ماہرین کی رائے ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کو جنگ کے دہانے سے ہٹانے میں پس پردہ امریکی ثالثوں، سفارتی بیک چینل رابطوں اور خطے کے بڑے کھلاڑیوں نے کلیدی کردار نبھایا۔
تنوی مدان کے مطابق امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو کی نو مئی کو پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو کی گئی فون کال ’شاید ایک اہم موڑ تھا‘یہ پاکستان اور انڈیا کے بیچ چار روزہ کشیدگی میں ایک ڈرامائی موڑ تھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ دونوں ملکوں میں ’فوری اور مکمل سیز فائر پر اتفاق ہو گیا ہے۔‘
ماہرین کی رائے ہے کہ مکمل جنگ کے دہانے پر کھڑی دو ایٹمی طاقتوں کو پیچھے ہٹانے میں پس پردہ امریکی ثالثی، سفارتی بیک چینل رابطوں اور خطے کے بڑے کھلاڑیوں نے کلیدی کردار نبھایا۔
تاہم سیز فائر معاہدے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد انڈیا اور پاکستان نے ایک دوسرے پر خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سیز فائر کتنا کمزور ہے۔
انڈیا نے پاکستان پر ’مسلسل خلاف ورزیوں‘ کا الزام لگایا جبکہ پاکستان نے سیز فائر پر عملدرآمد کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ اس کی افواج نے ’ذمہ داری اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔‘
سیز فائر کے اعلان سے قبل کئی لوگوں کو خدشہ تھا کہ انڈیا اور پاکستان دیگر اقدامات کے ساتھ ایک بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح افراد کے حملے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت ہوئی۔ انڈیا نے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں فضائی حملے کیے جو کئی روز تک جاری رہنے والی فضائی جھڑپوں اور گولہ باری کا سبب بنے۔ سنیچر کی صبح تک دونوں ملکوں نے ایئر بیسز پر میزائل حملوں کے دعوے کیے۔
تناؤ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے بھاری نقصان اور حریف کے حملے ناکام بنانے کے دعوے کر رہے تھے۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے منسلک تنوی مدان کے مطابق امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو کی نو مئی کو پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو کی گئی فون کال ’شاید ایک اہم موڑ تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں تاحال بین الاقوامی کھلاڑیوں کے کرداروں کے بارے میں بہت کچھ نہیں پتا۔ لیکن یہ واضح ہے کہ گذشتہ تین روز کے دوران کم از کم تین ممالک تناؤ میں کمی کے لیے سرگرم تھے: ظاہر ہے امریکہ مگر اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور سعودی عرب بھی تھے۔‘

پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پاکستانی میڈیا کو بتایا کہ سفارتکاری میں ’تین درجن ممالک‘ شامل تھے جن میں ترکی، سعودی عرب اور امریکہ شامل ہیں۔
مدان کا کہنا ہے کہ ’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کال پہلے کیوں نہیں کی گئی، ابتدا میں انڈین فضائی حملوں کے فوراً بعد جب پاکستان انڈیا کے نقصانات کا دعویٰ کر رہا تھا اور کشیدگی میں کمی کا موقع موجود تھا۔ شاید اس سے مزید کشیدگی کم ہو سکتی تھی۔‘
یہ پہلی بار نہیں جب پاکستان اور انڈیا کے بیچ بحران سے نمٹنے کے لیے امریکی ثالثی کام آئی ہو۔
سابق امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ انھیں 2019 کی کشیدگی کے دوران ایک انڈین ہم منصب نے نیند سے جگا کر بتایا تھا کہ انھیں خدشہ ہے پاکستان جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی تیاری کر رہا ہے۔
پاکستان میں سابق انڈین ہائی کمشنر اجے بساریہ نے بعد ازاں نہ صرف پومپیو کے دعوے کو رد کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ تنازع کے حل میں امریکی کردار اتنا بڑا نہیں تھا۔
لیکن سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ اس بار بحران کے حل میں امریکہ نے بلاشبہ اہم کردار نبھایا۔
بساریہ نے سنیچر کو بی بی سی کو بتایا کہ ’امریکہ سب سے اہم بیرونی کھلاڑی تھا۔ پچھلی بار پومپیو نے ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹالنے کا دعویٰ کیا۔ شاید وہ اسے بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے شاید بنیادی سفارتی کردار اپنایا ہوگا۔ شاید اسلام آباد پر دلی کی پوزیشن واضح کی ہو گی۔‘
مگر ابتدائی طور پر امریکہ اس تناؤ سے دور رہا۔
سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ اس بار بحران کے حل میں امریکہ نے بلاشبہ اہم کردار نبھایاجب تناؤ بڑھنے لگا تو جمعرات کو امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا کہ امریکہ ایسی جنگ میں مداخلت نہیں کرے گا جس سے ’بنیادی طور پر ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘
انھوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ ’ہم ان ممالک کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ بنیادی طور پر انڈیا کی پاکستان کے ساتھ لڑائی ہے۔۔۔ امریکہ انڈینز کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہتھیار ڈال دو۔ ہم پاکستانیوں کو بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہتھیار ڈال دو۔ اس لیے ہم اس معاملے کو سفارتی چینلز سے ہی دیکھیں گے۔‘
اس دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’میں دونوں کو اچھی طرح سے جانتا ہوں (پاکستان اور انڈیا کے رہنماؤں کو) اور میں چاہتا ہوں کہ وہ اس بارے میں کوئی راستہ نکالیں۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ رک جائیں اور مجھے امید ہے کہ وہ اب رک جائیں گے۔‘
لاہور میں مقیم دفاعی تجزیہ کار اعجاز حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ کئی مرتبہ کی کشیدگی میں یہی فرق تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اعجاز حیدر نے کہا کہ ’امریکہ کا کردار ماضی کا تسلسل تھا لیکن اس میں ایک اہم فرق تھا، اس مرتبہ وہ خود باقاعدہ طور پر اس میں پارٹی نہیں بنے۔ انھوں نے بحران کو ہوتے ہوئے دیکھا اور فوری طور پر اس میں نہیں کودے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ یہ بات کس طرف جا رہی ہے صرف اس وقت ہی وہ صورتحال کو سنبھالنے کے لیے آئے۔‘
پاکستان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا اور صورتحال گھمبیر ہوتی گئی پاکستان نے ’دہرے سگنلز‘ دینا شروع کیے، عسکری کارروائی کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ ہم نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) کا اجلاس بلا رہے ہیں۔ یہ اپنی جوہری صلاحیت کی یاددہانی تھی۔
پاکستان میں این سی اے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا کنٹرول سنبھالتی اور ان کے بارے میں آپریشنل فیصلے لیتی ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے فیصلہ کیا کہ وہ مداخلت کریں گے۔

کارنیگی اینڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینیئر فیلو ایشلی جے ٹیلس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’امریکہ کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔ سیکریٹری روبیو کی کوششوں کے بغیر یہ نتائج نہ نکلتے۔‘
جس چیز نے اس سب کے دوران مدد کی وہ واشنگٹن کے دلی کے ساتھ گہرے ہوتے تعلقات بھی ہیں۔
ٹرمپ کے ساتھ انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ذاتی تعلقات اچھے ہیں اور امریکہ کے وسیع تر سٹریٹیجک اور معاشی مفادات نے امریکی انتظامیہ کو وہ سفارتی ماحول پیدا کرنے کا موقع دیا جس کے باعث دونوں جوہری طاقتیں سیزفائر پر رضامند ہوئیں۔
انڈین سفارتکاروں کے مطابق اس مرتبہ بھی تین طریقوں سے سیزفائر کی کوششیں کی گئیں جیسے سنہ 2019 میں پلوامہ بالاکوٹ کے واقعات کے بعد کیا گیا تھا۔
- امریکہ اور برطانیہ کا دباؤ
- سعودی عرب کی جانب سے ثالثی، سعودی جونیئر وزیرِ خارجہ کی دونوں ممالک کا دورہ
- دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان براہِ راست رابطے
امریکہ کی جانب سے آغاز میں ہچکچاہٹ کے بعد بالآخر مداخلت کی گئی اور پھر یہ دونوں ممالک کے درمیان سب سے اہم ثالث بن کر ابھرا۔
چاہے امریکہ کے کردار کو اس دوران اس کے اپنے اہلکار بڑھا چڑھا کر پیش کریں یا اسے دلی اور اسلام آباد میں اس طرح نہ مانا جائے لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکہ کا بحران میں ثالثی کا کردار اہماور پیچیدہ ہے۔
سیزفائر کی پائیداری کے حوالے سے خدشات ضرور تھے کیوں کہ سنیچر کو انڈین میڈیا کی جانب سے رپورٹ کیا گیا کہ دراصل یہ سیزفائر دونوں ممالک کے سینیئر فوجی افسران کی جانب سے کیا گیا، نہ کہ امریکہ کی جانب سے۔
خارجی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ سیزفائر کمزور ہی ہو گا کیونکہ یہ بہت جلدی کیا گیا ہے اور بہت زیادہ تناؤ کے بیچ ہوا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے برعکس انڈیا میں اسے مختلف انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔‘
’کیونکہ یہ جلدی میں کیا گیا ہے اس لیے اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس میں وہ گارنٹیز اور یقین دہانیاں موجود نہ ہوں اور جو ایسے تناؤ کے لمحات میں چاہیے ہوتی ہیں۔‘