تجارتی جنگ میں 90 دن کا وقفہ، محصولات میں کمی اور ’بدلتے لہجے‘: امریکہ اور چین کے مذاکرات جن پر پوری دنیا کی نظریں ہیں

دونوں ممالک کے حالیہ اعلان نے سٹاک مارکیٹ پر مثبت اثرات ڈالے ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ تجارتی جنگ ٹھنڈی پڑ رہی ہے۔
چین
Getty Images
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے میں چینی دلچسپی کو دیکھ کر وہ مثبت طور پر حیران ہوئے ہیں

چین اور امریکہ کے درمیان تجاری جنگ کے بعد ایک اہم پیشرفت میں دونوں ممالک نے ٹیرف یا ٹیکس کو کم کرنے کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت 90 دن کے لیے ان محصولات میں کمی کی جائے گی۔

امریکی سیکرٹری برائے خزانہ سکاٹ بسینٹ نے اعلان کیا ہے کہ دنوں ممالک 90 دن کے لیے محصولات کو ایک سو پندرہ فیصد پر لے آئیں گے۔

یہ اعلان سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد کیا گیا حو جنوری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر محصولات میں اضافہ کرنے کے بعد دونوں ممالک کے بیچ پہلی باضابطہ بات چیت تھی۔

ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر 145 فیصد ٹیکس لگایا تھا جس کا جواب چین نے امریکی مصنوعات پر 125 فیصد جوابی ٹیکس لگا کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ اس فیصلے نے عالمی منڈیوں میں ہلچل مچا دی تھی اور معاشی بحران کے خدشات نے جنم لیا تھا۔

حالیہ پیشرفت کے بعد امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر عائد ٹیکس میں 30 فیصد جبکہ چین کی جانب سے امریکی مصنوعات پر 10 فیصد تک کمی کی جائے گی جو نوے دن کے لیے ہے۔

امریکہ کی جانب سے ان مذاکرات کے دوران بیجنگ پر اس بات کے لیے بھی دباؤ ڈالا گیا کہ فینٹانل نامی دوا کی غیر قانونی تجارت روکنے کے لیے کوششیں کی جائیں۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے میں چینی دلچسپی کو دیکھ کر وہ مثبت طور پر حیران ہوئے ہیں۔

چین
Getty Images

امریکی سیکرٹری کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک متوازن تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں اور دونوں نے اپنے قومی مفادات کی بہت اچھے طریقے سے نمائندگی کی۔ دونوں ممالک کے حالیہ اعلان نے سٹاک مارکیٹ پر مثبت اثرات ڈالے ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ تجارتی جنگ ٹھنڈی پڑ رہی ہے۔

ایسے میں یہ سوال اتھ رہا ہے کہ کئی ہفتوں تک تندوتیز بیانات کے بعد اس ہفتے یہ دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر اکھٹے کیسے بیٹھے؟

یاد رہے کہ تمام تر اعلانات اور جوابی اقدامات کے باوجود دونوں اطراف سے ایسے اشارے دیے جاتے رہے کہ وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں تھا کہ پہل کون کرے گا۔

سنگاپور میں کام کرنے والے ایک سابق امریکی اہلکار سٹیفن اولسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔‘

ان کی رائے میں یہ مذاکرات اب اس لیے ہو رہے ہیں کیوں کہ دونوں ممالک سمجھتے ہیں کہ انھوں نے پسپائی نہیں دکھائی اور اسی لیے اب آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

تاہم چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بدھ کو کہا تھا کہ یہ بات چیت امریکی درخواست پر ہو رہی ہے۔ چینی وزارت تجارت نے کہا کہ وہ امریکی کاروبار اور صارفین کی وجہ سے امریکی درخواست کا جواب دے رہی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے دوسری جانب کہا ہے کہ چینی حکام معیشت پر منفی اثرات کی وجہ سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔

ٹرمپ نے بدھ کے دن کہا تھا کہ ’وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پہل کی؟ ان کو چاہیے کہ واپس جا کر اپنی فائلوں کا مطالعہ کریں۔‘

جیسے جیسے بات چیت کا وقت قریب آتا گیا، ٹرمپ کا لہجہ بدلتا گیا۔ جمعرات کو انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب کھیل کھیل سکتے ہیں کہ کس نے پہلی کال کی، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اس کمرے میں کیا ہوتا ہے، وہی اصل چیز ہے۔‘

