چین کی فیکٹریوں میں سستی ترین مصنوعات کے بڑے ڈھیر، مگر چینی کمپنیاں پریشان: ’امریکی بڑے چالاک ہیں‘

چینی مصنوعات فیکٹریوں اور گوداموں میں پڑی ہیں اور یہ تب تک وہیں رہیں گی جب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک آنے والی تمام چینی مصنوعات پر 145 فیصد ٹیرف ختم نہیں کر دیتے۔

’ٹرمپ ایک احمق شخص ہیں۔۔۔‘

یہ کہنا ہے لیونل یو نامی شخص کا جو ایک ایسی کمپنی کے مالک ہیں جس میں بنائی جانے والی مچھر دانیاں امریکہ کے معروف ’وال مارٹ‘ سٹورز پر سب سے زیادہ بِکنے والی اشیا میں سے ایک تھیں۔

مگر اب ان مچھر دانیوں کی ایک بڑی کھیپ چین میں واقع اس کمپنی کے گوداموں میں پڑی ہے اور یہ تب تک وہیں رہے گی جب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک آنے والی تمام چینی مصنوعات پر عائد کردہ 145 فیصد ٹیرف یا اضافی ٹیکس ختم نہیں کر دیتے۔

لیونل کہتے ہیں کہ ’ہمارے لیے یہ سب بہت مشکل ہے۔‘

اُن کی کمپنی ’سوربو ٹیکنالوجی‘ کی بنائی گئی نصف مصنوعات امریکہ میں فروخت ہوتی تھیں۔

یہ چین کے اعتبار سے ایک چھوٹی کمپنی ہے جس میں 400 ملازمین کام کرتے ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان جاری اقتصادی جنگ سے بُری طرح متاثر ہونے والی یہ کوئی واحد چینی کمپنی نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم پریشان ہیں۔ اگر ٹرمپ نے اپنا فیصلہ نہ بدلا تو؟ ہماری فیکٹری کے لیے یہ بہت خطرناک ہو گا۔‘

قریب ہی موجود ایمی گوانگ ڈونگ سیلنگ ٹریڈ کمپنی کے بوتھ پر آئی کریم مشینیں بیچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کے بڑے خریدار، جیسا کہ وال مارٹ، بھی امریکہ میں موجود ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہماری کمپنی نے اپنی پیداوار ابھی سے روک دی ہے۔ تمام مصنوعات گودام میں پڑی ہیں۔‘

چین کے ژجیانگ صوبے کے تجارتی مرکز میں ہر جگہ اس سے ملتی جلتی کہانی دہرائی جا رہی تھی۔

جب بی بی سی نے لیونل یو سے گفتگو کی تو وہ کچھ آسٹریلوی خریداروں کو دوپہر کے کھانے پر لے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ یہ خریدار یہاں رعایتی داموں پر اشیا خریدنے کی نیت سے پہنچے ہیں اور انھیں امید ہے کہ اس عالمی تجارتی جنگ کے دوران انھیں فائدہ ہو سکتا ہے۔

ٹیرف کے بارے میں لیونل یو کہتے ہیں کہ ’ہم دیکھیں گے۔‘ انھیں امید ہے کہ ٹرمپ اس معاملے میں کچھ رعایت برتیں گے۔ ’شاید ایک یا دو ماہ میں بہتری آئے گی۔ شاید۔۔۔‘

گذشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے عالمی منڈیوں میں شدید مندی اور امریکی بانڈ مارکیٹ میں فروخت کے رحجان کے بعد اکثریتی ٹیرف عارضی طور پر ملتوی کر دیے تھے۔

مگر انھوں نے امریکہ آنے والی چینی مصنوعات پر درآمدی ٹیکس برقرار رکھا ہے۔ بیجنگ نے اس کے جواب میں امریکی مصنوعات پر 125 فیصد ٹیکس عائد کیا ہے۔

