پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز 24 نیوز پر ٹی وی شو ’کیا ڈرامہ ہے‘ کو تین سال ہونے کو ہیں اور اب نہ صرف اس شو کو ناظرین نے پذیرائی دی بلکہ اس شو میں شامل شرکا جو ٹی وی پر نشر کیے جانے والے مختلف ڈراموں پر تنقیدی تبصرے اور جائزہ پیش کرتے ہیں ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔

’کیا ڈرامہ ہے‘ شاید یہ فقرہ آپ نے کبھی نہ کبھی کسی بھی ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے پر اپنی رائے دیتے کہا ہو گا مگر اس فقرے کی پاکستان میں اس وقت زیادہ مقبولیت ہوئی جب ڈراموں پر تنقیدی تبصرے اور رائے پر مبنی ایک شو اسی نام یعنی ’کیا ڈرامہ ہے‘ کے نام سے شروع ہوا۔
پاکستان کے نجی ٹی وی چینل 24 نیوز پر اس ٹی وی شو کو تین سال ہونے والے ہیں اور اب نہ صرف اس شو کو ناظرین نے پذیرائی دی بلکہ اس شو میں شامل شرکا جو ٹی وی پر نشر کیے جانے والے مختلف ڈراموں پر تنقیدی تبصرے اور جائزہ پیش کرتے ہیں، ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔
اس شو میں پاکستان ٹی وی انڈسٹری کی معروف اداکارہ مرینہ خان، عتیقہ اوڈھو اور نادیہ خان پاکستانی ٹی وی چینلز پر نشر کیے جانے والے ڈراموں کی کہانی، کرداروں، مکالموں اور سکرین پلے سمیت متعدد چیزوں پر اپنی تنقیدی رائے اور تبصرے پیش کرتی ہیں جبکہ اس شو کے میزبان مکرم کلیم ہیں۔
’کیا ڈرامہ ہے‘ شو دسمبر 2022 میں شروع ہوا تھا۔ اس شو کے شرکا نہ صرف ڈرامہ انڈسٹری کا حصہ رہے ہیں بلکہ اس وقت اس صنعت میں متحرک انداز میں کام بھی کر رہے ہیں۔

مرینہ خان نے اس متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدا میں پاکستانی ٹی وی انڈسٹری اس شو کے بہت خلاف تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ان کو لگ رہا تھا کہ ہم شاید صرف تنقید کریں گے یا انڈسٹری کے رازوں سے پردہ اٹھائیں گے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ اب شو کے تیسرے سال میں آ کر لگتا ہے کہ انڈسٹری نے شو کو قبول کرنا شروع کیا اور یہ ان کے لیے گیم چینجر ہے۔
’اس بات پر تنقید ہوئی کہ اداکار کیسے ریویو کر سکتا ہے‘

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی سینیئر اداکارہ اور پہلے دن سے اس شو سے منسلک عتیقہ اوڈھو نے اس متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’شروع شروع میں ان پر بہت پریشر آتا تھا۔ انڈسٹری کے لوگ بہت تنقید کر رہے تھے کہ اداکار کیسے دوسرے اداکاروں کو ریویو کر رہے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ یہ ٹی وی پر آنے والا وہ واحد شو ہے جس میں ورکنگ ایکٹرز یا ڈائریکٹرز ٹی وی ڈراموں سے متعلق اپنی رائے دے رہے ہیں۔
عتیقہ اوڈھو کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اسی تنقید کے باعث کافی لوگوں نے شو میں آنے سے یا تو انکار کر دیا یا چھوڑ دیا۔‘
مرینہ خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ انھیں بھی کافی لوگوں نے شو پر جانے سے منع کیا اور چونکہ اس وقت ان کا ہدایتکاری میں تیار ڈرامہ ’دستک‘ آن ائیر ہے، تو انھیں اس بنیاد پر بھی کافی تنقید ملی۔
اس بات پر مرینہ خان کہتی ہیں کہ ’اگر ہم کسی ڈرامے سے منسلک ہوتے ہیں تو ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جیسے باقی لوگوں کو اپنے دفاع میں کچھ کہنے کا موقع نہیں ملتا تو ویسے ہمیں بھی نہیں ملتا۔‘
’میں تو چھینکتی بھی ہوں تو وائرل ہو جاتی ہوں‘

