بلوچستان نیشنل پارٹی کا 20 دنوں سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان

image
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی ) کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے مستونگ میں 20 دنوں سے جاری احتجاجی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

سردار اختر مینگل نے یہ اعلان دھرنے کے مقام پر پریس کانفرنس کے دوران  کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بلوچ خواتین کی ماوارائے آئین اور قانون گرفتاریوں کے خلاف لانگ مارچ کیا۔ احتجاج ہماراجمہوری آئینی اور سیاسی حق تھا جس کی اجازت نہیں دی گئی اور تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے حکومت نے خود پہیہ جام ہڑتال کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کارکنوں پر تشدد کیا گیا جس پر ہم نے لکپاس کے مقام پر ہی دھرنا دے دیا۔ ہمارے احتجاج میں عوام کے جم غفیر نے شرکت کی۔‘

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بلوچستان میں صوبے کے مسائل چھوڑ کر باقی ہر مسئلے پر احتجاج  کی اجازت دی جاتی ہے۔ فارم 47 کی حکومت بنانے والے ادارے نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے مسئلے حل ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس حکومتی وفود آئے جنہوں نے بے بسی کا اظہار کیا۔ ہمیں کبھی کوئٹہ اور مستونگ میں ایک جگہ تو کبھی دوسری جگہ احتجاج کرنے کا کہا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دھرنے کے دوران خودکش دھماکا ہوا۔ حکومت نے خود مستونگ میں خطرات کا اعتراف کیا۔‘

سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’ہماری احتجاجی تحریک ختم نہیں ہوئی بس اس کی شکل بدل گئی ہے۔ یہ احتجاج اگلے مرحلے میں داخل ہوگا۔ اس سلسلے میں آئندہ کا لائحہ عمل 18اپریل کو پارٹی کی مرکزی سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں طے کیا جائے گا۔‘

یاد رہے کہ بی این پی کی جانب سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر خواتین رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف 28 مارچ کو خضدار سے کوئٹہ تک لانگ مارچ شروع کیا تھا، تاہم پولیس نے لانگ مارچ کے شرکا کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی مستونگ میں لکپاس کے مقام پر روک دیا تھا۔ پولیس کی جانب سے روکے جانے کے بعد سردار اختر مینگل نے لکپاس کے مقام پر ہی دھرنا دے دیا تھا۔

حکومت نے خندقیں کھود کر اور کنٹینرز کھڑے کرکے کوئٹہ جانے والے راستوں کو بند کردیا تھا۔ احتجاجی دھرنے اور حکومتی رکاوٹوں کی وجہ سے کوئٹہ کو کراچی اور تفتان سے ملانے والی دو اہم شاہراہیں گزشتہ 19 دنوں سے بند تھیں۔ کوئٹہ اور پاک ایران سرحد پر تجارتی سامان سے لدے 1500 سے زائد کنٹینرز پھنس گئے تھے، جس کی وجہ سے تاجروں کو روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا جبکہ مسافروں کو بھی سخت مشکلات کا سامنا تھا۔

کوئٹہ جانے کی کوشش پر پولیس اور بی این پی کے کارکنوں کے درمیان دو مرتبہ تصادم بھی ہوا۔ دھرنے کے قریب 29 مارچ کو خودکش حملہ ہوا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ 15 اپریل کو  دھرنے کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کی بس پر دوسرا بم حملہ کیا گیا جس میں تین اہلکار ہلاک اور  21 زخمی ہوئے۔

حکومت کی جانب سے تین مرتبہ بی این پی کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں بھی کی گئیں جو بے نتیجہ ثابت ہوئیں۔ سردار اختر مینگل کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کی دیگر گرفتار خواتین رہنماؤں کو رہا کیا جائے۔

حکومت نے ان کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ بلوچستان ہائیکورٹ نے بھی گذشتہ روز ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست  کو نمٹاتے ہوئے ان کے وکلاء کو محکمہ داخلہ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

بی این پی کی جانب سے دھرنے کے مقام پر آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد کی گئی، جبکہ تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام، نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مستونگ جاکر سرداراختر مینگل  سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

سردار اختر مینگل نے دھرنے سے اپنے خطاب میں حکومتی جماعتوں پر سخت تنقید کی جس پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی  کے  وزرا اور ارکان اسمبلی نے بھی سخت رد عمل دیا اور سابق وزیراعلیٰ پر دہشت گردوں کی حمایت سمیت سنگین الزامات عائد کیے۔

حکومت کا مؤقف تھا کہ سکیورٹی خطرات  کی وجہ سے لانگ مارچ کو کوئٹہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حکومت کی جانب سے تھری ایم پی او کے تحت  سردار اختر مینگل کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کیے گئے، تاہم بی این پی کے سربراہ نے گرفتاری نہیں دی۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.