جس تقریب، کینٹن فیئر، میں ہماری ملاقات لیونل اور دیگر افراد سے ہوئی وہ سامان تجارت کی سالانہ نمائش ہے جس میں فٹبال کے 200 میدانوں جتنے بڑے ہالز میں 30 ہزار سے زیادہ کاروبار اور کمپنیاں شرکت کر رہی ہیں۔ مگر یہ کمپنیاں امریکی سختیوں سے پریشان ہیں۔

نمائش کے گھریلو اشیا والے حصے میں کمپنیوں نے واشنگ مشین سے لے کر الیکٹرک ٹوتھ برش، جوسر اور وافل میکرز جیسی مصنوعات رکھی ہوئی تھیں۔ اس نمائش میں دنیا بھر سے خریدار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور کوئی بڑی ڈیل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔

مگر چین سے ایک فوڈ مکسر یا ویکیوم کلینر کی قیمت اضافی ٹیرف کے بعد امریکی کمپنیوں کے لیے بھی بہت زیادہ ہو جائے گی، جسے وہ صارفین پر منتقل کرنے سے کترائیں گے۔

دنیا کی دو سب سے بڑی معاشی طاقتیں ڈیڈلاک کا شکار ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ امریکی گھروں کے لیے بنائی گئی چینی مصنوعات فیکٹریوں میں پڑی رہ گئی ہیں۔

امریکہ کے کئی کچن اور لیونگ رومز میں اس تجارتی جنگ کے اثرات محسوس کیے جا سکیں گے۔ انھیں اب مہنگے داموں پر یہی مصنوعات خریدنا پڑیں گی۔

چین نے مزاحمت دکھائی ہے اور کہا ہے کہ وہ ’آخری حد تک تجارتی جنگ لڑے گا۔‘

چین کی اس نمائش پر کئی لوگ یہی موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ ہی ویان ادھر اپنی کمپنی کے لیے کچھ الیکٹرک اوون خریدنے آئے تھے اور وہ ٹیرف کے اثرات پر کُھل کر بولے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم برآمدات نہ کریں تو انھیں انتظار کرنے دیں۔ چین میں ہماری اپنی مقامی مارکیٹ بھی ہے۔ ہم پہلے چینی شہریوں کو بہترین مصنوعات دیں گے۔‘

چین کی 1.4 ارب کی آبادی ہے اور بظاہر یہ ایک بڑی مقامی مارکیٹ ہے۔

چینی پالیسی ساز یہ کوشش کر رہے ہیں کہ معاشی سست روی کے باوجود صارفین کی قوت خرید بڑھا سکیں۔

لیکن یہ کارآمد ثابت نہیں ہو رہا۔ چین کے متوسط طبقے نے اپنی جمع پونجی ریئل سٹیٹ میں لگائی ہے مگر گذشتہ چار برسوں کے دوران گھروں کی قیمتیں گِر رہی ہیں۔ اب وہ بچت کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ خریداری۔

اگرچہ چین دیگر ممالک کے مقابلے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بہتر حالت میں ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ چین کی معیشت برآمدات پر چلتی ہے۔ گذشتہ سال چینی برآمدات ملک کی معاشی پیداوار کا قریب نصف تھا۔

چین کو دنیا کے لیے ایک بڑی فیکٹری بھی سمجھا جاتا ہے۔ سرمایہ کاری بینک ’گولڈمین ساکس‘ کا اندازہ ہے کہ چین میں قریب ایک سے دو کروڑ افراد صرف ان اشیا کی تیاری کے منصوبوں پر کام کرتے ہیں جنھیں امریکہ برآمد کیا جاتا ہے۔

بعض چینی ورکرز اس صورتحال سے بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

کینٹن فیئر کے قریب گوانگ ڈونگ میں کپڑوں، جوتوں اور بیگز کی فیکٹریاں ہیں۔ یہ شین اور ٹیمو جیسی بڑی کمپنیوں کے لیے مینوفیکچرنگ کے مراکز ہیں۔