اس شو کی تیسری پینلسٹ اور خبروں میں سب سے زیادہ رہنے والی اداکارہ نادیہ خان کہتی ہیں کہ وہ ہر ڈرامے کی قسط کو کم از کم دو مرتبہ دیکھتی ہیں اور اس کے علاوہ گاڑی میں سنتی بھی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جب آپ ایک انڈسٹری کے ساتھ اتنے برسوں سے جڑے رہے ہوں تو آپ کو اس کام کی سمجھ آجاتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اچھا کام کیا بھی اور ایوارڈز بھی جیتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہے ہم کیا بات کر رہے ہیں۔ جو بھی تکنیکی مسائل ہیں ہمیں ان کا اندازہ ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بڑا متوازن جائزہ اور تبصرہ پیش کرتے ہیں۔‘
نادیہ خان کا مزید کہنا ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ شو کی وجہ سے انڈسٹری انھیں مزید سنجیدگی سے لینے لگی۔
’اب جتنی عزت سے چینلز اور پروڈکشن ہاؤسز کے مالکان مجھ سے ملتے ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اب ہر تقریب میں نہ صرف مدعو کیا جاتا ہے بلکہ بار بار کالز کر کے میری شرکت کو یقینی بھی بناتے ہیں۔ اس عزت کا مطلب ہے کہ انھیں ہمارا کام پسند آ رہا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ نہ صرف انڈسٹری بلکہ عوام بھی اس شو کو بہت پسند کر رہے ہیں اور وہ اس شو کے نشر ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
جب ’کیا ڈرامہ ہے‘ شو کا آغاز ہوا تھا تو اس وقت ہونے والی تنقید کے ایک بڑے حصہ کا سامنا نادیہ خان کو کرنا پڑا تھا۔
عتیقہ اوڈھو اور نادیہ خان اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اس وقت لوگ نادیہ کو ٹارگٹ کر رہے تھے اور ان کی ذات کو لے کر ان پر حملے کر رہے تھے۔‘
نادیہ خان اس بارے میں کہتی ہیں کہ ’میں تو چھینکتی بھی ہوں تو وائرل ہو جاتی ہوں۔ میں کلک بیٹ کے لیے بہترین ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں جو محسوس کرتی ہوں کہہ دیتی ہوں۔ اب اگر کوئی بلاگر اس کا کلپ اٹھا کر اسے توڑ مروڑ کے پیش کرے تو وہ اس کا مسئلہ ہے کیونکہ انھیں ویوز چاہیے۔‘
گذشتہ دنوں میں نادیہ خان نے ہانیہ عامر پر جو تبصرے کیے اس پر بھی انھیں سخت تنقید اور ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

عتیقہ اوڈھو اس شو میں پیش کیے جانے والے تبصروں کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’ہم بالکل ذاتی باتوں پر نہیں جاتے اور صرف پیشہ وارانہ کام پر تنقیدی تبصرے کرتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک اداکار لاکھوں لوگوں کے لیے کام کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے کام پر کسی بھی قسم کی تنقید نہیں برداشت کر سکتا تو وہ غلط شعبے میں ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہماری دوستیاں ہیں انڈسٹری میں تو ہم پہلے ہی معافیاں مانگ لیتے ہیں۔ ہمارا اس کام کے ساتھ مخلص ہونا ضروری ہے۔ ہماری نیت ٹی وی پر نشر کیے جانے والے مواد اور بیانیے کو بہتر سے بہتر کرنا ہے۔‘
’کیا ڈرامہ ہے‘ پروگرام کے میزبان مکرم کلیم اس شو پر ہونے والی تنقید کے جواب میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ جس طرح کرکٹرز، سیاستدان اور ماہر صحت اپنی فیلڈ پر تبصرہ کرتے ہیں، ویسے ہی اداکار بھی کر سکتے ہیں۔
مکرم نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کے چینل نے جب ان سے انٹرٹینمنٹ شو کرنے کا کہا تو پہلا خیال انٹرویوز کا تھا لیکن مکرم نے ریویو شو کی تجویز دی کیونکہ انھیں لگا کہ اداکار کام نہ ملنے کے ڈر سے انٹرویوز میں کھل کر بات نہیں کرتے۔‘
وہ شو میں شامل شرکا کے انتخاب پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پینلسٹس کا انتخاب کرتے ہوئے یہ خیال رکھا گیا کہ ان کا تجربہ کم از کم تین دہائیوں کا ہو۔ ساتھ ہی ان کے پاس ہدایت کاری یا پروڈکشن کا تجربہ بھی ہو۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’شو میں شریک ہر پینلسٹ کا تین مہینے کا کانٹریکٹ ہوتا ہے جس کے بعد وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ شو کو مزید جاری رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔‘
اس شو میں تنقیدی جائزے یا تبصروں کے لیے کس بنیاد پر ڈراموں کا انتخاب کیا جاتا ہے، اس بارے میں بات کرتے ہوئے اس شو کے میزبان مکرم کلیم نے بتایا کہ ’جہاں تک ڈراموں کے انتخاب کی بات ہے جنھیں ریویو کیا جاتا ہے، اس کا فیصلہ چینل کی ٹیم کرتی ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’چار ڈراموں کا انتخاب عموماً ان کی مقبولیت اور ویوز کی بنیاد پر کیا جاتا ہے یا جب کوئی نیا ڈرامہ آیا ہو جبکہ ایک ڈرامہ کو پینلسٹس کے کرٹیکل اکلیم کی بنیاد پر سلیکٹ کیا جاتا ہے۔‘
واضح رہے کہ اب تک اس شو میں ٹی وی چینلز پر صرف آٹھ بجے نشر ہونے والے ڈرامے ریویو ہوئے ہیں۔
مکرم کا مزید کہنا تھا کہ کیونکہ ایسا شو پہلی مرتبہ پیش کیا جا رہا تھا اور ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ پینل پر جو اداکار آئیں گے وہ کھل کر بات کریں گے یا نہیں۔
وہ کہتے ہیں ہم نے ڈراموں کو مقبولیت، کے علاوہ دیگر شعبوں میں درجہ بندی کرنے کے لیے نمبرز بھی متعارف کروائے تاکہ ’نہ صرف پینلسٹس کی ریٹنگ بلکہ پبلک پولنگ کا بھی ایک ڈیٹا بننا شروع ہو۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’شو کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں ریکارڈنگ سے قبل یہ نہیں پتا ہوتا کہ کون کیا کہنے والا ہے اور نہ ہی کسی ناقد پر شو کی طرف سے ایسا کوئی دباؤ ہے۔‘