑھا کر پیش نہ کیا جائے۔‘
ڈاکٹر ہملٹن کے مطابق لوگ اب فلرز کے استعمال سے اجتناب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
’بہت سے لوگ اس ٹریٹمنٹ میں اب بالکل بھی دلچسپی لیتے ہوئے نظر نہیں آتے کیونکہ انھوں نے بہت سی ایسی مثالیں دیکھ لی ہیں جہاں فلرز کا غلط استعمال ہوا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ان کی انڈسٹری میں ماضی میں فلر کے انجیکشنز کا بدریغ استعمال کیا گیا جس کے بعد اچھے نتائج سامنے نہیں آئے۔
’جب ہمیں بتایا گیا کہ آپ کو ہر تین سے چھ ماہ میں فلر کی ضرورت ہے تو میرے خیال میں یہ ایستھیٹک انڈسٹری کی جانب سے کی گئی ایک غلطی تھی۔ میرے خیال میں اس سے نقصان ہوا اور لوگ عجیب سے نظر آنے لگے۔‘
ڈاکٹر ہملٹن کہتی ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اب مزید نفیس ٹریٹمنٹس پر توجہ دے درہے ہیں۔
ڈاکٹر ہرکنھوف کے مطابق اب جو ٹریٹمنٹ مقبولیت حاصل کر رہی ہیں اس میں سرفہرست کولاجن سٹیمولیشن ہے جو کہ آپ کی جِلد کو بہتر بناتا ے۔
کولاجن جسم میں بطور پروٹین موجود ہوتا ہے جو کہ ہڈیوں، جِلد اور پٹھوں میں پایا جاتا ہے۔ تاہم عمر کے بڑھنے کے ساتھ جسم میں اس کی سطح کم ہو جاتی ہے۔
قدرتی نین نقوش اپنانے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں نے کاسمیٹک سرجریاں کروانی بند کر دی ہیں
انٹرنیشنل سوسائٹی آف ایستھیٹک پلاسٹک سرجری کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2023 میں دنیا بھر میں سرجنز نے ایک کروڑ 58 لاکھ سرجریاں کی تھیںکیٹریانا بھی ان افراد میں شامل ہیں جو اس نئے ٹرینڈ کو اپنا رہی ہیں۔ اپنے بریسٹ امپلانٹس ہٹانے کے بعد وہ اپنے ہونٹوں کو بھی قدرتی شکل میں لے آئی ہیں اور انھوں نے اپنی چھائیوں کو چھپانے کے لیے بٹوکس کا استعمال بھی ترک کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں خواب دیکھتی ہوں کہ میں جو کر رہی ہوں وہ ایک ٹرینڈ بن جائے اور دیگر خواتین بھی اپنی ظاہری حالت کو لے کر پریشان ہونا چھوڑ دیں۔‘
بین الاقوامی کاسمیٹک کمپنی سے منسلک ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ ان کی انڈسٹری بھی اب ’قدرتی خوبصورتی کے ٹرینڈ‘ پر انحصار کر رہی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ بیوٹی پروڈکٹس پر پیسے خرچ کرنا بند کر دیں گے یا کاسمیٹک سرجریاں کروانا بند کر دیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے طریقے استعمال کریں گے جس سے ان کی ظاہری حالت بہتر لگے اور ان کے قدرتی نین و نقوش خوبصورت نظر آئیں۔‘
مکنزی کنسلٹنسی کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2023 میں سنہ 2022 کے مقابلے میں بین الاقوامی مارکیٹ میں بیوٹی پروڈکٹس کی فروخت 10 فیصد بڑھ کر 446 ارب ڈالر پر پہنچ گئی تھی۔
بین الاقوامی کاسمیٹک کمپنی سے منسلک ذریعے نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ: ’خواتین اب بھی میک اپ کا استعمال کر رہی ہیں۔ ’قدرتی‘ نین نقش کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے پروڈکٹس کا استعمال کر رہی ہیں جن سے ان کی جِلد بناوٹی نہ لگے۔‘
طبی ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قدرتی نین نقوش اپنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے کاسمیٹک سرجریاں کروانی بند کر دی ہیں۔
ڈاکٹر ہملٹن کے مطابق لوگ اب صرف اپنے چہرے کا وزن بڑھانے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ ایسی سرجریوں کا استعمال کر رہے ہیں جس سے ان کے جسم کی ساخت بہتر ہو جائے۔
انٹرنیشنل سوسائٹی آف ایستھیٹک پلاسٹک سرجری کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2023 میں دنیا بھر میں سرجنز نے ایک کروڑ 58 لاکھ سرجریاں کی تھیں جو کہ 2022 کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ تھیں۔