پانی میں بم کو ناکارہ بنانے کے ماہر وہ جاسوس جن کی پراسرار گمشدگی برسوں بعد بھی معمہ ہے

کمانڈر ’بسٹر‘ کریب سرد جنگ کی کشیدگی کے عروج پر سوویت قیادت کی جانب سے برطانیہ کے دورہ خیر سگالی کے دوران غائب ہو گئے تھے۔
کمانڈر لیونل کریب
Getty Images
کمانڈر لیونل کریب سرد جنگ کی کشیدگی کے عروج پر سوویت قیادت کی جانب سے برطانیہ کے دورہ خیر سگالی کے دوران غائب ہو گئے تھے

سنہ 1956 میں رائل نیوی کے غوطہ خور کمانڈر ’بسٹر‘ کریب سوویت رہنما نکیتا خروشیف کے دورۂ برطانیہ کے دوران غائب ہو گئے۔

سنہ 2006 میں بی بی سی کے مائیکل بیکانن نے نئی ڈی کلاسیفائیڈ فائلوں کا مطالعہ کیا، جس میں کریب کے غیر سرکاری خفیہ مشن کے بارے میں تفصیلات درج تھیں اور یہ بھی کہ کس طرح حکومت نے اسے چھپانے کی کوشش کی۔

68 برس قبل نو مئی 1956 کو برطانوی وزیر اعظم سر انتھونی ایڈن نے دباؤ اور بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنے کے بعد رائل نیوی کے غوطہ خور کمانڈر لیونل ’بسٹر‘ کریب کی پراسرار گمشدگی کی تحقیقات کا حکم دیا۔

کمانڈر ’بسٹر‘ کریب سرد جنگ کی کشیدگی کے عروج پر سوویت قیادت کی جانب سے برطانیہ کے دورہ خیر سگالی کے دوران غائب ہو گئے تھے۔

جب اس بارے میں خبر لیک ہوئی کہ کریب لاپتہ ہو گئے ہیں تو حکومت نے ایک مبہم سا بیان جاری کیا کہ وہ ہیمپشائر کے ساحل پر سٹوکس بے میں پانی کے اندر موجود آلات کی جانچ کر رہے تھے اور شاید ڈوب گئے ہیں۔

لیکن اس کہانی پر اس وقت سوال اٹھنے لگے جب روس سے آئے وفد نے اپنے میزبانوں پر جاسوسی کا الزام عائد کیا۔

سوویت رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ جس جہاز پر وہ برطانیہ آئے تھے، جب اسے پورٹس ماؤتھ کی بندرگاہ پر لنگر انداز کیا گیا تو اس کے قریب انھوں نے ایک غوطہ خور کو دیکھا تھا۔

پارلیمنٹ میں بار بار سوالات کے باوجود ایڈن نے اس بارے میں مزید کچھ بھی کہنے سے انکار کیا اور دعویٰ کیا کہ ’ان حالات کو ظاہر کرنا مفاد عامہ میں نہیں ہو گا جن میں کمانڈر کریب کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی موت ہو گئی۔‘

حکومت کے موقف نے اس بارے میں شکوک و شبہات کو بڑھا دیا کہ کریب خفیہ جاسوسی مشن پر تھے۔

کریب کے غائب ہونے کے 14 ماہ بعد ماہی گیروں کو انگلینڈ کے جنوبی ساحل چیچسٹر ہاربر سے ایک سر کٹی لاش ملی۔ تیراکی کے کپڑوں میں ملبوس اس لاش کے ہاتھ بھی نہیں تھے۔

انگلیوں کے نشانات اور دانت نہ ہونے کی وجہ سے اس مسخ شدہ لاش کی شناخت مشکل ہو گئی لیکن بعد میں کی گئی تفتیش کے مطابق یہ کریب تھے۔

اس پورے واقعے کی وجہ سے ایڈن کو عوامی سطح پر شرمندگی اٹھانا پڑی اور سوویت یونین کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کو دھچکہ لگا۔

سنہ 1956 میں لاپتہ ہونے والے کریب اپنے بہادر کارناموں کی وجہ سے مشہور تھے۔ وہ پانی کے اندر بم کو ناکارہ بنانے کے ماہر تھے۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران انھیں مالٹا میں برطانوی جنگی جہازوں سے اطالوی بارودی سرنگیں ہٹانے پر جارج میڈل اور اٹلی کے شہر لیورنو میں بارودی سرنگوں کی صفائی کے لیے آرڈر آف دی برٹش ایمپائر (OBE) ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

سنہ 1958 میں ان کے جنگی کارناموں پر ایک فلم ’دا سائلنٹ اینیمی‘ بھی بنائی گئی، جس میں کریب کا کردار اداکار لارنس ہاروے نے ادا کیا تھا۔

اگرچہ سنہ 1947 میں انھیں باضابطہ طور پر برطانوی افواج سے الگ کر دیا گیا تھا لیکن انھوں نے مختلف مقاصد جیسے ڈوبی ہوئی آبدوزوں کی تفتیش کے لیے غوطہ خوری جاری رکھی۔

سوویت رہنماؤں کا دورہ خیر سگالی
BBC
سوویت رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ جس جہاز پر وہ برطانیہ آئے تھے، جب اسے پورٹس ماؤتھ کی بندرگاہ پر لنگر انداز کیا گیا تو اس کے قریب انھوں نے ایک غوطہ خور کو دیکھا تھا

غیر سرکاری مشن

دہائیوں تک برطانوی حکومت نے کریب کی گمشدگی کے معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی لیکن سنہ 2006 میں معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت بی بی سی کی جانب سے کی جانے والی درخواستوں اور 50 برس بعد خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کے اصول کے تحت کریب کے حوالے سے حقائق سامنے آنے لگے۔

ان خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کی سکیورٹی سروسز شروع سے ہی خروشیف کے دورے کے موقع کو اپنے مخالفین کے بارے میں انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھیں۔

سکیورٹی سروسز نے لندن کے کلیریج ہوٹل میں مائیکروفون چھپانے کا مشورہ بھی تاہم وزیر اعظم نے اسے مسترد کر دیا۔ سوویت وفد قیام کے دوران اس ہوٹل کو اپنے ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا۔

اس کے باوجود برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس نے روسی جہاز کی تحقیقات کے لیے کریب کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس مشن کی اصل نوعیت ابھی تک واضح نہیں لیکن ایم آئی فائیو کے سابق افسر پیٹر رائٹ نے سنہ 1987 میں اپنی کتاب ’سپائی کیچر‘ میں کہا تھا کہ اس مشن کا مقصد جہاز کے جدید ڈیزائن کی جانچ اور تصویر کشی کرنا تھا۔

اس مشن سے دو روز قبل کریب اور ایم آئی سکس کے ایک اور ایجنٹ برنارڈ سمتھ نے پورٹس ماؤتھ کے سیلی پورٹ ہوٹل میں چیک ان کیا۔

17 اپریل 1956 کو کریب نے ایک مقامی بپ میں اپنے ایک فوجی ساتھی سے ملاقات کی۔ اس فوجی کا نام خفیہ دستاویزات سے حذف کر دیا گیا لیکن وہ رائل نیوی میں لیفٹیننٹ کمانڈر تھے اور انھوں نے پورٹس ماؤتھ کی بندرگاہ میں آخری بار داخل ہونے کے لیے کریب کی مدد کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔

2006 میں بی بی سی کے مائیکل بیکانن کو ’کریب کو زندہ دیکھنے والے آخری شخص‘ کے بیان کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔

19 اپریل کو یہ بے نام لیفٹیننٹ کمانڈر، کریب کے ساتھپورٹس ماؤتھ کی بندرگاہ پر گئے اور ان کے سامان کا جائزہ لیا۔ کریب پھر تیر کر روسی جہاز تک پہنچے اور اس کے بعد انھیں دوبارہ کبھی زندہ نہیں دیکھا گیا۔

رائل نیوی نے جہاز کے عملے کو علم ہو جانے کے خوف سے کریب کو تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

مائیکل بیکانن کے مطابق خفیہ دستاویزات سے مزید پتہ چلتا ہے کہ کریب کی تلاش یا انھیں ریسکیو کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی۔

انٹیلیجنس سروسز نے اندازہ لگایا کہ کریب کو سوویت یونین نے پکڑ لیا ہو گا یا وہ روس کی جانب سے ’جوابی اقدامات‘ کا نشانہ بن گئے ہوں گے یا پھر وہ کسی ’قدرتی حادثے‘ کا شکار ہو گئے ہوں گے۔

ایم آئی سکس ایجنٹ سمتھ نے ہوٹل سے کریب کا سامان ہٹایا اور چیک آؤٹ کر دیا۔ کچھ دن بعد پولیس نے سیلی پورٹ کے رجسٹر میں درج ان کے قیام کی تفصیلات کو ہٹا دیا۔

ایم آئی سکس اور حکومتی دباؤ میں ایڈمرلٹی نے جلد بازی میں یہ من گھڑت کہانی بتائی کہ کریب سٹوکس بے میں ایک ٹیسٹ کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے۔

 ہاورڈ ڈیوس
BBC
نیشنل آرکائیوز کے ہاورڈ ڈیوس نے سنہ 2006 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ خفیہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایڈمرلٹی (نیوی) کا آپریشن نہیں تھا

سنائپر اور پانی کے اندر لڑائی

اس بارے میں حکومت کی اعلیٰ سطح پر ہونے والی میٹنگز کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اس بارے میں کتنا خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ حکام کو ڈر تھا کہ اگر لاش مل گئی تو سوویٹ یونین کریب کی موت کو اپنے پروپیگنڈا کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

نیشنل آرکائیوز کے ہاورڈ ڈیوس نے سنہ 2006 میں بی بی سی کو بتایا کہ خفیہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایڈمرلٹی (نیوی) کا آپریشن نہیں تھا۔ ’ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انھوں نے پریس کے سوالوں کا سامنا کرنے کے لیے کیسے ایک کہانی بنانے کی کوشش کی۔‘

لیکن حکومت کے خفیہ دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے باوجود بھی ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ کریب کے ساتھ اس دن کیا ہوا تھا۔

سنہ 1990 میں سوویت یونین بحریہ کے سابق انٹیلیجنس ایجنٹ جوزف زویرکن نے دعویٰ کیا کہ جہاز کے عرشے پر ایک سوویت سنائپر نے کریب کو پانی میں دیکھا اور گولی مار دی۔ سنہ 2007 میں 74 سالہ ایک سابق روسی غوطہ خور نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے پانی کے اندر لڑائی میں کریب کا گلا کاٹ دیا جب وہ بارودی سرنگ کو روسی جہاز سے جوڑ رہے تھے۔

یہ بھی کہا گیا کہ کریب، سر انتھونی بلنٹ کے قریبی ساتھی تھے اور وہ سوویت یونین کے ساتھ مل گئے تھے۔ واضح رہے کہ سر انتھونی بلنٹ لندن میں تاریخ کے پروفیسرتھے تاہم سنہ 1979 میں یہ بات منظر عام پر آئی کہ وہ سوویت جاسوس ہیں۔

ایم آئی سکس کے سابق سینیئر ایجنٹ نکولس ایلیوٹ، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مبینہ طور پر کریب کی مدد کی تھی، کا ماننا تھا کہ وہ پانی کے اندر رہتے ہوئے اپنی مشقتوں کے نتیجے میں آکسیجن پوائزننگ یا ہارٹ اٹیک کا شکار ہو گئے تھے کیونکہ وہ شراب اور سگریٹ کے شوقین تھے۔

شاید کریب کی تقدیر کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ کچھ دستاویزات تو برطانوی حکومت کی جانب سے ریلیز کر دی گئی ہیں جبکہ کچھ کو خفیہ رکھنے کی تاریخ میں توسیع کر دی گئی ہے اور یہ سنہ 2057 سے پہلے سامنے نہیں آ سکیں گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.