اگر آپ بریانی یا پلاؤ کے شوقین ہیں اور ہفتے میں کم از کم دو تین بار چاول ضرور کھاتے ہیں تو یہ تحریر آپ کے لیے ہی ہے۔

چاول دنیا بھر میں اربوں لوگوں کی بنیادی خوراک ہیں اور بعض لوگ تو گندم اور مکئی سے بھی زیادہ اس کا استعمال کرتے ہیں لیکن ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے چاول میں خطرناک زہریلے مادے آرسنک یعنی سنکھیا کی مقدار بڑھ سکتی ہے۔
اگر آپ بریانی یا پلاؤ کے شوقین ہیں اور ہفتے میں کم از کم دو تین بار چاول ضرور کھاتے ہیں تو یہ تحریر آپ کے لیے ہی ہے۔
سائنسدانوں نے چاولوں کے حوالے سے ایک نئی تحقیق سے پردہ اٹھایا ہے: جیسے جیسے کاربن کا اخراج اور زمین کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے، ویسے ہی چاول میں زہریلے مادے سنکھیا کی مقدار بڑھ سکتی ہے۔
چاول میں آرسنک کی موجودگی طویل عرصے سے ایک مسئلہ رہا ہے اور تقریباً تمام اقسام کے چاولوں میں یہ پایا جاتا ہے۔
آرسنک قدرتی طور پر مٹی اور پانی میں پایا جاتا ہے اور زہریلا ہو سکتا ہے۔

اگرچہ چاول کے دانوں میں آرسنک کی مقدار ریگولیٹری اداروں کی طرف سے مقرر کردہ حد سے کافی کم یا کئی گنا زیادہ بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود کسی کھانے کی چیز یا پینے کے پانی میں آرسنک کی انتہائی کم مقدار بھی کینسر اور ذیابیطس سمیت دیگر بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہے۔
دنیا بھر میں محققین چاول میں آرسنک کی مقدار کم کرنے کے طریقوں پر کام کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ چاول پکانے کے ایسے بہت سے طریقے بھی موجود ہیں، جن سے اس نقصان دہ مادے کو نکالا جا سکتا ہے۔
لیکن ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید بڑا ہو سکتا ہے۔
محققین نے 10 سال کے عرصے میں چین کے چار مختلف مقامات پر چاول کی 28 مختلف اقسام اگائیں۔ انھیں پتہ چلا کہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور درجہ حرارت میں اضافے سے چاول میں آرسنک کی مقدار بھی بڑھ گئی۔
محققین نے اندازہ لگایا کہ چاول میں آرسنک کی سطح میں ایسے اضافے سے صرف چین میں ہی کینسر کے کیسز میں تقریباً تقریباً دو کروڑ اضافہ ہو سکتا ہے۔

اگرچہ محققین نے اپنے تجربات کے لیے چین کے مقامات پر توجہ مرکوز رکھی لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایسے اثرات یورپ اور امریکا میں کاشت کیے جانے والے چاولوں پر بھی نظر آنے کا امکان ہے کیونکہ دنیا بھر میں اگائے جانے والے چاولوں میں غیر نامیاتی آرسنک عام ہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آرسنک متعدد خطوں کے زیر زمین پانی میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں 21 لاکھ افراد آرسنک کی خطرناک سطح والا پانی پی رہے ہیں جبکہ دنیا بھر میں تقریباً 14 کروڑ افراد ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ ہدایات سے زیادہ آرسنک کی سطح والا پانی پیتے ہیں۔
اور پینے کے پانی کے علاوہ دنیا بھر میں آرسنک کا بنیادی ذریعہ چاول ہیں۔

جو بات ماہرین صحت کو بہت زیادہ تشویش میں مبتلا کرتی ہے وہ یہ کہ آرسنک پر جتنی زیادہ تحقیق کی جائے گی، انسانوں پر اس کے اتنے ہی برے اثرات ظاہر ہوتے جائیں گے۔
جان ہاپکنز بلومبرگ سکول آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر کیو نیچمین کہتے ہیں کہ ’امریکہ کی ’انوائرمینٹل پروٹیکشن ایڈمنسٹریشن‘ (ای پی اے) کے نئے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ آرسنک سرطان پیدا کرنے کے لیے بہت زیادہ طاقتور ہے، اس سے بھی زیادہ جتنا کہ ہم پہلے یقین کرتے تھے۔‘
اب اس بات کے ثبوت بھی موجود ہیں کہ آرسنک سے صرف جلد نہیں بلکہ پھیپھڑوں اور مثانے کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔ کینسر کے علاوہ غیر نامیاتی آرسنک سے دل کی بیماریوں اور ذیابیطس کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
حاملہ خواتین کی جانب سے آرسنک کے زیادہ استعمال سے جنین یا بچوں کی اموات کا بھی زیادہ امکان ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کا وزن کم ہو گا۔
ہر انسان کے لیے اس کے خطرات الگ ہیں۔ مثال کے طور پر ای پی اے کے جائزے سے معلوم ہوا کہ انسانی وزن کے ہر ایک کلو گرام کے لیے 0.13 مائیکروگرام آرسنک کا روزانہ استعمال یا 60 کلو کے شخص کے لیے ہر روز 7.8 مائیکروگرام آرسنک کا استعمال، مثانے کے کینسر کا خطرہ تقریباً تین اور ذیابیطس کا خطرہ تقریباً ایک فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔
تو کاربن اخراج اور بڑھتے درجہ حرارت میں کمی کے علاوہ ہم آرسنک کے خطرات سے بچنے کے لیے اور کیا کر سکتے ہیں؟

