جب دنیا کے تقریباً تمام ممالک پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع میں غیر جانبدار نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے تو اسرائیل کھل کر انڈیا کے ساتھ کیوں کھڑا ہوا؟
اسرائیلی اور انڈین وزرائے اعظم نتن یاہو اور مودیگذشتہ دنوں جب انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے کے علاقوں پر میزائلوں اور ڈرونز سے حملہ کر رہے تھے تو اسرائیل واحد ملک تھا جو کھل کر انڈیا کی حمایت میں کھڑا تھا۔
اس دوران پاکستان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انڈیا پاکستان پر اسرائیلی ڈرونز سے حملہ کر رہا ہے۔ پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے کے دو دن بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے پی ایم مودی کو فون کیا اور کہا کہ مجرموں کو سزا ملنی چاہیے۔
اس کے علاوہ انڈیا میں اسرائیلی سفیر نے کہا کہ انڈیا کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔ اسرائیل اس وقت کھل کر انڈیا کی حمایت کر رہا تھا جب وہ خود ایک بڑی جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ روس انڈیا کا تاریخی ساتھی ہے، لیکن اس نے پورے معاملے میں اسرائیل کی طرح آواز نہیں اٹھائی۔
انڈیا نے پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کی تو روس نے دونوں ممالک سے امن کی اپیل کی۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ حیرت کا اظہار کر رہے تھے کہ سنہ 1971 میں پاکستان کے ساتھ جنگ میں سوویت یونین کا جو مؤقف تھا اب وہ روس کا موقف نہیں رہا۔ ظاہر ہے اس کے بعد دنیا بہت بدل چکی ہے۔
دوسری جانب سنہ 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد انڈیا کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے وزیر اعظم تھے۔
جب دنیا کے تقریباً تمام ممالک پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع میں غیر جانبدار نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے تو اسرائیل کھل کر انڈیا کے ساتھ کیوں کھڑا ہوا؟
بی جے پی کے دور حکومت میں انڈیا اور اسرائیل کے درمیان قربتیں بڑھی ہیںاسرائیل اور انڈیا کی قربت کی وجہ کیا ہے؟
سعودی عرب میں انڈیا کے سابق سفیر تلمیذ احمد کا کہنا ہے کہ انڈیا میں اس وقت جو پارٹی اقتدار میں ہے اس کی اسرائیل کے ساتھ نظریاتی قربت ہے۔
تلمیذ احمد کہتے ہیں: ’اسرائیل اور انڈیا کا پرانا رشتہ ہے۔ اسرائیل میں ہندوتوا اور صیہونی تحریک کے درمیان نظریاتی مماثلت دیکھی جاتی ہے۔ اسرائیل کے انڈیا کے ساتھ خاص تعلقات ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل انڈیا کو اپنے قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیلی سفیر نے کئی بار عوامی سطح پر کہا ہے کہ انڈیا جو کچھ کر رہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ انڈیا اور اسرائیل کے درمیان دفاعی تعاون میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘
پاکستان کے خلاف اسرائیلی ڈرونز کے مبینہ استعمال کے حوالے سے مقامی انگریزی نیوز ویب سائٹ ٹائمز آف اسرائیل نے لکھا کہ ’یہ نہ صرف سٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے بلکہ انڈیا اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے سٹریٹجک تعلقات کی گہرائی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا اور اسرائیل کے تعلقات پچھلی چند دہائیوں میں پختہ ہوئے ہیں۔‘
یروشلم انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجی اینڈ سکیورٹی کا سینیئر فیلو ڈاکٹر اوشرت برواڈکر نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ ’انڈیا کی سٹریٹجک حکمت عملی میں اسرائیل ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ انڈیا کو اسرائیل سے خاص طور پر پاکستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کافی مدد مل رہی ہے۔‘
اوشرت برواڈکر نے کہا: ’انڈیا اسرائیل ایرو سپیس اِنڈسٹریز سے دفاعی نظام خریدنے میں سب سے آگے ہے۔ اسرائیل کے جدید ڈرونز کی وجہ سے انڈیا کی نگرانی کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل کے نقطہ نظر سے انڈیا نہ صرف ایک اہم مارکیٹ ہے بلکہ مشترکہ خدشات کے ساتھ ایک سٹریٹجک پارٹنر بھی ہے۔‘
ڈاکٹر برواڈکر کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل اور انڈیا کی دوستی کے حوالے سے ایک طویل عرصے سے ایک بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے کہ ہندو اور یہودی مل کر اسلام کو مٹانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے اخبار کو بتایا: ’جب حماس نے 7 اکتوبر سنہ 2023 کو حملہ کیا تو کئی یورپی ممالک اور روایتی اتحادیوں نے ہتھیاروں کی فراہمی میں تاخیر کی جبکہ انڈیا کھل کر ہمارے حق میں تھا۔ انڈیا نے سفارتی خطرات اور بین الاقوامی تنقید کے باوجود ایسا کیا۔‘
پاکستان میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے عام ہیںپاکستان اور اسرائیل
پاکستان نے ابھی تک اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کیا ہے۔
ایسے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ پاکستان میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے باقاعدگی سے ہوتے رہتے ہیں۔