ہر عمارت کی ہر منزل پر کئی کئی فیکٹریاں ہیں جہاں مزدور دن میں 14 گھنٹے کام کرتے ہیں۔

جوتوں کی کچھ فیکٹریوں کے باہر بعض ورکرز کھڑے تھے۔ ایک نے اپنا نام ظاہر نہ کی شرط پر بتایا کہ ’معلاملات اچھے نہیں ہیں۔‘ اُن کے دوست نے انھیں میڈیا سے مزید بات نہ کرنے کا مشورہ کیا۔ چین میں معاشی مشکلات پر بات کرنا حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کووڈ کی عالمی وبا کے بعد سے مسائل ہیں اور اب تجارتی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ مجھے یومیہ 300 سے 400 یوآن (40 سے 54 امریکی ڈالر) ملتے ہیں۔ اب میں خوش قسمت ہوں گا اگر مجھے یومیہ 100 یوآن بھی مل جائیں۔‘

مزدوروں کا کہنا ہے کہ اب کام ڈھونڈنا مشکل ہے۔ گلی میں جوتے بنانے والی فیکٹری کے ملازمین نے بھی کہا کہ ’آج بس اتنے پیسے کمائے جا سکے ہیں کہ بنیادی ضرویات پوری ہو سکیں۔‘

چین میں بعض لوگوں کو اپنی مصنوعات پر فخر ہے۔ مگر کچھ لوگوں کو بڑھتے ٹیرف پر پریشانی ہے اور وہ پوچھتے ہیں کہ یہ بحران کیسے ختم ہو گا۔

چین اپنا ایک بڑا تجارتی شراکت دار (امریکہ) کھو سکتا ہے جو اس سے ہر سال 400 ارب ڈالر کی مصنوعات خریدتا ہے۔ لیکن امریکہ میں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جائیں گے جہاں ماہرین کو کساد بازاری کا خدشہ ہے۔

صدر ٹرمپ اس غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے بیجنگ پر بھرپور دباؤ ڈالا ہے مگر چین جھکنے کو تیار نہیں۔

تاہم چین کا کہنا ہے کہ وہ امریکی مصنوعات پر 125 فیصد ٹیرف کو مزید سخت نہیں کرے گا۔ چین دوسرے طریقوں سے جواب دے سکتا ہے۔ لیکن معاشی جنگ کا سبب بننے والے گذشتہ ہفتے کے بعد دونوں فریقین کے پاس سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کا ایک موقع ہے۔

اطلاعات کے مطابق بیجنگ اور واشنگٹن کے بیچ بہت کم رابطہ ہو رہا ہے۔ دونوں فریقین جلد مذاکرات کے لیے رضامند دکھائی نہیں دیتے۔

دریں اثنا کینٹن فیئر میں بعض کمپنیاں نئی مارکیٹ کی تلاش میں ہیں۔

ایمی کو امید ہے کہ ان کی آئس کریم مشین کسی نئے راستے جا سکتی ہے۔ ’ہمیں نئی یورپی مارکیٹ کھلنے کی امید ہے۔ شاید سعودی عرب یا ظاہر ہے روس۔‘

کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ چین میں اب بھی آمدن کمانے کے مواقع ہیں۔ ان میں 40 سالہ می کنیان شامل ہیں جو اپنی جوتوں کی کمپنی سے ماہانہ 10 ہزار یوآن کما رہے ہیں۔ یہ کمپنی زیادہ تر چینی صارفین کو اشیا فروخت کرتی ہے۔ جوتوں کی کئی کمپنیاں ویتنام چلی گئی ہیں جہاں ملازمین کے اخراجات مزید کم ہیں۔

می کنیان کو ایک ایسی بات کا احساس ہوا ہے جو دیگر چینی کاروباری شخصیات نے حال ہی میں دریافت کیا ہے: ’امریکی بڑے چالاک ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.