پروفیسر نیچمین کہتے ہیں کہ اب ہم یہ نہیں کر سکتے کہ چاول کھانا چھوڑ دیں۔ یہ ممکن نہیں۔ ’اس کے علاوہ چاول غربت میں زندگی گزارنے والوں کی انتہائی اہم عذا ہے کیونکہ ان میں چند لوگ چاول سے ہی اپنی ساری کیلوریز حاصل کرتے ہیں لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں کچھ مختلف کرنے کی ضرورت ہے۔‘
محققین چاول کاشت کرنے کے لیے درکار پانی کی سطح اور استعمال کے طریقہ کار پر بھی تجربات کر رہے ہیں۔
جیسے ایک عمل میں چاول کے کھیت میں مسلسل پانی دینے کی بجائے اس میں جزوی طور پر پانی کا استعمال کیا جاتا ہے، پھر اس پانی کو نکال کر کھیت میں دوبارہ پانی ڈالا جاتا ہے۔ اس طریقے سے آرسنک کی مقدار بظاہر کم ہوتی ہے لیکن اس سے کیڈمیم بڑھ جاتا ہے، جو زیادہ بڑا خطرہ ہے۔
کیڈمیم انسانی جسم پر منفی اثرات ڈالتا ہے اور چھاتی، پھیپھڑوں اور گردوں کے کیسنر کے ساتھ ساتھ جگر کے عارضے کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ چاول کی ان اقسام کی افزائش میں بھی دلچسپی لی جا رہی ہے جو کم غیر نامیاتی آرسنک لیتی ہوں۔ چونکہ چاول کی کچھ اقسام میں آرسنک کی مقدار کم جمع ہوتی ہے تو اس لیے ان کی کاشت میں بھی دلچسپی پائی جاتی ہے۔
ایک اور حل پانی میں سلفر شامل کرنا ہو سکتا ہے، جو الیکٹران کو جذب کر سکتا ہے، جیسے آرسنک۔ ایک اور طریقہ چاول کی کاشت میں کچھ خاص قسم کی کھادوں کو شامل کرنا ہو سکتا ہے
ایکطریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چاول کی کاشت بارش کے پانی میں ہو، یا ایسی جگہ پر ہو جہاں پانی میں آرسنک کی مقدار کم ہو۔

مشرقی افریقہ سے آنے والے چاول، جن کی کاشت میں بارش کا پانی شامل ہوتا ہے، میں خاص طور پر آرسنک کی مقدار کم ہوتی ہے جبکہ امریکہ، وسطی اور جنوبی امریکہ، جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور آسٹریلیا کے چاولوں میں آرسنک کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔
فی الحال امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن چاول میں آرسنک کی مقدار کی نگرانی نہیں کرتی لیکن اس نے بچوں کے لیے فی کلو چاول میں0.1 ملی گرام کی حد مقرر کر رکھی ہے۔ سنہ 2023 میں یورپی یونین نے چاول میں فی کلو 0.2 ملی گرام آرسنک کی حد مقرر کی جبکہ چین نے بھی اسی طرح کی تجویز پیش کی۔
لیکن یہ سفارشات اس حقیقت کو مدنظر نہیں رکھتی ہیں کہ کچھ کمیونٹیز دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ چاول کھاتی ہیں۔
اگر آپ چاول کھانا چاہتے ہیں اور انفرادی سطح پر آرسنک سے بچنا بھی چاہتے ہیں تو آپ چاول پکانے کے طریقہ کار میں تبدیلی کر کے ایسا کر سکتے ہیں۔
برطانیہ کی فوڈ سٹینڈرڈ ایجنسی تجویز کرتی ہے کہ چاول پکانے سے پہلے انھیں دھویا جائے۔ پھر چاول پکاتے وقت اس کی مقدار سے چھ گنا زیادہ پانی میں انھیں ابالا جائے اور پھر اس پانی کو نکال دیا جائے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے محققین نے بھی حال ہی میں چاول پکانے کا ایک طریقہ دریافت کیا، جس سے براؤن چاول سے 50 فیصد اور سفید چاولوں میں سے 74 فیصد آرسنک ختم کیا سکتا ہے۔
وہ تجویز کرتے ہیں کہ پہلے سے ابلتے پانی میں چاولوں کو پانچ منٹ تک ابالیں اور یہ پانی پھر نکال دیں۔ پھر چاولوں میں تازہ پانی ڈال کر انھیں اس وقت تک ہلکی آنچ پر پکائیں جب تک کہ وہ سارا پانی جذب نہ کر لیں۔
اس کے علاوہ چاولوں کی کچھ اقسام ایسی بھی ہیں جن میں کم آرسنک پایا جاتا ہے، جیسے باسمتی چاول۔
امریکہ، یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا سے آنے والے چاول میں زیادہ جبکہ مشرقی ایشیا کے چاول میں کم آرسنک پایا جاتا ہے۔