انڈیا 15 اگست 1947 کو ایک آزاد ملک بنا اور اسرائیل 14 مئی 1948 کو۔
اس وقت انڈیا نے بھی اسرائیل کے قیام کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو فلسطین کے بغیر اسرائیل کے قیام کے خلاف تھے۔ حالانکہ انڈیا نے نہرو کے زمانے میں ہی اسرائیل کو 1950 میں تسلیم کر لیا لیکن سفارتی تعلقات قائم کرنے میں 42 سال لگے اور یہ کام کانگریس کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے 1992 میں کیا۔
انڈیا پہلا غیر عرب ملک تھا جس نے سنہ 1988 میں فلسطین کو تسلیم کیا۔ دوسری طرف ایک غیر عرب ملک کے طور پر انڈیا طویل عرصے سے اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط آواز بنا رہا۔
سفارتی علیحدگی کے خاتمے کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات بہت گہرے ہو گئے ہیں۔ اگرچہ پی وی نرسمہا راؤ نے سفارتی جلاوطنی کا خاتمہ کیا لیکن یہ بی جے پی حکومت تھی جس نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔
کسی بھی اسرائیلی وزیر اعظم کا انڈیا کا پہلا دورہ سنہ 2003 میں اٹل بہاری واجپائی کی بی جے پی حکومت کے دوران ہوا تھا۔ اس وقت ایریل شیرون انڈیا آئے۔ نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے انڈین وزیر اعظم بنے۔
سنہ 2008 میں انڈین سیکریٹری دفاع وجے سنگھ نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس دورے کے حوالے سے اسرائیل کے لبرل سمجھے جانے والے اخبار ہیرٹز نے دونوں ممالک کے تعلقات کا جائزہ پیش کیا تھا۔
مودی کے دور میں انڈیا کے عرب ممالک سے تعلقات میں بھی بہتری آئی ہےکشمیر پر عرب ممالک کا موقف
اس اخبار نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ ’انڈیا اور اسرائیل کے تعلقات اس وقت مضبوط ہوتے ہیں جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان تناؤ بڑھتا ہے یا انڈین سیاست میں دائیں بازو کا عروج ہوتا ہے یا اس کی قیادت میں مسلم مخالف جذبات میں اضافہ ہوتا ہے۔‘
اسرائیلی اخبار نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ ’جب 1999 میں کارگل کے مقام پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان جھڑپ ہوئی تو انڈیا نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات مضبوط کر لیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت اسرائیل کی وزارت دفاع کے ڈائریکٹر جنرل آموس یارون ہتھیاروں کی ہنگامی کھیپ لے کر انڈیا پہنچے تھے۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود انڈیا کو مسئلہ کشمیر پر عرب لیگ کی حمایت نہیں ملی۔ عرب لیگ اس معاملے میں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑی رہی۔
1978 میں اسرائیل نے مصر اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے۔
اس کے تحت بعض عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے نے انڈیا کو بھی اسرائیل کے تئیں اپنی پالیسی تبدیل کرنے میں مدد کی۔
معروف سفارت کار اور انڈیا کے سابق سکریٹری خارجہ جے این ڈکشِت نے اپنی کتاب ’مائی ساؤتھ بلاک ایئرز: میموریز آف اے فارن سیکریٹری‘ میں لکھا ہے کہ ’عرب ممالک کے بعض سفیروں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے فیصلے پر اعتراض کیا اور کہا کہ انڈیا کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اعتراض کرنے والوں کو سیدھا جواب دیں گے اور جھکیں گے نہیں۔‘

مودی کا دورۂ اسرائیل
جے این ڈکشِت نے لکھا ہے کہ ’میں نے کہا کہ انڈیا نے بین الاقوامی مسائل پر کئی اسلامی ممالک کی حمایت کی لیکن کشمیر کے معاملے میں ہمیں حمایت نہیں ملی۔‘
’میں نے یہ بھی کہا کہ انڈیا اپنی خودمختاری میں کسی قسم کی مداخلت کے سامنے نہیں جھکے گا اور اپنے مفادات کے لیے کام کرتا رہے گا۔ عرب دنیا کے میڈیا میں انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کچھ لوگوں نے انڈیا کے اس فیصلے پر سوالات اٹھائے لیکن اس سے انڈیا اور عرب ممالک کے تعلقات متاثر نہیں ہوئے۔‘
آزادی کے بعد سے انڈیا کے مشرق وسطیٰ اور عرب مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات بہت گہرے رہے ہیں لیکن کشمیر کے معاملے پر ان ممالک کا موقف پاکستان کے حق میں رہا ہے۔
1969 میں مراکش کے دارالحکومت رباط میں اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس ہوا اور اس میں انڈیا کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ لیکن پاکستان کے احتجاج کے بعد انڈیا سے دعوت نامہ واپس لے لیا گیا۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا نے مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک کے پاکستان نواز رویے کے پیش نظر اسرائیل کو گلے لگایا۔ انڈیا کی یہ دلیل بھی تھی کہ اسرائیل ایک جمہوری ملک ہے۔
اب انڈیا میں نریندر مودی کی اکثریت والی حکومت ہے اور اسرائیل کے حوالے سے اسے کسی بھی سطح پر کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔
جولائی سنہ 2017 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا اور یہ کسی بھی انڈین وزیر اعظم کا اسرائیل کا پہلا دورہ تھا۔
اس سے قبل انڈیا سے کوئی اعلیٰ سطح کا لیڈر اسرائیل جاتا تھا تو وہ فلسطینی سرزمین پر ضرور جاتا تھا لیکن مودی اپنے دورے میں فلسطینی علاقوں میں نہیں گئے اور نہ ہی اس دورے میں ایک بار بھی فلسطین کا نام لیا۔