وقف کے متازع قانون پر پُرتشدد واقعات، مسلم لیگ اور جناح کا تذکرہ: ’ایک چائے والا کسی کو پنکچر والا کہہ کر مذاق اڑا رہا ہے‘

انڈیا میں وقف ترمیمی بل کے قانون بن جانے کے بعد اس معاملے پر ہونے والی سیاست اور تشدد زوروں پر ہے۔ اسی حوالے سے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے گذشتہ روز دیے گئے ایک بیان کو حزب اختلاف کی جانب سے ’مسلم مخالف‘ اور ’مسلمانوں کی تضحیک پر مبنی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر
AFP
’وقف املاک کا ایمانداری سے استعمال کیا جاتا تو مسلم نوجوانوں کو سائیکلوں کے پنکچر لگانے میں اپنی زندگیاں گزارنے کی ضرورت نہ پڑتی‘

انڈیا میں وقف ترمیمی بل کے قانون بن جانے کے بعد اس معاملے پر ہونے والی سیاست اور تشدد زوروں پر ہے۔ اسی حوالے سے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے گذشتہ روز دیے گئے ایک بیان کو حزب اختلاف کی جانب سے ’مسلم مخالف‘ اور ’مسلمانوں کی تضحیک پر مبنی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ اس قانون کے خلاف مغربی بنگال میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں تین افراد کی ہلاکت بھی ہوئی جبکہ اسی ریاست میں اپوزیشن میں موجود بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کو ’جناح کی مسلم ليگ‘ جبکہ ریاست کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو بانی پاکستان محمد علی جناح سے تشبیہ دی جا رہیہے۔

لیکن پہلے بات وزیر اعظم مودی کے بیان کی کرتے ہیں جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے دارالحکومت دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ اپنے خطاب کے دوران کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر انڈیا میں ماضی میں وقف املاک کا ایمانداری سے استعمال کیا جاتا تو مسلم نوجوانوں کو سائیکلوں کے پنکچر لگانے میں اپنی زندگیاں گزارنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ وقف املاک کا فائدہ صرف لینڈ مافیا کو ہوا ہے۔

یاد رہے کہ انڈین پارلیمان نے گذشتہ دنوں وقف ترمیمی بل منظور کیا تھا۔ اس بِل میں موجود متنازع شقوں کے باعث انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے اسے ’مسلمانوں پر حملہ‘ قرار دیا تھا جبکہ متعدد مسلم تنظیموں نے اس بل کے خلاف ملک گیر احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔

کانگریس نے وزیر اعظم کے حالیہ بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے وزیراعظم کی جانب سے ایک خاص کمیونٹی (مسلمان) کو ’پنکچر لگانے والا‘ کہہ رہے ہیں۔

دوسری جانب مسلم رکن پارلیمان اور مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے اس بیان پر اپنی خفگی کا اظہار کیا ہے تاہم انھوں نے اس معاملے پر کانگریس کے رویے اور ان کی سیاست کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے۔

انھوں نے کہا: ’کانگریس پارٹی کی خوشامد کی سیاست نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ کانگریس نے صرف بنیاد پرستوں کو خوش کیا ہے۔ کانگریس کی اس بری پالیسی کا سب سے بڑا ثبوت وقف ایکٹ ہے۔‘

’مسلمانوں کی تضحیک‘

مبینہ فرقہ وارانہ فسادات میں مرنے والوں کے لیے بی جے پی کا مظاہرہ
Getty Images
مبینہ فرقہ وارانہ فسادات میں ہندو باپ، بیٹا کی ہلاکت کے خلاف بی جے پی نے مظاہرہ کیا ہے

مودی کا مزید کہنا تھا کہ ملک بھر میں وقف کے نام پر لاکھوں ایکٹر اراضی ہے اور اس جائیداد سے بے سہارا بچوں اور خواتین کو فائدہ ہونا چاہیے تھا۔ ’اگر اسے ایمانداری سے استعمال کیا جاتا تو میرے مسلم نوجوانوں کو پنکچر والی سائیکلوں کو ٹھیک کرنے میں اپنی زندگی گزارنے کی ضرورت نہ پڑتی۔‘

کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینتے نے پی ایم کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’آج بابا صاحب (امبیڈکر) کی یوم پیدائش کے موقع پر بھی آپ سے عزت و وقار کی امید رکھنا بے معنی ہے۔ آج بھی آپ کانگریس کو کوس رہے ہیں اور ایک خاص کمیونٹی کو پنکچر لگانے والا کہہ رہے ہیں۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’پوری دنیا جانتی ہے کہ آر ایس ایس میں دلتوں کا کیا حال ہے، بڑے بڑے فلسفے دینے کے بجائے یہ بتائيں کہ آج تک آر ایس ایس کا ایک بھی سربراہ ٹھاکر اور برہمن کے علاوہ کسی اور ذات سے کیوں نہیں ہوا؟‘

سوشل میڈیا پر اس پر گرما گرما بحث جاری ہے۔ انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک معروف کارٹونسٹ منجل ٹونز نے لکھا کہ ’یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک ’چائے والا‘ کسی کو ’پنکچر والا‘ کہہ کر مذاق اڑا رہا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ایک پکوڑے بیچنے والے ہندو کو ملازمت والا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کام کرنے والے مسلمانوں کو ایک بوجھ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘

یاد رہے کہ ایسا نہیں کہ وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کے لیے پہلی بار اس طرح کے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ اس سے قبل مسلمانوں کے لیے ’کپڑوں سے پہچانے جانے والے‘ کہنے پر بھی سخت اعتراض ہوا تھا۔

انڈیا میں حال ہی میں متعارف کروائے جانے والے وقف (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں اور سنیچر کو مغربی بنگالکے شہر ’مرشد آباد‘ میں ہونے والے ایسے ہی ایک پرتشدد مظاہرے میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

بنگال کی ریاستی حکومت کے مطابق سنیچر کو ہوئے پرتشدد مظاہرے میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت اعجاز احمد، ہرگوبند داس اور چندن داس کے طور پر ہوئی ہے۔

ہرگوبند داس اور چندن داس باپ بیٹا تھے اور بکریوں کی فروخت کا چـھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے۔ اس پرتشدد مظاہرے میں کئی لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ انڈین خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے ایک سینیئر پولیس افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ پرتشدد واقعات کے بعد اب تک 150 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

اس کے ساتھ ہی مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے لوگوں سے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے اپنے ایکس ہینڈل پر لکھا: ’سیاسی فائدے کے لیے فسادات کو نہ بھڑکائيں۔‘

اسی معاملے پر بنگال میں سیاست کافی گرم ہو گئی ہے جبکہ انڈیا کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے مرنے والے باپ، بیٹے کے حق میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ہے۔

اس پر تشدد مظاہرے کے بعد ریاست میں حکمراں جماعت ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) نے بی جے پی سمیت کچھ سیاسی جماعتوں پر ’سیاسی فائدے کے لیے مذہب کا غلط استعمال‘ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

مسلم لیگ اور جناح سے تشبیہ

مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کی جانب سے نظم و ضبط برقرار رکھنے کی اپیل کی گئی ہے
Getty Images
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ نے عوام سے نظم و ضبط برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے

بی جے پی کے ایک رہنما ترون چگُھ نے خبررساں ادارے ’اے این آئی‘ سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلی ممتا بنرجی کو مسلم لیگ کے رہنما اور پاکستان کے بانی محمد علی جناح سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ’جناح جو کچھ ماضی میں کر رہے تھے، وہ آج ممتا بنرجی کر رہی ہیں۔ آج ان کی شبیہ ایک جدید جناح کے طور پر قائم ہوئی ہے، اور ان کی پارٹی مسلم لیگ جیسا کام کر رہی ہے۔ آج کے واقعات 1940 کی دہائی میں مسلم لیگ کی کارروائیوں کی طرح ہیں۔ اس وقت بھی اقتدار میں موجود لوگوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔‘

بی جے پی لیڈر نے پرتشدد مظاہروں میں تین لوگوں کی موت پر وزیر اعلیٰ کی خاموشی کی بھی مذمت کی اور یہ دعویٰ کیا کہ ترنمول کانگریس کی حکومت ہندوؤں کی حفاظت سے مسلسل سمجھوتہ کر رہی ہے۔

انڈیا کے دونوں ایوانوں سے وقت ترمیمی بل پاس ہونے اور صدر جمہوریہ کی دستخط کے ساتھ ہی قانون بن جانے بعد وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا تھا کہ وقف ایکٹ کو ریاست میں لاگو نہیں کیا جائے گا۔

دوسری جانب اس ایکٹ کو عدالتوں میں بھی چیلنج کیا جا رہا ہے۔ جنوبی ہند کے سپر سٹار اداکار وجے نے اس ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

بنگالی ٹیچر کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا جلوس پر امن تھا
Getty Images
بنگالی ٹیچر کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا جلوس پر امن تھا

سنہ2011 کی مردم شماری کے مطابق مرشد آباد میں مسلمانوں کی آبادی 66 فیصد سے زیادہ ہے اور تقریباً تمام حالیہ انتخابات میں ترنمول کانگریس نے یہاں کی تقریباً ہر سیٹ جیتی ہے۔

مرشد آباد کے تینوں ارکان پارلیمان کا تعلق ریاست کی حکمراں جماعت سے ہے جبکہ ریاستی اسمبلی میں مرشد آباد کے 22 ارکان میں سے 20 کا تعلق ترنمول کانگریس سے ہے۔

سینٹر فار اسٹڈیز ان سوشل سائنسز کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر معید الاسلام نے کہا: ’اگر ریاستی انتظامیہ ایسے واقعات میں ملوث مجرموں کے خلاف ان کے سیاسی اور برادری کے پس منظر سے قطع نظر سخت کارروائی نہیں کرتی ہے، تو اس طرح کے چھوٹے پیمانے پر مزید فرقہ وارانہ تصادم ہونے کا خدشہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’زیادہ مسلم آبادی والے علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد نے ہمیشہ بی جے پی کو انتخابی فائدہ پہنچایا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ریاست میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، پولیس انتظامیہ اس طرح کے تشدد پر آسانی سے کارروائی کرتی نظر نہیں آتی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.