اسلام آباد پولیس کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 17 برس کی ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ ثنا یوسف کو مبینہ طور پر ان کے گھر میں ایک نامعلوم شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
اسلام آباد پولیس کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 17 برس کی ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔
آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے سوشل میڈیا ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کے ملزم کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملزم کو فیصل آباد سے گرفتار کر کے اس سے ثنا یوسف کا موبائل بھی برآمد کر لیا ہے۔
منگل کو آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے ڈی آئی جی اور ایس ایس پیز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم نے ثنا یوسف کی جانب سے خود کو بار بار مسترد کیے جانے پر اسے قتل کیا۔
' یہ کیس رپیٹیٹو ریجکشن کا تھا۔ ملزم نے ثنا یوسف کو اس لیے قتل کیا کہ وہ بار بار ثنا سے رابطہ کر رہا تھا اور وہ اس کو منع کر رہی تھی۔ وہ گذشتہ کئی دنوں سے ثنا یوسف سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اور دو جون کو بھی اس نے ثنا یوسف کے گھر آ کر سات آٹھ گھنٹے انتظار کیا اور جب ثنا نے اس دن بھی اس سے ملنے سے انکار کیا تو اس نے پلاننگ کی اور اس واردات کو انجام دیا۔'
ان کے مطابق دو جون ملزم نے شام پانچ بجے ثنا یوسف کے گھر گھس کر اسے دو گولیاں ماری۔
سید ناصر رضوی کا کہنا تھا کہ یہ اندھے قتل کا کیس پولیس کے لیے ایک چیلنج تھا اور اسلام آباد پولیس نے ملزم کو سی سی ٹی وی اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے گرفتار کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ثنا یوسف کے قتل سے اسلام آباد سمیت پورے پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور ایسے میں کسی بیٹی کا یوں قتل ہو جانا ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔'
آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ 'ملزم کی تلاش اور شناخت کرنا بہت ضروری تھا کیونکہ 17 سالہ نوجوان ٹک ٹاکر کی آواز کو آخر کیوں خاموش کروایا گیا؟'
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے نامعلوم ملزم کی تلاش کے لیے فوری طور پر سات ٹیمیں تشکیل دی جنھوں نے ملزم کو پکڑنے کے لیے سیلولر ٹیکنالوجی اورڈیجیٹل سرویلنس پر کام کیا۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس ٹیموں نے ملزم کی گرفتاری کے لیے متعدد چھاپے مارے اور 113 کیمروں کی فوٹیجز چیک کی گئیں جبکہ دوران تفتیش 300 سے زائد کالز کی تفصیلات کا جائزہ لیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہم 37 افراد تک پہنچے۔
آئی جی اسلام آباد ناصر رضوی نے بتایا کہ نوجوان ٹک ٹاکر کے آئی فون کو ملزم کی جانب سے غائب کر دیا گیا تھا۔ ان کے مطابق ملزم مقتولہ ثنا یوسف کا موبائل فون اس لیے لے گیا تاکہ تمام ریکارڈ مٹایا جا سکے۔
انھوں نے بتایا کہ ملزم میٹرک پاس ہے اور اس کے والد گریڈ 16 میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
آئی جی اسلام آباد کے مطابق ملزم کی گرفتاری کے لیے ڈی آئی جی جواد کی سربراہی میں قائم پولیس ٹیم نے 11 چھاپہ مار کارروائیاں کی جبکہ فیصل آباد میں تین چھاپوں اور جڑانوالہ میں دو چھاپے مارے گئے اور 22 سالہ ملزم کو گرفتار کیا گیا۔
اس سے قبل اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل سب انسپکٹر منصب دار نے بتایا ہے کہ مقتولہ کے کال ریکارڈز کی جانچ کے بعد معلوم ہوا ہے کہ قتل سے قبل دونوں کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تھا۔