ان مذاکرات کا وقت بیجنگ کے لیے بھی اہم ہے کیوں کہ چینی صدر روس کا دورہ کر رہے ہیں جہاں دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی کے خلاف فتح کے اسی سال مکمل ہونے کی تقریبات کا انعقاد ہوا۔

شی جن پنگ جنوب کے دیگر سربراہان مملکت کے ساتھ کھڑے ہوئے جو ٹرمپ اور امریکہ کے لیے ایک یاددہانی تھی کہ چین کے پاس اور شراکت دار موجود ہیں اور یہ بھی کہ وہ خود کو ایک متبادل عالمی تجارتی رہنما کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

یوں چین نے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے پہلے ہی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔

دباؤ

ٹرمپ نے کہا تھا کہ اضافی ٹیکس امریکہ کو مضبوط بنائے گا جبکہ چین نے آخر تک لڑنے کا اعلان کیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی نقصان اٹھا رہے ہیں۔

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق چینی فیکٹریوں میں کام متاثر ہوا اور اپریل میں مینوفیکچرنگ دسمبر 2023 کے بعد سب سے کم سطح پر تھی۔ بی بی سی کے تجزیے کے مطابق چینی برآمدات بھی متاثر ہوئی ہیں کیوں کہ تیار شدہ مال گوداموں میں پڑا ہے۔

برٹ ہوفمین سنگاپور کی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں چین کو احساس ہو گیا ہے کہ معاہدہ کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے۔ اسی لیے انھوں نے سوچا کہ ہمیں بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔‘

دوسری جانب تین سال میں پہلی بار سکڑنے والی امریکی معیشت بھی غیر یقینی کا شکار ہے اور چینی مصنوعات پر انحصار کرنے والے شعبے خصوصی طور پر پریشان ہیں۔ لاس اینجیلیس میں کھلونوں کی ایک کمپنی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں تو لگ رہا تھا کہ رسد ختم ہو جائے گی۔‘

اس بات کا اعتراف تو ٹرمپ نے خود بھی کیا کہ امریکی صارفین کو چوٹ پہنچے گی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’امریکی بچوں کو شاید 30 کے بجائے دو گڑیا لینا ہوں اور شاید ان دو کی قیمت بھی زیادہ ہو۔‘

چین

افراط زر یعنی مہنگائی اور ممکنہ معاشی بحران کے خوف کے بیچ ٹرمپ کی عوامی ریٹنگ کم ہوئی اور 60 فیصد امریکی شہریوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ان کے صدر محصولات ہر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔

اولسن کے مطابق دونوں ملکوں پر دباؤ ہے اور وہ خدشات میں گھری منڈیوں، کاروبار اور مقامی آبادیوں کو کسی قسم کی یقین دہانی کروانا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق اس ملاقات اور بات چیت کے دور نے یہی کام کیا ہے۔

اب کیا ہو گا؟

ہوفمین کا کہنا ہے کہ اس بات کے امکانات ہیں کہ اگر اس دور کے دوران مثبت رویہ سامنے آیا تو بات آگے بڑھے گی جیسا کہ نظر آ رہا ہے۔

مذاکرات کا عمل مہینوں تک چل سکتا ہے جیسا کہ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ہوا تھا۔ 2020 میں امریکہ اور چین کے درمیان محصولات بڑھانے کے عمل کے بعد دونوں ممالک نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت چند ٹیکس معطل یا کم کر دیے گئے تھے۔

اولسن کا ماننا ہے کہ اس بار ممکن ہے کہ دونوں ممالک زیادہ بڑے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں جن میں فنٹانل کا مسئلہ بھی شامل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں وقت لگے گا۔ اولسن کہتے ہیں کہ ’امریکہ اور چین کے تعلقات میں دراڑ پیدا کرنے والے عوامل جلد حل ہونے والے نہیں۔‘

ان کے مطابق حالیہ بات چیت میں کم از کم اتنا ہو گا کہ کھل کر مذاکرات ہوں گے اور اس عمل کو جاری رکھنے کی خواہش کا اعادہ کیا جائے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.