خیبر پختونخوا میں سیاحوں کو ریسکیو کرنے کے لیے اب ’ہیلی کاپٹر استعمال کیا جائے گا‘

image
صوبہ خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقام سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کے واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے ناخوشگوار واقعات سے بچنے کے لیے ریسکیو کے نظام کو مزید متحرک اور بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔

اس سلسلے میں ریسکیو 1122 کے ضلعی دفاتر کو جدید سامان کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ڈرون بھی فراہم کر دیے گئے ہیں جو سامان اور لائف جیکٹس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت سیاحتی مقامات میں ناخوشگوار واقعات سے نمٹنے کے لیے ہیلی کاپٹر بھی مختص کرنے پر غور کر رہی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی حبیب اللہ عارف نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سوات سانحہ کے بعد حکومت سیاحوں کے تحفظ کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ہنگامی حالات میں سی ایم ہیلی کاپٹر کو ریسکیو آپریشن یا ایمبولینس کے طور پر استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے۔‘

’وزیراعلیٰ سیاحتی مقامات کے لیے ہیلی کاپٹر مختص کرنا چاہتے ہیں تاکہ سیاحت کے سیزن میں ہیلی کاپٹر سروس مہیا کی جا سکے۔‘

ڈی جی ٹورازم اتھارٹی حبیب اللہ عارف نے کہا کہ ’ابتدائی طور پر دو ہیلی کاپٹر مہیا کرنے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے۔ ایک ہیلی کاپٹر ہزارہ ریجن جبکہ دوسرا مالاکنڈ میں ہو گا تاکہ ہنگامی حالات میں فوری کارروائی کی جا سکے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس حوالے سے حتمی فیصلہ کرنا باقی ہے مگر صوبائی حکومت کی اولین ترجیح محفوظ سیاحت ہے تاکہ سیر و تفریح کے دوران سیاحوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔‘

محکمہ سیاحت کے مطابق سوات سمیت تمام سیاحتی مقامات میں تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے جبکہ دریا کنارے تفریحی سرگرمیاں انجام دینے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

27 جون کو سوات میں 18 سیاحوں کے دریا میں ڈوبنے کا واقعے پیش آیا تھا جس میں سے صرف چار کو زندہ بچایا جا سکا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

ٹورازم اتھارٹی کے مطابق سیاحتی علاقوں میں عوامی پارک، کشتی رانی اور دیگر سرگرمیوں کو ایس او پیز کے تحت کھول دیا گیا ہے جبکہ ان کے لیے ضلعی انتظامیہ سے این او سی کا حصول لازمی کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے ٹور گائیڈ کامران یوسف نے کہا کہ حکومت اعلانات کی بجائے عملی کام کرکے دکھائے۔

’ہر سانحہ کے بعد حکومت سہولیات کی فراہمی کا دعویٰ کرتی ہے مگر پھر کچھ دن بعد سب بھول جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کچھ برس قبل کوہستان میں چار نوجوان سیلاب میں بہہ گئے تھے جس کے بعد ہیلی کاپٹر سروس کا صرف اعلان ہوا تھا، اس بار دوبارہ ریسکیو کے لیے ہیلی کاپٹر مختص کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو گا۔‘

ٹور گائیڈ کامران یوسف کے مطابق سوات سانحہ کے بعد سیاحت میں کمی واقع نہیں ہوئی مگر پھر بھی خوف کی اس فضا کو کم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے اقدامات نظر آنے چاہییں۔

’مون سون بارشوں کے دوران ہیلی کاپٹر ان مقامات میں موجود ہونے چاہییں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے پر بروقت رسپانس دیا جا سکے۔‘

ریسکیو 1122 کے ضلعی دفاتر کو جدید سامان کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ڈرون بھی فراہم کر دیے گئے ہیں۔ (فائل فوٹو: ریسکیو 1122)

دوسری جانب چترال شندور میلے پر حکومتی وزرا کی جانب سے ہیلی کاپٹر کے استعمال پر سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ عوام کی جانب سے بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ اس پر صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ ’سوات کے واقعہ میں ہیلی کاپٹر دستیاب تھا مگر یہ چھوٹا ہونے کے باعث ریسکیو سرگرمی کے لیے موزوں نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’صوبائی حکومت نے پہلے ہی سرکاری ہیلی کاپٹر کو ایمبولینس میں تبدیل کیا ہوا ہے جو ایمرجنسی کے وقت استعمال ہوتا ہے۔‘

یاد رہے کہ گذشتہ مہینے 27 جون کو سوات میں 18 سیاحوں کے دریا میں ڈوبنے کا واقعے پیش آیا تھا جس میں سے صرف چار کو زندہ بچایا جا سکا۔

 


News Source   News Source Text

پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts