امریکہ میں ڈیزائن کردہ مگر ’میڈ اِن چائنا‘: ایپل کی طاقت سمجھی جانے والی عالمی سپلائی چین اِس کی کمزوری کیسے بنی؟

چین نے ماضی میں عالمی تجارت میں جو مقام بنایا ہے وہ یہ وضاحت کر سکتا ہے کہ چین ٹرمپ کی دھمکیوں کے سامنے کیوں نہیں جُھکا، بلکہ اس کے بجائے چین نے امریکی درآمدات پر 125 فیصد ٹیکس لگا کر جوابی کارروائی کی۔
تصویر
Getty Images
ایپل ہر سال 22 کروڑ سے زیادہ آئی فون فروخت کرتا ہے اور زیادہ تر اندازوں کے مطابق فروخت ہونے والے ہر دس میں سے نو آئی فون چین ہی میں تیار ہوتے ہیں

دنیا میں موجود ہر آئی فون پر ایک لیبل چسپاں ہوتا ہے جس پر تحریر ہوتا ہے کہ اِس پراڈکٹ یعنی آئی فون کو امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔

اگرچہ آئی فون کو ڈیزائن تو امریکہ ہی میں کیا گیا ہوتا ہے مگر اِس کو تیار کیلیفورنیا سے ہزاروں کلومیٹر دور چین میں کیا جاتا ہے، یعنی ایک ایسے ملک میں جو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ محصولات یا اضافی ٹیرف سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کی جانب سے اب تک کچھ چینی درآمدات پر 245 فیصد تک ٹیرف (ٹیکس) عائد کیا جا چکا ہے۔

ایپل ہر سال 22 کروڑ سے زیادہ آئی فون فروخت کرتا ہے اور زیادہ تر اندازوں کے مطابق فروخت ہونے والے ہر دس میں سے نو آئی فون چین ہی میں تیار ہوتے ہیں۔ چمکدار سکرین سے لے کر بیٹری تک: آئی فون میں استعمال ہونے والی بہت سی اشیا ناصرف چین ہی میں تیار کی جاتی ہیں بلکہ انھیں اسمبل کر کے یعنی جوڑ کر آئی فونز، آئی پیڈز اور میک بُکس بھی یہاں ہی تیار کی جاتی ہیں۔

چین میں بننے والی ایپل کی یہ مصنوعات اِس کے بعد امریکہ بھیج دی جاتی ہیں۔ امریکہ چین میں تیار ہونے والی اِن مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ہے۔

اب اسے ایپل کی خوش قسمتی کہیے یا کچھ اور، مگر ٹرمپ نے چند روز قبل اچانک چین سے درآمد کیے جانے والے سمارٹ فونز، کمپیوٹرز اور کچھ دیگر الیکٹرانک آلات کو اضافی ٹیرف سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔

مگر یہ استثنیٰ شاید قلیل مدت ثابت ہو۔

کیونکہ صدر ٹرمپ حال ہی میں دوبارہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مزید چینی درآمدات پر اضافی ٹیکس نافذ کریں گے۔ سوشل میڈیا پر اُن کی جانب سے پوسٹ کیے گئے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ ٹیرف سے کسی کو استثنی حاصل نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ سیمی کنڈکٹرز اور امریکہ پہنچنے والی تمام تر الیکٹرانکس سپلائی چین کی چھان بین کر رہے ہیں۔

وہ عالمی سپلائی چین، جسے ماضی میں ایپل کی ایک طاقت گردانا جاتا تھا، اب اس کی کمزوری بن کر سامنے آ رہی ہے۔

امریکہ اور چین دنیا کی دو بڑی معیشتیں ہیں اور اِن دونوں بڑی معیشتوں کا ایک دوسرے پر بڑی حد تک انحصار ہے مگر ٹرمپ کی جانب سے چینی درآمدات پر عائد کردہ حیران کن محصولات نے راتوں رات اس رشتے میں بگاڑ پیدا کیا ہے۔ اور اس کے بعد ایک ناگزیر سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ چین اور امریکہ میں سے کس کا انحصار دوسرے پر زیادہ ہے؟

لائف لائن خطرہ کیسے بنی؟

ایپل
Getty Images
چین میں ایپل کا پہلا سٹور 19 جولائی 2008 کو کھولا گیا تھا

اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ چین دنیا کی سب سے بڑی اور قیمتی کمپنیوں کی اسمبلی لائن کا مرکز ہے یعنی سادہ الفاظ میں بہت سے بڑی کمپنیوں کی پراڈکٹس چین ہی میں بنتی ہیں۔ اور اِن بڑی کمپنیوں کی میزبانی کر کے چین نے بہت سے فوائد حاصل کیے ہیں۔ اپنی معیاری مینوفیکچرنگ کے باعث چین مغربی ممالک کی ایک بڑی منزل بنا اور اسی وجہ سے چین کی مقامی انڈسٹری میں جدت آئی اور وقت کے ساتھ یہ پھلی پھولی۔

معروف کمپنی ’ایپل‘ 1990 کی دہائی میں چین میں اُس وقت پہنچی جب تھرڈ پارٹی سپلائرز کے ذریعے اس نے یہاں اپنے کمپیوٹرز فروخت کرنے کا آغاز کیا۔

مگر 1997 میں جب ایپل کو اپنی حریف کمپنیوں کی جانب سے بڑے مقابلے کا سامنا کرنا پڑا اور یہ کمپنی اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہوئی تو تبھی اس کمپنی کو چین میں ایک نئی لائف لائن ملی۔

یہ وہ وقت تھا جب چین کی معیشت مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے اور ملک میں مزید ملازمتیں پیدا کرنے کی غرض سے غیر ملکی کمپنیوں کے لیے اپنی بانہیں کھول رہی تھی۔

اور پھر سنہ 2001 میں ایپل نے شنگھائی میں قائم ایک تجارتی کمپنی کے ذریعے باضابطہ طور پر چین میں قدم رکھ دیا اور اپنی معروف مصنوعات کو یہاں تیار کرنا شروع کیا۔ ایپل نے آئی پوڈز، پھر آئی میکس اور اس کے بعد آئی فونز بنانے کے لیے چین میں کام کرنے والی تائیوان کی الیکٹرانک کمپنی ’فاکسکان‘ کے ساتھ شراکت کی۔

جیسے ہی چین نے بڑے پیمانے پر دنیا کے ساتھ تجارت شروع کی، ایپل نے بھی یہاں اپنے قدم مضبوط کیے اور اپنے کام کو یہاں بے پناہ وسعت دی۔ جلد ہی چین کو ’دنیا کی فیکٹری‘ کہا جانے لگا۔

یہ وہ وقت تھا جب تمام تر ترقی کے باوجود چین آئی فون بنانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سپلائی چین کے ماہر لن زوپنگ کے مطابق اس کے باوجود ایپل نے اپنے سپلائرز کا انتخاب کیا اور انھیں ’مینوفیکچرنگ سپر سٹارز‘ بننے میں مدد کی۔

انھوں نے بیجنگ میں واقع کمپنی ’جنژیاؤ‘ کی مثال دی جو آج کل سمارٹ فونز میں استعمال ہونے والی جدید ترین مشینری یا آلات تیار کرنے کے لیے دنیا بھر میں معروف ہے۔ لن زوپنگ کے مطابق ماضی میں یہ کمپنی اس نوعیت کے آلات بنانے کے لیے معروف نہیں تھی مگر وقت کے ساتھ ترقی کرتے کرتے اب یہ کمپنی آئی فونز کی سرفیس پروسیسنگ کرنے کا ایک بڑا ادارہ بن چکی ہے۔

ایپل نے چین کے شہر بیجنگ میں میں اپنا پہلا سٹور سنہ 2008 میں کھولا تھا، یعنی اُس سال جب بیجنگ اولمپکس کی میزبانی کر رہا تھا اور یہ وہی وقت تھا جب چین کے مغرب کے ساتھ تعلقات نسبتاً بہتر، بلکہ تاریخ کی اپنی بلند ترین سطح پر، تھے۔

بیجنگ میں ایک سٹور سے شروع ہونا والا سفر تیزی سے آگے بڑا اور آئندہ چند ہی برسوں میں چین بھر ایپل کے 50 سٹور کُھل گئے جہاں گاہک قطاروں میں کھڑے نظر آتے تھے۔

جیسے جیسے ایپل کے منافع کے مارجن میں اضافہ ہوا، اسی طرح چین میں اُس کی اسمبلی لائنوں میں بھی اضافہ ہوا۔ اور اب ’فوکسکان‘ چین میں دنیا کی سب سے بڑی آئی فون فیکٹری چلا رہی ہے۔ اس فیکٹری کی وسعت کے باعث اسے ’آئی فون سٹی‘ بھی کہا جاتا ہے۔

تیزی سے ترقی کرنے والے چین کے لیے، ایپل جدید مغربی ٹیکنالوجی کی علامت بن گیا۔

آج دنیا بھر میں دستیاب ایپل کے قیمتی آئی فونز میں سے زیادہ تر فوکسکان کی چین میں موجود اسی فیکٹری میں تیار ہوتے ہیں۔

آئی فون کو طاقت فراہم کرنے والی جدید ترین چپس تائیوان میں دنیا کی سب سے بڑی چپ بنانے والی کمپنی ’ٹی ایس ایم سی‘ کے ذریعے بنائی گئی ہیں۔ آئی فون کی تیاری میں نایاب معدنیات یا ارتھ ایلیمنٹس کی ضرورت ہوتی جو کہ آڈیو ایپلی کیشنز اور کیمروں میں استعمال ہوتے ہیں۔

’نِکی ایشیا‘ کے ایک تجزیے کے مطابق سنہ 2024 میں ایپل کو مختلف اشیا فراہم کرنے والے 187 میں سے 150 سپلائرز کی فیکٹریاں چین میں تھیں۔

ایپل کے چیف ایگزیکٹیو ٹم کک نے گذشتہ سال ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’دنیا میں کوئی سپلائی چین ایسی نہیں ہے جو ہمارے لیے چین سے زیادہ اہم ہو۔‘

ایپل
Getty Images
ایپل کے چیف ایگزیکٹیو ٹم کک نے گذشتہ سال ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’دنیا میں کوئی سپلائی چین ایسی نہیں ہے جو ہمارے لیے چین سے زیادہ اہم ہو‘

ٹیرف کا خطرہ

ٹرمپ کے پہلے دور میں بھی چینی درآمدات پر بھاری ٹیرف عائد کیے گئے تھے مگر ایپل کی چین میں تیار ہونے والی مصنوعات کو اُس وقت بھی اس ٹیرف سے استثنی دیا گیا تھا۔

لیکن اس بار ٹرمپ انتظامیہ نے کچھ الیکٹرانکس پر ٹیرف کی شرح میں ردوبدل کا اعلان کرنے سے قبل ایپل کی مثال پیش کی۔ ٹرمپ انتظامیہ کا خیال ہے کہ بھاری ٹیکسوں کا خطرہ چین میں موجود بڑے کاروباروں کو امریکہ میں اپنی مصنوعات بنانے کی ترغیب دے گا۔

امریکہ کے سیکریٹری تجارت ہاورڈ لٹنک نے رواں ماہ کے آغاز میں ایک انٹرویو میں کہا کہ ’لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی فوج آئی فونز کی تیاری کے عمل میں مصروف ہے، اور اس قسم کی چیز امریکہ میں آنے والی ہے۔‘

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے گذشتہ ہفتے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ ’صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ امریکہ سیمی کنڈکٹرز، چپس، سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ جیسی اہم ٹیکنالوجیز کی تیاری کے لیے چین پر انحصار نہیں کر سکتا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’صدر کی ہدایت پر، یہ کمپنیاں جلد از جلد اپنی مینوفیکچرنگ امریکہ میں شروع کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔‘

لیکن بہت سے لوگوں کو ان دعوؤں پر شک ہے۔

ماضی میں ایپل کے ایڈوائزی بورڈ کے رُکن ایلی فریڈمین کے مطابق یہ خیال ’خوش فہمی‘ ہے کہ ایپل اپنے اسمبلی آپریشن کو امریکہ منتقل کر سکتا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ایپل سنہ 2013 سے چین سے ہٹ کر اپنی سپلائی چین کو متنوع بنانے کی بات کر رہا ہے، لیکن امریکہ (اس سلسلے میں) کبھی بھی آپشن نہیں تھا۔

ایلی فریڈمین نے مزید کہا کہ اگرچہ گذشتہ دس برسوں میں اس منصوبے پر زیادہ عملی کام نہیں ہو سکا ہے مگر کورونا کے وبائی مرض کے بعد ’حقیقی کوشش‘ ضرور کی گئی، خاص طور پر اس وقت جب چین نے وبائی مرض کو کنٹرول کرنے کے لیے انتہائی سخت لاک ڈاؤن لگائے جس سے مینوفیکچرنگ کے شعبے کو کافی نقصان پہنچا۔

انھوں نے کہا کہ ’ایپل مصنوعات کی اسمبلی کے لیے سب سے اہم نئے مقامات ویتنام اور انڈیا تھے۔ لیکن یقیناً ایپل کی مصنوعات کی بیشتر اسمبلی اب بھی [چین میں ہی] ہوتی ہے۔‘

اس ضمن میں ایپل نے بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

ایپل
Getty Images
سنہ 2024 میں ایپل کو مختلف اشیا فراہم کرنے والے 187 میں سے 150 سپلائرز کی فیکٹریاں چین میں تھیں

مستقبل کے چیلنجز

ایپل کی موجودہ سپلائی چین کی حالت میں کوئی بھی تبدیلی چین کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہو گی۔

2000کی دہائی کے اوائل میں چین مغربی کمپنیوں کے لیے مینوفیکچرنگ کا مرکز بننا چاہتا تھا اور اس کی بہت سے وجوہات تھیں، جیساکہ لاکھوں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے اور اسی کی بدولت چین کو عالمی تجارت میں ایک اہم برتری حاصل ہوئی۔

سپلائی چین اور آپریشنز کنسلٹنٹ جگر ڈکشٹ کہتے ہیں کہ ’ایپل امریکہ اور چین کے بیچ جاری کشیدگی میں ایک دوراہے پر ہے۔‘

اور چین نے ماضی میں عالمی تجارت میں جو مقام بنایا ہے وہ یہ وضاحت کر سکتا ہے کہ چین ٹرمپ کی دھمکیوں کے سامنے کیوں نہیں جُھکا، بلکہ اس کے بجائے چین نے امریکی درآمدات پر 125 فیصد ٹیکس لگا کر جوابی کارروائی کی۔

جوابی ٹیرف کے ساتھ ساتھ چین نے اپنے ذخائر میں موجود اُن نایاب معدنیات پر برآمدی کنٹرول بھی نافذ العمل کر دیا ہے، جس کی امریکہ سمیت پوری دنیا کو ضرورت ہے۔ چین کے اس اقدام نے بھی امریکہ کو دھچکا پہنچایا ہے۔

مگر اس سب کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر چینی شعبوں پر لگائے گئے امریکی محصولات کا چین کو نقصان ضرور ہو گا۔

یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ امریکی ٹیرف کا سامنا صرف چین کو ہی نہیں ہے۔ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ وہ اُن تمام ممالک کو نشانہ بنائیں گے جو چین کی سپلائی چین کا حصہ ہیں: مثال کے طور پر ویتنام، جہاں ایپل نے اپنے ایئرپوڈز کی پروڈکشن کو منتقل کیا ہے۔ویتنام کو امریکہ کی جانب سے 46 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے، اگرچہ فی الحال اس کے نفاذ کو 90 روز کے لیے عارضی طور معطل کیا گیا ہے۔ اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ ایپل کے لیے اپنی پروڈکشن لائن کو ایشیا ہی کے کسی اور ملک میں منتقل کرنا مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہو گا۔

فریڈمین کا کہنا ہے کہ ’ہزاروں ورکرز کے ساتھ فوکسکان کی بڑی اسمبلی سائٹس کے لیے بہرحال قابل قبول منزل ایشیا کا ہی کوئی ملک ہو گا، مگر ان تمام ممالک کو بھی امریکی صدر کی جانب سے زیادہ ٹیرف کا سامنا ہے۔‘

ایپل
Getty Images
جوابی ٹیرف کے ساتھ ساتھ چین نے اپنے ذخائر میں موجود اُن نایاب معدنیات پر برآمدی کنٹرول بھی نافذ العمل کر دیا ہے

تو ایپل اب کیا کر سکتا ہے؟

ایپل کو چین ہی میں موجود چینی کمپنیوں کی جانب سے بھی سخت مقابلے کا سامنا ہے، کیونکہ چین کی حکومت امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ میں جدید ٹیک مینوفیکچرنگ پر زور دے رہی ہے۔

سپلائی چین کے ماہر لن زوپنگ مطابق اب جبکہ ’ایپل نے چین میں الیکٹرانک مینوفیکچرنگ صلاحیتوں کو فروغ دیا ہے، تو چین ہی میں موجود ہواوے، اوپو اور دیگر بڑی کمپنیاں ایپل کی جانب سے چھوڑے جانے والی سپلائی چین کو استعمال کر سکتی ہیں۔‘

گذشتہ سال ایپل نے چین میں سب سے زیادہ سمارٹ فون بیچنے والی کمپنی کی اپنی حیثیت کھو دی تھی اور اس کی جگہ ہواوئے اور ویوو نے لے لی تھی۔ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ چین میں صارفین اب اپنے ملک کی سُست معیشت کی وجہ سے کافی خرچ نہیں کر رہے ہیں اور چین میں چیٹ جی پی ٹی پر پابندی کے ساتھ، ایپل بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے چلنے والے فونز کے حصول کے لیے خریداروں میں برتری برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے فروخت کو بڑھانے کے لیے جنوری میں آئی فونز پر ڈسکانٹس بھی دیے۔

دوسری جانب صدر شی جن پنگ کی اپنے ملک پر گرفت مضبوط ہو رہی ہے جس کے باعث ایپل کو اپنی مصنوعات میں بلوٹوتھ اور ایئرڈراپ کے استعمال کو محدود کرنا پڑا ہے کیونکہ چین میں برسراقتدار کمیونسٹ پارٹی اُن سیاسی پیغامات کو سینسر کرتی ہے جو لوگ شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ اور اسی تناظر میں چین کی حکومت نے ٹیکنالوجی کی صنعت پر کریک ڈاؤن بھی کیا جس کا سامنا علی بابا جیسی بڑی کمپنی کے ارب پتی مالک جیک ما کو بھی کرنا پڑا۔

اگرچہ ایپل نے امریکہ میں 500 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کر رکھا ہے مگر یہ اعلان ٹرمپ انتظامیہ کو لمبے عرصے تک مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔

ٹیرف کے معاملے پر ٹرمپ کی جانب سے لیے جانے والے حالیہ یو ٹرنز اور غیر یقینی صورتحال کے تناظر میں مزید حیران کن ٹیکسوں کی توقع کی جا سکتی ہے اور یہ صورتحال ایپل کے لیے مزید پریشان کُن ہو سکتی ہے۔

سپلائی چین اور آپریشنز کنسلٹنٹ جگر ڈکشٹ کا کہنا ہے کہ سمارٹ فونز پر ٹیرف کے نفاذ کا معاملہ ایپل کو دباؤ میں لائے گا، آپریشنل طور پر بھی اور سیاسی طور پر بھی۔

فریڈمین نے ٹرمپ کے حالیہ فیصلے، جس میں سمارٹ فونز پر ٹیرف کا نفاذعارضی طور پر معطل کیا گیا ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’واضح طور پر فوری بحران کی شدت کم ہو گئی ہے۔‘

’لیکن مجھے واقعی نہیں لگتا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ایپل سکون کا سانس لے سکتا ہے۔‘

اضافی رپورٹنگ فین وانگ


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.