ثنا یوسف کا قتل اور انسیل کلچر: ’ہمارے ڈرامے سکھا رہے ہیں کہ لڑکی نہ مانے تو اس کے پیچھے پڑ جاؤ پھر وہ مان جائے گی‘

اگر سکرین پر ایسے شخص کو ہیرو دکھایا جائے جو محبت میں انکار ملنے پر کسی کی جان لینے کا ارادہ رکھتا ہو تودیکھنے والے نوجوان مردوں کے لیے یہی رویہ درست اور نارملبنتا چلا جاتا ہے۔

نیٹ فلیکس کی سیریز ’ایڈولیسنس‘ کے بعد جو بحث وجود میں آئی، اس نے دنیا بھر میں تقریباً تمام معاشروں کو مردوں کی تربیت کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کر دیا۔

سیریز کی کہانی ایک تیرہ سالہ بچے جیمی ملر کی گرفتاری اور تفتیش سے متعلق ہے جو اپنی کلاس فیلو کیٹی کا قتل کر چکا ہے۔

اپنے خاندان کے ساتھ معمول کی زندگی جینے والا بچہ قاتل کیسے بنا؟

اس کیس کی تفتیش کے دوران بلوغت، مردانگی کے رائج تصورات، آن لائن ہراسانی، سوشل میڈیا کے اثراتاور سب سے بڑھ کر ’انسیل کلچر‘ اور ’80/20 رول‘ جیسے موضوعات کی پرتیں کھلتی چلی گئیں۔

فلم دیکھنے کے بعد مجھ سمیت کئی والدین کو احساس ہوا کہ ان کے بچے ان کی تربیت سے بڑھ کر کچھ اور عناصر سے ترغیب اور تحریک لے رہے ہیں جن کا ہمیں علم تک نہیں۔

اب ’ایڈولیسنس‘ سے ہٹ کر پاکستانی ڈرامے ’راہ جنون‘ کی سکرین پر نظرڈالتے ہیں۔

’آپ مہر کی شادی مجھ سے نہیں کروانا چاہتے مت کروائیں لیکن پھر اس کی شادی کہیں اور بھی نہیں کروائیں گے۔ پیار کرتا ہوں آپ کی بیٹی سے۔۔۔ مہر صرف میری ہے اگر اس کے لیے مجھے جان سے بھی مارنا پڑا تو ایک سیکنڈ نہیں سوچوں گا۔‘

یہ پاکستانی ڈرامہ ’راہ جنون‘ کے ڈائیلاگز ہیں جنھیں ادا کرنے والا کوئی ولن نہیں بلکہ خوبرو ہیرو ہے۔ اگر سکرین پر ایسے کردار کو ہیرو دکھایا جائے جو محبت میں انکار ملنے پر کسی کی جان لینے کا ارادہ رکھتا ہو تو دیکھنے والے نوجوان مردوں کے لیے یہی رویہ درست اور نارملبنتا چلا جاتا ہے۔

ڈرامے کے یہ الفاظ غالباً نہیں دہرائے گئے لیکن دو روز قبل اسلام آباد میں اس سوچ کو ضرور دہرایا گیا جب 17 سالہ ثنا یوسف کو ان کے اپنے گھر میں ایک نوجوان نے اس لیے گولیاں مار کر قتل کر دیا کیونکہ وہ متعدد بار انکار سن چکا تھا۔

’ایڈولیسنس‘ کا جیمی صرف تیرہ سال کی عمر میں لڑکی کا قاتل اس لیے بنا کہ اسے یقین تھا کہ اسے لڑکیوں میں ’قبولیت‘ نہیں ملنے والی۔ وہ ایسی آن لائن کمیونٹی سے متاثر تھا جو مردانگی کے انتہا پسندانہ نظریات کا پرچار کرتی ہے۔

’مینوسفیئر‘ یا مردوںکی یہ دنیا ’انسیل کلچر‘ کے تحت ’80/20‘ کے اس اصول کو مانتی ہے جس کے مطابق دنیا میں 100 میں سے 20 فیصد مردوں کو ہی عورتیں قبول کرتی ہیں اور باقی 80 فیصد مردوں کے حصے میں انکار آتا ہے۔

’انسیل‘ انوولنٹری کیلیبیٹ (Involuntary celibates) کا مخفف ہے، اس کے تحت مرد اپنی جنسی نا آسودگی یا رومانوی تعلقات نہ بنا پانے کا ذمہ دار عورتوں کو سمجھتے ہیں اور اس بنا پر ان سے نفرت میں ان کےخلاف پرتشدد رویے اختیار کرتے ہیں۔

