کیا شام کے عبوری صدر احمد الشرع اسرائیل سے ’مفاہمت کا سمجھوتہ‘ کر سکتے ہیں؟

رواں مہینے فرانسسیی صدر سے ملاقات میں شام کے عبوری صدر نے کہا کہ ثالثوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ بات چیت جاری ہے۔چند تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ میں یہ یقین پایا جاتا ہے کہ وہ دمشق کے ساتھ’مفاہمت کے سمجھوتے‘ تک پہنچ سکتے ہیں۔
ٹرمپ، الشرع
Getty Images

کیا شام کے دارالحکومت دمشق میں اسرائیلی جھنڈا لہرائے گا؟ گذشتہ برس دسمبر میں بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ملک میں تیزی سے جاری پیشرفت کے بعد یہ سوال کئی لوگوں کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔

شاید اس دوران سب سے اہم پیشرفت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ اعلان تھا کہ جب انھوں نے خلیجی ریاستوں کے اپنے دورے کے دوران کہا کہ وہ شام پر عائد پابندیاں ختم کر دیں گے۔ اس دورے کے دوران ٹرمپ نے شام کے عبوری صدر احمد الشرع سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لے آئیں۔

بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اس بارے میں متعدد اطلاعات تھیں کہ نئی شامی حکومت کی اسرائیلی حکام کے ساتھ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ یہ رپورٹس ایسے وقت میں سامنے آئی تھیں، جب شام کی فوجی تنصیبات اسرائیلی فضائی حملوں کا نشانہ بنیں۔

باخبر ذرائع نے بھی خبر رساں ادارے روئٹرز کو یہ انکشاف کیا کہ حالیہ ہفتوں میں اسرائیل اور شام کے درمیان براہ راست ملاقاتیں ہوئی ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو کم اور سرحدی علاقے میں کسی بھی تنازع سے بچا جا سکے۔

رواں مہینے فرانسسیی صدر سے ملاقات میں شام کے عبوری صدر نے کہا کہ ثالثوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ بات چیت جاری ہے تاکہ ’کشیدگی کم کرنے اور اسے قابو سے باہر ہونے سے روکا جا سکے۔‘

شام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کی بات جغرافیائی، تاریخی، سیاسی اور اقتصادی مسائل سے جڑی ہے، جن میں سے کچھ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں جبکہ دیگر کچھ تعلقات معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

’رابن ڈیپازٹ‘

عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان فوجی محاذ آرائی میں شام نے اسرائیل کے خلاف تین جنگیں لڑیں، جن میں 1948 کی جنگ، 1967 کی جنگ اور اکتوبر 1973 کی جنگیں شامل ہیں جبکہ لبنان کی خانہ جنگی (1975-1989) کے دوران وقفے وقفے سے ہونے والی جھڑپیں اور لڑائیاں اس کے علاوہ ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان یہ جنگیں جنگ بندی کے معاہدوں (1949) یا علیحدگی کے معاہدوں (1974) کے ساتھ ختم ہوئیں۔

ان جنگوں کے نتیجے میں اسرائیل کا گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ ہوا، شامی حکومت نے مسلح فلسطینی دھڑوں کی حمایت کی اور اسرائیل نے شام کے اندر کئی مقامات پر چھاپے مارے، خاص طور پر شام کے اندرونی تنازع کے دوران، جو سنہ 2011 میں شروع ہوا تھا۔

1990 کی دہائی کے اوائل میں، کویت پر حملے کے بعد عراق کے خلاف بین الاقوامی اور علاقائی اتحاد میں شامل شامدوسری خلیجی جنگ کا حصہ بنا۔ اس جنگ سے مشرق وسطیٰ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جس میں امریکہ سابق دشمنوں کے درمیان امن معاہدوں کی سرپرستی کر رہا تھا۔

فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن اور اسرائیل نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے اور اردن نے بھی ایسا ہی ایک معاہدہ کیا۔

اسرائیل اور شام کے حکام کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ملاقاتیں ہوئیں، جس سے شام کے صدر حافظ الاسد کے اس عمل میں شامل ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔

یاد رہے کہ حافظ الاسد نے 1970 کی دہائی کے اواخر میں مصری صدر انور سادات کے دور میں مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی شدید مخالفت کی تھی۔

