اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولینڈ سے تعلق رکھنے والی خاتون آنا مونیکا کی جانب سے اپنی نوعمر بیٹی انیتا مریم خان کی حوالگی اور ملاقات سے متعلق دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے متعلقہ فریقین کو آن لائن ملاقاتوں کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے، جبکہ عدالت نے بچی کو والدہ سے ملوانے کے لیے پولینڈ لے جانے کی بھی اجازت دے دی ہے۔بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی جس میں آنا مونیکا کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ’متعلقہ فریق میری بیٹی انیتا مریم خان کی ملاقات میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔‘درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کی موکلہ نے واٹس ایپ سمیت دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر بچی سے بات کرنے اور اسے دیکھنے کی کوشش کی، لیکن بچی کے والد عدیل خان کی جانب سے حیلے بہانے کیے گئے اور کسی بھی طرح کی ویڈیو کال یا ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس سے قبل ٹرائل کورٹ نے بچی کی حوالگی کی درخواست مسترد کر دی تھی، جس کے خلاف اب اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔عدالت نے دوران سماعت واضح کیا کہ ’یہ ماں بیٹی کی ملاقات کا معاملہ ہے، ملاقات ہونی چاہیے۔ ہم اس کیس کو متوازن رکھنا چاہتے ہیں تاکہ کسی فریق کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔‘ایف آئی اے بچی کے والد کو پولینڈ جانے سے نہ روکے: عدالتبچی کے والد کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کے حکم کی وجہ سے ان کے موکل ملک سے باہر نہیں جا سکتے اور ان کا نام نو فلائی لسٹ میں شامل ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے بچی کے والد کو پولینڈ جانے سے نہ روکے تاکہ وہ اپنی بیٹی کو والدہ سے ملوائے۔’میاں بیوی کے تنازعے کا کوئی حل عدالت نہیں نکال سکتی‘سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’بچی اگر اپنی ماں کے ساتھ کچھ وقت گزارے گی تو وہ ایڈجسٹمنٹ کر لے گی۔ ایک کیس یہاں عدالت میں زیر سماعت ہے جبکہ دوسرا کیس پولینڈ میں چل رہا ہے۔ آپ کچھ بھی کہیں لیکن وہ ایک ماں ہے، اور اسے ملاقات سے نہیں روکا جا سکتا۔‘اُنہوں نے مزید کہا کہ ’میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ میاں بیوی کے تنازعے کا کوئی حل عدالت نہیں نکال سکتی، لیکن ایسے تنازعات میں سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے۔‘سماعت کے اختتام پر عدالت نے آن لائن ملاقاتوں سے متعلق مکمل ریکارڈ آئندہ سماعت پر پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کیس کی مزید کارروائی ستمبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔
عدیل خان نے دعویٰ کیا کہ بچی کی والدہ نے ایک موقع پر بچی پر تشدد کی بھی کوشش کی (فوٹو: پکسابے)
یاد رہے کہ پولش خاتون آنا مونیکا نے اپنی بیٹی کی حوالگی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ اس درخواست پر سابقہ سماعتوں کے دوران عدالت نے بچی اور والدہ کے درمیان ہفتہ وار ویڈیو لنک ملاقاتوں کا حکم دیا تھا۔
عدالت میں پیش کیے گئے ریکارڈ کے مطابق بچی اس وقت ساڑھے چار سال کی ہے، جبکہ جب اسے پاکستان لایا گیا تھا تو اس کی عمر صرف ڈیڑھ سال تھی۔ تین سال بعد حالیہ دنوں میں بچی کی اپنی والدہ سے پہلی بار ملاقات ممکن ہوئی۔ اس سے قبل ویڈیو لنک کے ذریعے ہونے والی بات چیت میں بچی نے اپنی والدہ کو پہچان تو لیا تھا، لیکن ملاقات مختصر رہی اور بات چیت زیادہ دیر جاری نہ رہ سکی۔گذشتہ سماعت میں بچی کے والد عدیل خان نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ بچی کو لے کر پولینڈ جانا چاہتے تھے، تاہم بچی کی والدہ نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی، جس کے بعد وہ پولینڈ چھوڑ کر پاکستان واپس آ گئے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پولینڈ کی شہریت نہیں ہے، اور دو سال قبل بھی بچی کی والدہ سے بچی کی بات کروائی گئی تھی، مگر اس دوران بھی انہیں مبینہ طور پر دھمکیاں دی گئیں۔عدالت میں دیے گئے بیان کے مطابق عدیل خان نے دعویٰ کیا کہ بچی کی والدہ نے ایک موقع پر بچی پر تشدد کی بھی کوشش کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پولینڈ کی عدالت میں بچی سے متعلق مقدمہ انہوں نے خود دائر کیا تھا اور جون میں اس کیس کی سماعت مقرر ہے۔ اگر وہ خود پولینڈ نہ جا سکے تو ان کا وکیل عدالتی کارروائی میں شرکت کرے گا۔