پی ایس ایل 10 کا فائنل: لاہور میں مقابلہ شاہین آفریدی کے ’عزم‘ اور سعود شکیل کے ’تحمل‘ کا ہے

لاہور کا کراؤڈ اور ہوم گراؤنڈ اگر قلندرز کے لئے کسی فائدے کا باعث ہے تو کوئٹہ کی خوبی سعود شکیل کا 'جارحانہ تحمل' اور نوجوان کھلاڑیوں کی 'بھوک' ہے

گو پی ایس ایل پاکستان کا مقبول و منافع بخش برانڈ ہے مگر اس کا حالیہ سیزن جس خاموشی سے نظریں جھکائے ایک نئی ڈگر پہ چلا، اس سے یہ واضح ہوا کہ پاکستانی کرکٹ لیگ اب انڈین پریمیئر لیگ کے متوازی چلتی اپنی نئی راہ سے شناسائی کھوج رہی تھی۔

کئی روز پہلے اس ’خاموشی‘ کا توڑ بتلاتے ہوئے، پاکستان کے نئے ٹی ٹونٹی کپتان سلمان آغا نے کہا تھا کہ پی ایس ایل برانڈ کی تقویت کے لیے اب نوجوان مقامی کھلاڑیوں کو ابھر کر سامنے آنا ہو گا کہ جب تک یہ لیگ اپنی نئی لوکل سٹار پاور پیدا نہیں کرے گی، تب تک شائقین کو واپس کھینچ لانا دشوار رہے گا۔

دس سال پہلے جب پاکستان نے فرنچائز کرکٹ مارکیٹ میں اپنی یہ پراڈکٹ لانچ کی تھی تو اس کی فوری قبولیت اور شہرت کی بنیاد حسن علی، فہیم اشرف، شاداب خان، عماد وسیم اور فخر زمان جیسے چہرے تھے جنھوں نے پہلی ہی نظر میں دنیا کو اپنا معترف کر لیا تھا۔

یہی نئے نام جب چیمپئنز ٹرافی 2017 میں پاکستان کی حیران کن جیت کے ہمراہی ٹھہرے تو پی ایس ایل برانڈ کا مستقبل بھی تابناک ہو گیا تھا۔ لیکن پچھلے چند سالوں میں جیسے سابقہ سٹارز کی مارکیٹ گھٹتی گئی اور فرنچائز ٹورنامنٹس بھی کھمبیوں کی مانند کرّۂ ارض کے ہر کونے کھدرے سے اگنے لگے تو پی ایس ایل کی مارکیٹ بھی دھیرے دھیرے سکڑنے لگی۔

رواں برس جو عدم دلچسپی پی ایس ایل کو سیزن کے آغاز سے ہی بھگتنا پڑی، اس کے اسباب میں نمایاں ترین تو پاکستان کی حالیہ چیمپئنز ٹرافی کی مہم تھی مگر اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جس مقامی سٹار پاور کے بل پہ یہ اپنی الگ مارکیٹ رکھتی تھی، وہ نام بھی آج کرکٹنگ حلقوں میں ویسے پرکشش نہیں رہے۔

ایسے میں محمد نعیم، حسن نواز، خواجہ نافع اور معاذ صداقت جیسے نئے ناموں کا ابھر آنا پی ایس ایل کی برانڈ پاور کے لیے بہت امید افزا ہے اور آج شام کا فائنل ایسے ہی نئے چہروں کے لیے حتمی موقع ہو گا کہ وہ دنیا کو اپنا تعارف پیش کر پائیں۔ بہرحال، جن شائقین نے اس بار پی ایس ایل کو اپنی ترجیحات میں بہت نیچے رکھا، فائنل پہ تو وہ بھی نظریں گاڑے ہوئے ہوں گے۔

گلیڈی ایٹرز کے لیے تو یہ لمحہ ویسے ہی بہت عزیز تر ہے کہ پانچ برس تک بھٹکتے رہنے اور بارہا حتمی راستے سے لڑھکنے کے بعد، بالآخر ایک نئی قیادت کے ساتھ وہ اس سیڑھی تک پہنچ پائے ہیں جو اوائل کے کچھ شاندار سیزنز کے بعد ان سے کھو گئی تھی۔

سعود شکیل کی قیادت میں وہ پختگی اور فراست ہے جو کسی بھی ٹیم کی پیش رفت میں کلیدی ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر پرکھ تکنیکی قوت کے پیرائے میں کی جائے تو بولنگ، بیٹنگ و فیلڈنگ کے تینوں شعبوں میں بھی گلیڈی ایٹرز اپنی مہارت ثابت کر چکے ہیں۔

خوبی یہ بھی رہی کہ اس فائنل تک رسائی کے سفر میں گلیڈی ایٹرز نے اپنا بیشتر راستہ بے خطر کاٹا ہے۔ صرف سیزن ہی نہیں، پی ایس ایل کی تاریخ کا بھی سب سے بڑا مجموعہ جہاں ایک طرف انھوں نے اپنے نام کیا تو وہیں کم ترین مجموعے کے کامیاب دفاع کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔

فہیم اشرف، ابرار احمد اور محمد عامر کی بولنگ نے وہ قوت دکھائی جو کسی فرنچائز کی حتمی کامیابی میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ جبکہ سعود شکیل کی بے خوف قیادت اور فن ایلن، رائلی روسو اور حسن نواز کی فاتحانہ پرفارمنسز بھی گلیڈی ایٹرز کے امکانات بڑھانے کے لیے امید افزا ہیں۔

دوسری جانب لاہور قلندرز سیزن کے آغاز سے ہی پر عزم تھے کہ متواتر دو ٹائٹل فتوحات کے بعد جیسے پچھلے برس ان کی مہم منہدم ہوئی تھی، اس بار وہ ایسا نہ ہونے دیں گے اور حالیہ کامیاب مہم شاہین آفریدی کی ٹیم کو وہاں لے آئی ہے جہاں، اسلام آباد یونائیٹڈ کے بعد، وہ بھی تیسری پی ایس ایل ٹرافی اپنی الماری میں سجانے کی امید پہ کھڑے ہیں۔

حالیہ پاکستان انڈیا کشیدگی کے بعد نئے شیڈول نے اگرچہ کئی انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی دستیابی دشوار کر دی تھی مگر دونوں ہی فرنچائزز نے اپنے متبادل وسائل کا استعمال بھی خوبی سے کیا اور آج کے مقابلے سے پہلے دونوں ٹیمیں مسابقت میں بھرپور جوڑ کی نظر آتی ہیں۔

سیزن کے بیچ شاہین آفریدی نے جب کہا تھا کہ وہ زبانی کلامی جوابوں کی بجائے سیزن کی حتمی لڑائی تک پہنچ کر اپنا جواب دیں گے تو پھر ان کی الیون نے بھی اس دعوے کی لاج رکھی اور فائنل تک رسائی کے بیچ پڑتے سبھی پڑاؤ قلندرز نے ناقابلِ تسخیر انداز میں طے کیے ہیں۔

اگر قلندرز کی قوت ان کی بولنگ یونٹ کا ڈسپلن اور بیٹنگ یونٹ کا عزم ہے تو گلیڈی ایٹرز کی خوش بختی اس مسابقت کے دباؤ سے ابھر کر فتح یابی کا تجربہ ہے جہاں اسلام آباد یونائیٹڈ سے ٹکراؤ کے بھرپور تناؤ میں نوجوان حسن نواز نے اپنے اعصاب مجتمع کیے رکھے اور نہ صرف میچ کو گہرائی تک طول دے گئے بلکہ اس ساری سنسنی کو تمام بھی اپنی جیت پر ہی کیا۔

قلندرز کی سٹار پاور حریف گلیڈی ایٹرز سے بڑھ کر ہے اور میچ ونرز بھی بہت آزمودہ ہیں تو کوئٹہ کی قوت ان کا میچ ڈسپلن اور وہ کلیدی لمحات جیتنے میں ہے جو کھیل کا توازن بدل سکتے ہیں۔

لاہور کا کراؤڈ اور ہوم گراؤنڈ اگر قلندرز کے لئے کسی فائدے کا باعث ہے تو کوئٹہ کی خوبی سعود شکیل کا ’جارحانہ تحمل‘ اور نوجوان کھلاڑیوں کی ’بھوک‘ ہے جو اگر اس بڑے سٹیج پہ سیراب ہونے کو آ گئی تو برسوں بعد یہ تاج دوبارہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سر سج پائے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.