ماضی کے برعکس کیا امریکہ اس بار پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کم کروانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے؟

سنیچر (10 مئی) کی علی الصبح پاکستان کی جانب سے انڈیا کے خلاف جوابی کارروائی کا آغاز کرنے کے اعلان کے چند ہی گھنٹوں بعد امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے رابطہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ’دونوں فریقین (پاکستان اور انڈیا) کشیدگی کم کرنے کے طریقے ڈھونڈیں‘۔ انھوں نے مستقبل میں تنازع سے بچنے کے لیے ’بات چیت کا آغاز کرنے کے لیے امریکی ثالثی کی پیشکش بھی کی۔‘
تصویر
Getty Images

سنیچر (10 مئی) کی علی الصبح پاکستان کی جانب سے انڈیا کے خلاف جوابی کارروائی کا آغاز کرنے کے اعلان کے چند ہی گھنٹوں بعد امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے رابطہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ’دونوں فریقین (پاکستان اور انڈیا) کشیدگی کم کرنے کے طریقے ڈھونڈیں‘۔ انھوں نے مستقبل میں تنازع سے بچنے کے لیے ’بات چیت کا آغاز کرنے کے لیے امریکی ثالثی کی پیشکش بھی کی۔‘

سات مئی کو پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر پر انڈیا کے میزائل حملوں اور اس دوران کم از کم 33 شہریوں کی ہلاکت کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان مسلسل کشیدگی بڑھ رہی ہے۔

جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب پاکستان نے انڈیا پر اپنی عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا اور دعویٰ کیا کہ انڈیا نے فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے راولپنڈی کے نور خان ایئر بیس، شورکوٹ ایئر بیس اور مرید ایئر بیس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ فوجی ترجمان نے مزید دعویٰ کیا کہ اس انڈین حملے کے نتیجے میں فضائیہ کے تمام اثاثے محفوظ رہے۔ انڈیا نے فی الحال اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

رات گئے ہونے والی اس کارروائی کے بعد پاکستان کی فوج کی جانب سے انڈین حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیا اور اس آپریشن کو ’بنیان مرصوص‘ کا نام دیا گیا ہے۔

دونوں ممالک گذشتہ کئی دونوں سے ایک دوسرے پر ڈرون حملوں، میزائل داغنے اور لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی جیسے الزامات عائد کر رہے ہیں اور ان کارروائیوں کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔

ایسے میں دونوں جوہری ممالک کے درمیان تصادم کو زیادہ آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے سفارتی کوششیں بھی دیکھنے میں آ رہی ہیں۔

متعدد ممالک کے رہنما پاکستان اور انڈیا کو جنگ سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور روس، برطانیہ اور ایران سمیت متعدد ممالک بطور ثالث بھی کردار نبھانے کو راضی ہیں۔ تاہم ماضی کے برخلاف دونوں ممالک کے درمیان تنازع تھمتا ہوا نہیں دکھائی دے رہا۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی اس حد تک بڑھی ہو۔ چھ سال قبل یعنی سنہ 2019 میں بھی پاکستان اور انڈیا باقاعدہ جنگ کے بہت قریب پہنچ گئے تھے اور دونوں ممالک کے درمیان فضائی تصادم بھی دیکھنے میں آیا تھا جس کے دوران پاکستان نے ایک انڈین طیارہ بھی تباہ کر دیا گیا تھا جبکہ اس کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

سنہ 2019 میں ہونے والے پلوامہ حملے کے وقت بھی امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہی حکومت تھی۔ امریکہ کے اُس وقت کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپو اپنی کتاب میں لکھ چکے ہیں کہ جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتیں ایک باقاعدہ جنگ کے دہانے پر کھڑی تھیں لیکن امریکی مداخلت کے سبب یہ بحران مزید بگڑنے سے بچ گیا۔

اس بار بھی یہی سوال سامنے آ رہا ہے کہ کیا امریکہ ایک مرتبہ پھر دو جوہری ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کروانے میں اپنا اہم کردار ادا کرے گا؟

جب سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کا آغاز ہوا ہے تب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے پر دو مرتبہ بات کر چکے ہیں اور بدھ کو انھوں نے اپنے آخری بیان میں کہا تھا کہ ’یہ (صورتحال) افسوسناک ہے، میرے دونوں (انڈیا اور پاکستان) سے اچھے تعلقات ہیں، میں دونوں کو جانتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ دونوں اس معاملے کو حل کر لیں۔ میں چاہوں گا کہ وہ دونوں رُک جائیں۔‘

اس سے قبل دیے گئے اپنے بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'وہ کشمیر کے لیے ہزاروں برس سے لڑ رہے ہیں۔۔۔ میں دونوں طرف کے رہنماؤں کو جانتا ہوں۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ مسئلہ حل کر لیں گے۔ اس وقت بہت کشیدگی ہے مگر یہ تو ہمیشہ سے ہے۔'

اسی طرح گذشتہ روز امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی ’فوکس نیوز‘ کو ایک انٹرویو دیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ’انڈیا نے حملہ کیا، پاکستان نے جواب دیا۔ دونوں ممالک کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے، پاکستان اور انڈیا کی جنگ ایٹمی جنگ نہیں بننی چاہیے، اگر ایسا ہوا تو بہت نقصان ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ انڈیا کو ہتھیار ڈالنے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔ ہم پاکستانیوں کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔‘

کیا پاکستان اور انڈیا کے معاملات میں امریکی دلچسپی کم ہو رہی ہے؟

جے ڈی وینس
Getty Images
جے ڈی وینس: ’امریکہ انڈیا یا پاکستان میں سے کسی بھی ملک کو ہتھیار ڈالنے کو نہیں کہہ سکتا‘

جنوبی ایشیا میں پیدا ہوتے بحران پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاید ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ امریکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کروانے کے لیے زیادہ آگے نہ آئے۔

جنوبی ایشیا کے امور پر گہری نظر رکھنے والے امریکہ تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ امریکہ 1999 اور 2019 میں پاکستان اور انڈیا کے دوران ثالثی کی کوششوں کے دوران کافی متحرک رہا تھا لیکن شاید اس بار امریکہ اس معاملے میں زیادہ سرگرم نظر نہ آئے۔

نائب امریکی صدر جے ڈی وینس کے بیان پر مائیکل کوگلمین نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ وینس کا بیان ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔‘

’اور وہ یہ ہے کہ امریکہ کو بین الاقوامی معاملات میں زیادہ مداخلت کی ضرورت نہیں اور یہ کہ امریکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی کا خواہاں ہے لیکن امریکہ فریقین میں کشیدگی کم کرنے کے لیے بہت آگے تک نہیں جائے گا اور یہ پہلی ٹرمپ انتظامیہ کے مقابلے میں بڑی تبدیلی ہو گی۔‘

لیکن کچھ دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی رہنماؤں کے چند بیانات پر یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہو گا کہ امریکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کروانے میں ہچکچا رہا ہے۔

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’امریکہ بالکل ہچکچا نہیں رہا اور اس سارے عمل میں شامل ہے۔‘

امریکہ کے موجودہ سیکریٹری خارجہ مارک روبیو کے پاکستان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف اور انڈیا میں وزیرِ خارجہ سے ٹیلیفونک رابطے ہوئے ہیں۔

ان ٹیلیفونک رابطوں کے بعد امریکہ سے جاری ہونے والے بیانات میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری مارک روبیو نے دونوں ممالک سے کشیدگی میں کمی لانے کی درخواست کی ہے اور ’پاکستان اور انڈیا کے درمیان براہ راست بات چیت‘ پر زور دیا ہے۔

سابق سفیر ملیحہ لودھی ان رابطوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر امریکہ (کشیدگی کم کروانے کی کوششوں میں) شامل نہیں ہوتا تو سیکریٹری روبیو دونوں ممالک میں بار بار فون نہیں کر رہے ہوتے۔‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کم کروانے میں امریکہ ہچکچاہٹ کا شکار؟

پاکستان انڈیا
Getty Images
حالیہ کشیدگی میں پاکستان اور انڈیا دونوں جانب جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات ہیں

نیویارک کی البانی یونیورسٹی سے منسلک پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹوفر کلیری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’صدر ٹرمپ کی ٹیم اس وقت متعدد براعظموں پر متعدد بحرانوں کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے حکومتی حکام کی بھی کمی کا سامنا ہے۔‘

’متعدد شخصیات کی تقرری ہی نہیں ہوئی اور جن کی تقرری کی گئی تھی انھیں ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ نے بڑے بحرانوں سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

’بظاہر یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ امریکہ ماضی کے مقابلے میں انڈیا اور پاکستان کے تنازع میں زیادہ متحرک کردار ادا نہیں کرے گا۔‘

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر محمد شعیب بھی کچھ اس طرح کا خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ نے اس معاملے پر غیر جانبدار مؤقف اپنایا ہوا ہے اور ثالثی کی پیشکش کی ہے۔‘

امریکہ کی ہچکچاہٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس کی دو وجوہات ہیں: ’پہلی یہ کہ امریکہ ایک وقت میں یوکرین، ایران، غزہ، چین اور تجارتی معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ دوسری یہ کہ ٹرمپ پاکستان اور انڈیا کو ایک تاریخی تنازع قرار دے رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں امید ہے کہ کشیدگی کم ہونے سے پہلے کچھ لڑائی ضرور ہو گی۔‘

لیکن تمام ہی تجزیہ کاروں کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ بھلے ہی امریکہ پاکستان اور انڈیا میں زیادہ دلچسپی نہ لے رہا ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ واشنگٹن جنوبی ایشیا کے دو جوہری ممالک پر نظر نہ رکھ رہا ہو۔

کرسٹوفر کلیری کہتے ہیں کہ امریکی سیکریٹری روبیو فی الوقت بطور قومی سلامتی کے مشیر کے بھی کام کر رہے ہیں اور ’دونوں ممالک میں فون کر کے کشیدگی کو کم کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔‘

پروفیسر محمد شعیب بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’امریکہ فی الحال ہچکچاہٹ کا شکار ضرور نظر آ رہا ہے لیکن ان کی جانب سے فریقین سے رابطے کرنے کا بنیادی کام ضرور کیا جا رہا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر یہ تنازع مزید بڑھتا ہے تو یقیناً امریکی سرگرمیاں بھی بڑھیں گی۔

’میرا خیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان طاقت کے کنٹرولڈ استعمال سے کوئی مسئلہ نہیں مگر یہ دونوں ممالک کوئی خودکش راستہ اپناتے ہیں تو یقیناً امریکہ بھی فریقین سے رابطے بڑھا کر اس تنازع کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو بڑھائے گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.