سنہ 1912 میں سمندری جہاز ٹائٹینک کے غرق ہونے سے چند دن قبل جہاز سے لکھا گیا ایک مسافر کا خط لگ بھگ چار لاکھ ڈالر میں نیلام کیا گیا ہے۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ خط اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے آرچیبالڈ گریسی نے لکھا تھا۔آرچیبالڈ گریسی جہاز کی فرسٹ کلاس کے مسافر تھے اور انہوں نے اسے فروخت کرنے والے شخص کے چچا کو یہ خط 10 اپریل 1912 کو لکھا تھا۔خط میں ان کے الفاظ کچھ یوں تھے ’یہ اچھا جہاز ہے لیکن مجھے اس کے بارے میں اپنی رائے دینے کے لیے اپنے سفر کے تمام ہونے کا اتنظار کرنا چاہیے۔‘ولٹشائر کے نیلام گھر ہنری آلڈریج اینڈ سنز کے مطابق یہ خط سنیچر کو امریکہ کے ایک پرائیویٹ کولیکٹر کو فروخت کیا گیا۔ اس کی بولی تخمینے سے کہیں زیادہ دی گئی ہے۔ اس کی ممکنہ قیمت فروخت کا تخمینہ 60 ہزار پاؤنڈ لگایا گیا تھا۔
ہنری آلڈریج اینڈ سنز نے اس خط کو ’غیرمعمولی میوزیم گریڈ پیس‘ قرار دیا ہے (فوٹو: آلڈریج)
یہ خظ ٹائٹینک کے ڈوبنے سے قبل کی اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے جو جہاز سے کسی کو بھیجی گئی۔
یہ جہاز سمندر میں ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا تھا جس میں 1500 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔خط کو نیلام کرنے والے ہنری آلڈریج اینڈ سنز نے اسے ’غیرمعمولی میوزیم گریڈ پیس‘ قرار دیا ہے۔آرچیبالڈ گریسی نے حادثے کے وقت جہاز سے چھلانگ لگا دی تھی اور وہ اُلٹنے والی ایک ٹوٹی ہوئی کشتی پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ پھر انہیں لائف بوٹ پر سوار دیگر مسافروں نے بچایا۔
آرچیبالڈ گریسی 10 اپریل 1912 کو ساؤتھمپٹن میں ٹائٹینک میں سوار ہوئے تھے (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)
جب وہ نیو یارک شہر واپس آئے تو انہوں نے اپنے تجربات ’دا ٹُرتھ اباؤٹ دا ٹائٹینک‘ لکھنا شروع کی۔
آرچیبالڈ گریسی 10 اپریل 1912 کو ساؤتھمپٹن میں ٹائٹینک میں سوار ہوئے تھے اور انہیں فرسٹ کلاس کیبن سی 51 دیا گیا تھا۔ہنری الڈریج اینڈ سنز نے مزید کہا کہ ان کی کتاب کو جہاز کے ڈوبنے والی رات کے واقعات کے سب سے مفصل بیانات میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔آرچیبالڈ گریسی ہائپوتھرمیا سے مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو سکے تھے اور پھر سنہ 1912 کے آخر میں ذیابیطس کی پیچیدگیوں سے ان کا انتقال ہو گیا۔اس خط پر آئرلینڈ کے کوئنس ٹاؤن میں ڈاک خانے کی مہر ثبت کی گئی تھی۔ یہ مقام ٹائی ٹینک کے ڈوبنے سے پہلے دو سٹاپس میں سے ایک تھا۔