بنگلہ دیش کی انٹرنیشنل کرائم ٹریبیونل کے پراسکیوٹر کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے گزشتہ سال بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج مظاہرین کے خلاف خونی کریک ڈاؤن کی منصوبہ بندی کی تھی۔اقوام متحدہ کے مطابق جولائی 2024 میں شیخ حسینہ کی حکومت نے حزبِ اختلاف کو خاموش کرانے کے لیے ایک پرتشدد مہم کا آغاز کیا جس میں 1,400 تک افراد ہلاک ہوئے۔شیخ حسینہ اس وقت انڈیا میں خود ساختہ جلاوطنی گزار رہی ہیں، جہاں وہ طلبا کے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہو کر پہنچ گئی تھیں۔
حسینہ واجد پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے الزامات ہیں۔
بنگلہ دیش کی انٹرنیشنل کرائم ٹریبیونل کے چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے صحافیوں کو بتایا کہ ’تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ شیخ حسینہ کم از کم پانچ الزامات میں مجرم پائی گئی ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’حسینہ پر جولائی کے مظاہروں کے قتل میں معاونت، اکسانے، شراکت، سہولت فراہم کرنے، سازش کرنے، اور اجتماعی قتل کو روکنے میں ناکامی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔‘تاج الاسلام نے کہا کہ استغاثہ نے اپنی ابتدائی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کے لیے جمع کرا دی ہے، جہاں شیخ حسینہ اور ان کے دو قریبی ساتھیوں، سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال اور سابق پولیس چیف عبداللہ المامون، پر مقدمہ چلایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ’شیخ حسینہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اپنی جماعت کے حامی نیم سرکاری دستوں کو براہ راست احکامات دیے کہ وہ لوگوں کو قتل کریں، انہیں معذور کریں، لاشیں اور یہاں تک کہ زندہ انسانوں کو بھی جلا دیں۔‘
حسینہ واجد پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے الزامات ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
آئی سی ٹی عدالت 2009 میں خود شیخ حسینہ نے اس مقصد کے لیے قائم کی تھی کہ 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران پاکستانی فوج کے مبینہ جرائم کی تفتیش کی جا سکے۔
تحقیقاتی اداروں نے اپنی تفتیش کے دوران ویڈیو فوٹیج، آڈیو کلپس، شیخ حسینہ کی فون کالز، ہیلی کاپٹر اور ڈرون کی نقل و حرکت کے ریکارڈ، اور کریک ڈاؤن کے متاثرین کے بیانات اکٹھے کیے ہیں۔ہفتہ کے روز بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے شیخ حسینہ کی جماعت ’عوامی لیگ‘ پر پابندی عائد کر دی، جو کہ مقدمے کے فیصلے تک برقرار رہے گی۔حکومت کے مشیر برائے قانون و انصاف محمد نظرالاسلام نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ فیصلہ ملک کی ’خودمختاری اور سلامتی‘ کے ساتھ ساتھ مظاہرین، مدعیوں اور گواہوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا۔بنگلہ دیش نے انڈیا سے شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست کی ہے، لیکن تاحال انڈیا سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