منصب دار نے دعویٰ کیا کہ ’انھوں نے ثنا یوسف کے زیر استعمال فون میں آنے والی کالز کا جائزہ لیا تو ایک نمبر کی پروفائل پر موجود تصویر اس شخص سے ملتی تھی، جس کے بارے میں پولیس کو اہلِخانہ نے بتایا تھا کہ اس شکل و صورت کا شخص گھر میں داخل ہوا تھا۔‘
خیال رہے کہ پیر کی شام ثنا یوسف کو مبینہ طور پر ان کے گھر میں ایک نامعلوم شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
منصب دار نے دعویٰ کیا کہ ملزم کی موبائل لوکیشن کو ٹریس کرتے ہوئے اسے فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی جانب سے ایکس پر ایک پوسٹ میں ملزم کی گرفتاری پر پولیس کی تعریف کی گئی ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پولیس نے ملزم سے پستول اور لڑکی (ثنا یوسف) کا موبائل برآمد کر لیا ہے اور ملزم نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔‘
ایف آئی میں درج تفصیلات کیا ہیں؟
ثنا یوسف کو گذشتہ روز اسلام آباد میں ان کے گھر کے اندر قتل کیا گیا جہاں وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔
ثنا یوسف کے قتل کا مقدمہ ان کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ اسلام آباد کے تھانہ سمبل میں درج ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ ’گذشتہ روز ایک شخص اچانک ہمارے گھر میں داخل ہوا اور اس نے میری بیٹی ثنا یوسف پر سیدھے فائر کیے جن میں سے دو ان کے سینے پر لگے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق ’نامعلوم شخص سیڑھیاں اتر کر بھاگ گیا اور ہمارے شور کرنے پر اہلِ محلہ جمع ہو گئے۔ میں اپنی بیٹی کو ہمسایوں کی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئی لیکن میری بیٹی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہو چکی تھی۔‘
مقتولہ کی والدہ کی جانب سے درج ایف آئی آر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کے وقت ان کے شوہر گھر پر موجود نہیں تھے بلکہ صرف وہ خود، ان کی نند اور ان کی بیٹی ثنا یوسف گھر پر تھیں۔
بی بی سی نے اس واقعے سے متعلق مقتولہ کے والدین سے رابطہ کر کے ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی لیکن تاحال جواب موصول نہیں ہوا۔
اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم میں شامل سب انسپکٹر منصب دار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) سے مقتولہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم کروانے کے بعد لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی اور ورثا لاش لے کر چترال چلے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ پاکستان میں کسی خاتون ٹک ٹاکر کے قتل کا پہلا واقعہ نہیں ہے، گذشتہ ماہ کے اواخر میں ٹک ٹاکر اقرا اعظم کو پنجاب کے ضلع خوشاب میں پولیس کے مطابق مبینہ طور پر ان کے اپنے رشتہ دار نے قتل کر دیا گیا تھا۔
پولیس اہلکار نے دعوی کیا ہے کہ اس واقعہ میں ملوث ملزم کے بارے میں بہت سارے شواہد حاصل کرلیے گئے ہیں اور جلد ہی ملزم کو گرفتار کر لیا جائے گا (فائل فوٹو)’ملزم گھر میں داخل ہو کر سیدھا ثنا یوسف کے کمرے میں گیا‘
ثنا یوسف کے قتل کے مقدمے کی تفیشی ٹیم میں شامل سب انسپکٹر منصب دار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جس جگہ پر وقوعہ پیش آیا، پولیس نے وہاں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیجز بھی حاصل کر لی ہیں جبکہ اس کے علاوہ سیف سٹی کیمروں سے بھی اس وقوعہ سے متعلق فوٹیجز حاصل کی گئی ہیں۔
پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا ہے کہ اس واقعہ میں ملوث ملزم کے بارے میں بہت سارے شواہد حاصل کر لیے گئے ہیں اور جلد ہی ملزم کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ دستیاب شہادتوں کے علاوہ پولیس قتل کے اس واقعہ کے مختلف پہلوؤں پر تفتیش کر رہی ہے۔