حافظ الاسد اور بل کلنٹن
Getty Images
1990 کی دہائی کے دوران حافظ الاسد اور بل کلنٹن کی ایک تصویر جب شام اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات ہوئے تھے

اس وقت شام اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات میں متعدد سکیورٹی، سیاسی اور اقتصادی مسائل پر بات ہوئی اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں ’رابن ڈیپازٹ‘ کے نام سے مشہور ہونے والی تجاویز شامل تھیں۔

ان تجاویز میں اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن کی طرف سے گولان کی پہاڑیوں سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کے زبانی وعدے بھی شامل تھے، ’جن کے بدلے میں ایسے انتظامات کیے جائیں گے جن کی بدولت اسرائیل کی سلامتی برقرار رہے۔‘

تاہم ان مذاکرات کو اس وقت بڑا دھچکہ لگا جب اس معاہدے کے مخالف ایک انتہا پسند یہودی نے سنہ 1995 میںیتزاک رابن کو قتل کر دیا۔

اس کے بعد ہونے والے مذاکرات میں شام کی اسد حکومت گولان کی پہاڑیوں سے انخلا، حفاظتی انتظامات اور بحیرہ طبريہ یا بحیرہ گلیل پر شامی موجودگی کے امکان کے بارے میں اختلافات کو حل کرنے میں ناکام رہی۔

شامی عوام کیا چاہتے ہیں؟

اسرائیل اور شام کے امن مذاکرات نے شام کی حکمران بعث جماعت کے عرب قوم پرست بیانات کو فلسطین اور اسرائیل تنازعہ کے حوالے سے تبدیل نہ کیا اور دمشق نے خود کو ’صیہونی منصوبے کے مخالف‘ کے طور پر فروغ دینا جاری رکھا۔

ایسا کرنے سے اس جماعت کا حزب اللہ کے ساتھ اتحاد مضبوط ہوا اور سنہ 2006 میں حزب اللہنے اسرائیل کے خلاف جنگ لڑی۔

تاہم حزب اللہ کے لیے عوامی حمایت کو سنہ 2013 میں اس وقت بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جب پارٹی کے جنگجوؤں کا جھکاؤ شامی حکومتی افواج کی جانب ہوا، اس سے اسد کی اپوزیشن میں ناراضی پیدا ہوئی۔

یہ فطری بات تھی کہ شام نے اپنے اندرونی تنازعات کے برسوں کے دوران جو تبدیلیاں دیکھیں وہ مشرق وسطیٰ میں علاقائی پولرائزیشن کی طرف مقبول رویوں پر اثر ڈالیں گی۔

بشار الاسد
AFP
بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اس بارے میں متعدد اطلاعات تھیں کہ نئی شامی حکومت کی اسرائیلی حکام کے ساتھ ملاقاتیں ہوئی ہیں

آج اسرائیل کے حوالے سے شام کا کوئی متفقہ موقف نظر نہیں آتا، جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے حملے کے بعد سے غزہ میں جنگ لڑ رہا ہے۔

انگلینڈ کی لنکاسٹر یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے پروفیسر راہف الدغلی کا خیال ہے کہ شام میں حالات معمول پر لانے کے حوالے سے موجودہ پوزیشنوں کو تین کیمپس میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

’پہلے کیمپ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو شام کی 2011 سے اس المناک صورتحال کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو ہمدردی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے ملک کو اس جنگ سے نکالنے کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

’دوسرے کیمپ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو موجودہ عبوری حکومت کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی مخالفت کرتے ہیں۔‘

’تیسرا کیمپ، جو عام طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی مخالفت کرتا ہے، اس میں کئی گروہ شامل ہیں۔ اس کیمپ میں اقلیتی گروہوں کا ایک طبقہ بھی شامل ہے جو ان عسکریت پسندوں کی طرف سے اپنے خلاف انتقامی کارروائیوں سے ڈرتے ہیں جو امن معاہدے کی مخالفت کرتے ہیں۔‘

شام کے ایک خود مختار تحقیقی ادارے سینٹر فار پبلک اوپینین سٹڈیز (ایم اے ڈی اے) نے اس حوالے سے اپریل کے آخر میں کیے جانے والے ایک سروے کے نتائج جاری کیے۔ اس سروے میں 2,550 شامی شہری شامل تھے۔

نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 46.35 فیصد شامی شہریوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی حمایت نہیں کی جبکہ 39.88 فیصد نے اس کی حمایت کی۔ مزید 13.76 فیصد نے کہا کہ وہ نہ تو اس بارے میں فکر مند ہیں اور نہ ہی کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔

گولان کی پہاڑیاں

ادلیب یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے سربراہ ڈاکٹر کمال العبدو کا ماننا ہے کہ کہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے مخالفین ’اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں‘ جو کہ اس معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

ان کے بقول لیکن ایک اور بڑی رکاوٹ گولان کی پہاڑیاں بھی ہیں۔

شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں پر یہودی آبادکاری کو وسعت دینے کے فیصلے کے بعد سے اس علاقے کی مشرقِ وسطیٰ میں سٹریٹیجک اہمیت ایک بار پھر موضوعِ بحث ہے۔

گولان کی پہاڑیاں شام کے جنوب میں واقع ہیں اور یہ شام اور اسرائیل کے درمیان سرحد کا ایک حصہ ہیں۔

اس خطے کی حیثیت متنازع ہے اور جہاں امریکہ نے سنہ 2019 میں اسے اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا تھا وہیں اقوامِ متحدہ اور دیگر ممالک کے نزدیک گولان وہ شامی علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے قبضہ کیا ہوا ہے۔

جہاں اس علاقے کی سٹریٹیجک اہمیت ہے وہیں اس کی مذہبی اہمیت اور قدیم تاریخ کے بارے میں کم ہی بات ہوتی ہے تاہم یہودی آبادکاروں کی جانب سے اس حوالے سے مختلف دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔

گولان کی پہاڑیوں پر ماضی میں آباد زیادہ تر شامی عرب باشندے سنہ 1967 کی جنگ کے دوران اس علاقے سے نقل مکانی کر گئے تھے۔

گولان کے علاقے میں اب 30 سے زائد اسرائیلی بستیاں موجود ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق 20,000 افراد رہائش پذیر ہیں۔ اسرائیلیوں نے 1967 کے تنازعے کے اختتام کے فوراً بعد اس علاقے میں آبادیاں بنانی شروع کر دیں تھیں۔

یہ یہودی بستیاں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں مگر اسرائیل اس سے اختلاف کرتا ہے۔

یہ یہودی آباد کار یہاں بسنے والے ان تقریباً 20,000 شامیوں کے ساتھ رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق دروز فرقے سے ہے اور جو گولان پر اسرائیلی قبضے کے دوران یہاں سے نکلے نہیں تھے۔

شام کا کہنا ہے کہ یہ سرزمین (گولان کی پہاڑیاں) ہمیشہ سے اس کی ملکیت ہیں اور وہ بارہا اس علاقے کو واپس لینے کے عزم کا اظہار کر چکا ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے دفاع کے لیے بہت اہم ہیں اور ان کا کنٹرول ہمیشہ اس کے ہاتھ میں رہے گا۔

گولان کی پہاڑیاں
Getty Images
گولان کے علاقے میں اب 30 سے زائد اسرائیلی بستیاں موجود ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق 20,000 افراد رہائش پذیر ہیں

مشرق وسطی کے امور کے ماہر ایہود یاری کہتے ہیں ’اس وقت کوئی بھی اسرائیلی سیاست دان گولان کی پہاڑیوں کو چھوڑنے کے حق میں نہیں۔‘

اس کے برعکس کمال العبدو کا خیال ہے کہ موجودہ عبوری اتھارٹی مقبوضہ شامی علاقوں کو نہیں چھوڑ سکتی۔

مغربی ایشیا میں امریکی خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار الیگزینڈر لینگلوئس کا خیال ہے کہ شام کی موجودہ حکومت مستقبل قریب میں اسرائیل کے ساتھ کسی جامع امن معاہدے پر بات چیت نہیں کرے گی۔

ان کے مطابق الشرع کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ حالات معمول پر آنے میں دلچسپی کا اظہار دراصل ’ایک بڑے سفارتی کھیل کا حصہ ہے جس کا مقصد مغرب سے امداد اور شناخت حاصل کرنا ہے۔‘

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ شام اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ گولان کی پہاڑیوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہو پائے گا؟

