سوئٹزرلینڈ میں لارج ہیڈرون کولائیڈر پراجیکٹ پر کام کرنے والے ماہرین علم طبیعیات نے وہ حیرت انگیز کارنامہ انجام کر دکھایا کہ لیڈ یعنی سیسے کو سونا بنا دیا۔
لارج ہیڈرون کولائيڈ دنیا کا سب سے بڑا پارٹیکل ایکسلریٹر ہےانسان نے جب علم و حکمت میں ترقی شروع کی تو اس نے بنیادی دھات کو سونا بنانے کا خواب دیکھنا شروع کیا جسے ’الکیمیا‘ کہا گیا۔
یہ کوشش کتنی کامیاب ہوئی، یہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کی وجہ سے ’علم کیمیا‘ سامنے آیا۔ بہر حال اب خبر یہ ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں محققین لیڈ یعنی سیسہ کو سونے میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ میں لارج ہیڈرون کولائیڈر پراجیکٹ پر کام کرنے والے ماہرین علم طبیعیات نے یہ حیرت انگیز کارنامہ انجام کر دکھایا ہے۔
یہ مطالعہ جوہری طبیعیات پر ایلس پروجیکٹ کے حصے کے طور پر کیا گیا۔ یہ تحقیق یورپی آرگنائزیشن فار نیوکلیئر ریسرچ (سرن) کی لیبارٹری میں کی گئی۔
سنہ 1954 میں قائم ہونے والا تحقیقی ادارہ سرن (ایس ہی آر این) فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد کے قریب جنیوا میں واقع ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں سے ہزاروں محققین، خاص طور پر نیوکلیئر فزکس کے شعبے میں تحقیق کے لیے، وہاں پہچتے ہیں۔
وہاں واقع لارج ہیڈرون کولائیڈر دنیا کا سب سے بڑا پارٹیکل ایکسلریٹر ہے۔
اسی تجربہ گاہ میں ہگز بوسون کی دریافت ہوئیپارٹیکل ایکسلریٹر کیا ہوتا ہے؟
پارٹیکل ایکسلریٹر ایک لمبی سرنگ کی شکل کا ڈھانچہ ہے جس میں محققین بہت چھوٹے ذرات جیسے الیکٹران، پروٹون اور آئن تیار کر سکتے ہیں اور انھیں تیز رفتاری سے ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں۔
یہیں سے سنہ 2012 میں ہگز بوسون، جسے بنیادی ذرہ بھی کہا جاتا ہے، دریافت ہوا تھا۔
سرن کے بارے میں ایک اور اہم اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سنہ 1989 میں یہاں کام کرتے ہوئے ٹِم برنرز لی نے ورلڈ وائڈ ویب (ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو) ایجاد کیا، جس نے بعد میں جدید انٹرنیٹ ٹیکنالوجیز کی راہ ہموار کی۔
لیڈ یعنی سیسہ سے سونا کیسے بنایا گیا؟
محققین نے اس تحقیق کے لیے سیسے کا استعمال کیا کیونکہ اس میں سونے جیسی خصوصیات ہیں۔
ایک لیڈ ایٹم میں کل 82 پروٹون ہوتے ہیں، جبکہ سونے میں 79۔
اس تحقیق کے لیے محققین نے سرن میں کام کرنے والے سب سے بڑے پارٹیکل ایکسلریٹر کا استعمال کیا۔
اس پارٹیکل ایکسلریٹر میں لیڈ آئنوں کو تیز رفتاری سے ایک دوسرے سے ٹکرانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ کچھ آئن آپس میں ٹکرا گئے۔ کچھ نہیں ٹکرائے۔ کولائیڈر میں ان ذرات کی رفتار تقریباً روشنی کی رفتار کے برابر تھی۔
اس تجربے کے دوران، کچھ لیڈ ایٹم ایک دوسرے کے قریب آئے۔ چونکہ یہ ذرات برقی طور پر چارج ہونے والے ذرات ہیں، جب یہ ایک دوسرے کے قریب آئے تو برقی مقناطیسی چارجز کا ایک میدان بنا۔
اسی دوران لیڈ ایٹم کے 82 پروٹونز میں سے تین پروٹونز کو ہٹا دیا گیا، جس کی وجہ سے اس میں 79 پروٹونز رہ گئے اور اسی کے ساتھ وہ سونے کے ایٹم بن گئے۔ لیکن یہ عمل صرف مائیکرو سیکنڈز تک ہی جاری رہے۔
سونا بنانے کے فن کو کبھی الکیمیا کہا جاتا تھایہ آئن مزید پھٹتے گئے۔
یہ سب کچھ ننگی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ سب کچھ سیکنڈوں میں ہوا۔ لیکن وہاں رونما ہونے والے سارے عمل کو کچھ جدید ترین آلات سے ریکارڈ کیا گیا۔
سرن نے 8 مئی کو اپنے تحقیقی نتائج شائع کیے۔
محققین برسوں سے اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا دیگر دھاتوں کو بھی سونے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، لیکن سرن کے محققین کی موجودہ دریافت کو سب سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
اگرچہ اس سے قبل سونا مصنوعی طور پر تیار کیا جا چکا ہے، لیکن ایلس پروجیکٹ ایک نئے طریقے سے لطیف تبدیلیاں تخلیق کرنے اور ریکارڈ کرنے کا پہلا تجربہ ہے۔