تفتیشی ٹیم میں شامل پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم نے ثنا یوسف کو قتل کرنے سے پہلے جس گھر میں مقتولہ رہائش پذیر تھیں وہاں کی ریکی کی اور جب یہ دیکھا کہ ثنا کے والدین گھر پر نہیں تو وہ گھر میں داخل ہوا اور پستول نکال کر ثنا یوسف پر دو فائر کیے۔
تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اور اہلکار کا کہنا تھا کہ ملزم گھر میں داخل ہو کر سیدھا ثنا یوسف کے کمرے میں گیا اور جاتے ہی اس پر فائرنگ شروع کر دی۔
پولیس اہلکار کے مطابق ثنا یوسف جب فائر لگنے سے نیچے گر گئیں تو اس کے فوری بعد ملزم جائے وقوعہ سے فرار ہوگیا۔
ثنا یوسف کون تھیں؟
ثنا یوسف کی عمر صرف 17 برس تھی۔ ان کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال سے تھا لیکن ان کا خاندان کچھ عرصے سے اسلام آباد میں مقیم تھا۔
ان کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر تقریباً 81 ہزار فالوورز ہیں۔
گذشتہ روز ثنا یوسف کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ان کی سالگرہ کی ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی تھی، جس میں انھیں اپنے دوستوں کے ساتھ سالگرہ مناتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کی زیادہ تر ویڈیوز میں وہ اپنی دوستوں کے ساتھ اسلام آباد کے مختلف مقامات پر گھومتی اور کھانے سے لطف و اندوز ہوتی نظر آتی ہیں۔
اس مقدمے کے تفتیشی افسر کے مطابق مقتولہ کے والدین اور اس کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ ثنا یوسف کو سوشل میڈیا انفلوئنسر ہونے کی وجہ سے کبھی بھی ان کے رشتہ داروں یا کسی دوسرے فرد کی طرف سے کوئی دھمکیاں موصول نہیں ہوئی تھیں۔
https://twitter.com/maheenghani_/status/1929666577424961620
صحافی محمد زبیر نے ثنا یوسف کی دوستوں سے بات کی ہے۔ ان کے والد کافی عرصہ تک سرکاری ملازمت میں رہے، جس کے بعد انھوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ ثنا یوسف کا ایک چھوٹا بھائی ہے۔
ثنا یوسف کی ایک دوست نے بتایا کہ جس روز وہ قتل ہوئیں اس سے چند گھنٹے قبل انھوں نے اپنی سالگرہ کا دن منایا تھا۔
’اس نے اپنے کچھ انتہائی قریبی دوستوں کو دعوت دی تھی۔ جس میں، میں بھی شامل تھی مگر میں کسی وجہ سے نہیں جا سکی تھی، جس کا مجھے ساری زندگی افسوس رہے گا۔‘
ثنا یوسف کے خاندان سے مراسم رکھنے والے برہان الدین کا کہنا تھا کہ ثنا نے ایف ایس سی کا امتحان دیا تھا اور وہ مستقبل میںمیڈیکل کالج میں داخلے کی تیاری کر رہی تھی۔ ’ان کا خیال تھا کہ وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے چترال میں لوگوں کی خدمت کریں گی۔‘
برہان الدین کا کہنا تھا کہ ثنا یوسف کے والد انسانی حقوق کے کارکن اور ’چترال بچاؤ تحریک‘ کے اہم رکن تھے اور انھوں نے اپنے دونون بچوں کو بھی انسانیت کا درس دیا تھا۔
’پاکستان میں عورت ہونے کی سزا موت نہیں ہونی چاہیے‘
پاکستان کے سوشل میڈیا پر رات سے ثنا یوسف کا نام ٹرینڈ کر رہا ہے اور لوگ ان کے لیے فوری انصاف کا مطالبہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔
مونا فاروق احمد نے لکھا کہ ’پاکستان میں خواتین، بچے اور اقلیتیں محفوظ نہیں۔ ہر دن کسی معصوم کو اپنی ہی موت کا ذمہ دار ٹھرایا جاتا ہے۔ وہ ایک بچی تھی جو زندگی سے بھرپور تھی۔‘
ماہین غنی نے لکھا کہ ’پاکستان میں عورت ہونے کی سزا موت نہیں ہونی چاہیے۔‘
سماجی کارکن ندا کرمانی نے لکھا کہ ’باہمت، پر اعتماد اور خوش رہنے پر خواتین اور لڑکیوں کو نہ صرف قتل کر دیا جاتا ہے بلکہ مرد ان کی قبروں پر رقص کرنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔
صحافی احتشام الحق نے لکھا کہ ’17 برس کی ثنا یوسف اس انجام کی حقدار نہیں تھیں۔ اس معاملے میں جلد از جلد انصاف ہونا چاہیے اور قاتلوں کو ایک مثال بنانا چاہیے۔‘