’مفاہمت کے سمجھوتے‘

کمال العبدو موجودہ وقت میں شام اور اسرائیل کے درمیان کسی معاہدے کے امکان کو مسترد کرتے ہیں تاہم وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں فریق علاقائی سرپرستی میں ’مفاہمت کے کچھ سمجھوتوں‘ تک پہنچ سکتے ہیں جس میں سرحدی حفاظت اور فوجی تعیناتی پر بات چیت کی جائے گی اور اس کے ساتھ اسرائیل کو یہ ضمانت بھی دی جائے گی کہ اس پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ’گولان کی پہاڑیوں کو ایک مخصوص مدت کے لیے لیز پر دے دیا جائے جیسے ’وادی عربہ معاہدے‘ میں اردن کی وادی میں ہوا تھا۔‘

ایہود یاری کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ میں یہ یقین پایا جاتا ہے کہ وہ دمشق کے ساتھ’مفاہمت کے سمجھوتے‘ تک پہنچ سکتے ہیں۔

’یہ ابراہم معاہدے جیسا کوئی جامع معاہدہ تو نہیں ہو گا لیکن یہ مشترکہ مفادات، جیسے سکیورٹی اور سرحدوں کے انتظامات کا باعث بن سکتا ہے۔‘

یاری اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ 1974 کے معاہدے کی جگہ شام اور اسرائیل کے درمیان نیا سکیورٹی معاہدہ ہو جائے گا۔

یاری کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان مذہبی پہلوؤں (جیسے کے دروز کمیونٹی) کے حوالے سے بھی سمجھوتے ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے ایک بار پھر شام میں دروز برادری کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا، جس کی وجہ اسرائیلی اور شامی دروز کے درمیان ’قریبی تعلقات‘ کو قرار دیا جا رہا ہے۔

 ’ہیئت تحریر الشام‘
Getty Images
سخت گیر اسلام پسند گروپ ’ہیئت تحریر الشام‘ نے ان افواج کی قیادت کی جنھوں نے ملک میں اسد خاندان کی حکومت کا خاتمہ کیا

سخت گیر گروپ

بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ مشرق وسطیٰ میں اہم پیشرفت کے درمیان ہوا۔ غزہ میں اسرائیلی جنگ لبنان تک پھیلی، جہاں بشار الاسد کے سب سے اہم اتحادیحزب اللہ اور اسرائیل اور درمیان محاذ آرائی شروع ہوئی۔

حزب اللہ کے نقصانات کے بعد شام کے مسلحگروہ تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک شامی شہر پر قبضے کے بعد دمشق تک پہنچ گئے۔

سخت گیر اسلام پسند گروپ ’ہیئت تحریر الشام‘ نے ان افواج کی قیادت کی جنھوں نے ملک میں اسد خاندان کی حکومت کا خاتمہ کیا۔

لیکن کیا ایسے سخت گیر گروپ اسرائیل کے ساتھ کسی معاہدے کو تسلیم کریں گے؟

ڈاکٹر راہف الدغلی کہتے ہیں کہ ایسے جنگجو، جن کا تعلق شام سے ہے یا وہ غیر ملکی ہیں، موجود ہیں جو فلسطین کے حق میں نظریات رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر کمال العبدو بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایسے سخت گیر اسلام پسند گروہ موجود ہیں جو فلسطین کی حمایت کرتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ مستقبل کے ممکنہ سمجھوتوں میں انتہا پسند تحریکوں کا مقابلہ کرنا اور اسرائیل کی سرحد سے ایسے ’بنیاد پرست گروہوں‘ کو ہٹانا شامل ہو سکتا ہے۔

معیشت

ٹرمپ کی جانب سے شام پر سے پابندیاں ہٹانے کے اعلان سے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جو تقریباً 14 سال سے معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہے۔

بہت سی شامی باشندوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معاہدے کی صورت میں ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری آئے گی۔

سیریئن سینٹر فار پبلک اوپینین سٹڈیز (Syrian Center for Public Opinion Studies) کے ایک سروے کے مطابق تقریباً 70 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ملک میں عرب اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کا باعث بنے گا۔

لیکن ڈاکٹر کمال العبدو مصر کے معاشی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے، جس نے تقریباً 45 سال قبل اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا، اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ اسرائیل کے ساتھ حالات معمول پر آنے سے شام میں خوشحالی آئے گی۔

دوسری جانب ایہود یاری کہتے ہیں کہ اسرائیل شام کے توانائی کے بحران کو حل کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.