ایسی آن لائن کمیونٹیز نے لاکھوں کم عمر نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے اس دور میں متاثر کیا لیکن اس سے پہلے بھی لڑکی کی جانب سے انکار کی صورت میں مرد اس سے ایسے ہی بدلہ لیتے آئے ہیں جیسے ان کے پاس انکار کو برداشت کرنے کی کوئی تربیت ہی موجود نہ ہو۔

’ایسڈ سروائیورز فاؤنڈیشن‘ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً 200 سے زیادہ تیزاب پھینکنے کے واقعات پیش آتے ہیں، جن میں سے 80 فیصد کیسز میں مردوں نے خواتین کو نشانہ بنایا،جن میں زیادہ تر انھیں کسی صورت میں انکار کر چکی تھیں۔

ثنا یوسف قتل کیس کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر پدرسری اور زن بیزار رویوں کے تحت ایک بار پھر وکٹم بلیمنگ (متاثرہ شخص کو موورد الزام ٹھرانا) ہی کی گئی۔

ایک طرف صارفین نے یہ تاثر دیا کہ لڑکی کا ٹک ٹاکر ہونا ہی قتل کا جواز بنتا ہے تو دوسری طرف مخالف بیانیہ میں ان تمام پہلوؤوں پر بات کی گئی جو مسلسل مرد کو عورت کا مجرم بنا رہے ہیں۔

بلال حسنکراچی سے تعلق رکھنے والےایک کانٹینٹ کری ایٹر ہیں۔ بی بی سیسے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جب بھی میں کوئی کانٹینٹ لگاتا ہوں جس میں عورتوں کے حقوق پر بات کرتا ہوں تو مجھے سب سے زیادہ نفرت چودہ پندرہ سال کے لڑکوں کی جانب سے ملتا ہے۔ جو یہ اینڈریو ٹیٹ والا کانٹینٹ فالو کرتے ہیں۔‘

خیال رہے اینڈریو ٹیٹ متنازع برٹش امیرکن انفلوئنسر ہیں جو خواتین کے خلاف انتہائی جارحانہ خیالات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کے فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

خود ان پر ریپ ،انسانی سمگلنگ اور خواتین کے خلاف جرائم کے لیے تنظیم سازی جیسے مقدمات ہیں جبکہ وہ کھلے عام ایسے بیانات دے چکے ہیں جن کے مطابق عورتیں خود پرہونے والے جنسی حملوں کی ذمہ دار ہیں۔

پاکستان میں بھی سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوان مردوں کی بڑی تعداد ان سے متاثر ہے۔

ثنا یوسف قتل کیس کے بعد پاکستانی ڈراموں میں مردوں، خاص طور پر ہیرو بنا کر پیش کئے گئے مردوں اور ان کی ’ٹاکسک میسکولینٹی‘ پر بات کی گئی۔

ان دنوں پیش کیا جانے والا ڈرامہ ’من مست قلندر‘ گزشتہ ہفتے زیر بحث رہا جس میں ’ہیرو‘ اپنی بیوی کو رات کو اس کے بھاگ جانے کے ڈر سے باندھ کر رکھتا ہے جبکہ اسے منفی کردار میں بھی نہیں دکھایا گیا۔

ایک اور ڈرامہ ’کیسی تیری خود غرضی‘ ایسے ہی ٹاکسک اور مجرمانہ ذہنیت کے ’ہیرو‘ کی کہانی ہے جو لڑکی اور اس کے گھر والوں کو مسلسل ہراساں کرتا اور دھونس اور دھمکی کے زور پر اس سے شادی کر کے ’رومینٹک‘ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

انفلوئنسر بلال حسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہمارے ڈرامے ہمیں سکھا رہے ہیں کہ لڑکی نہ مانے تو دوبارہ کہو، پھر سے کہو، پیچھے پڑ جاؤ تو مان جائے گی۔ یہ نہیں سکھا رہے کہ نہیں کا مطلب نہیں، باہمی رضامندی نہیں سکھا رہے۔‘

اینڈریو ٹیٹ
EPA
اینڈریو ٹیٹ متنازع انفلوئنسر ہیں جو خواتین کے خلاف انتہائی جارحانہ خیالات کے لیے جانے جاتے ہیں اور ان کے فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے

ڈرامہ رائٹر علی معین کا اس وقت ایک ڈرامہ ’شیریں فرہاد‘ آن ایئر ہے جس میں ستر کی دہائی کی پاکستانی فلم انڈسٹری اور وہیں سے ایک جوڑے کی رومانوی کہانی سنائی گئی ہے۔

علی معین نے ٹاکسک ہیرو کے حوالے سےبی بی سیسے بات کرتے ہوئے کہا کہ اداکاروں کو بھی کردار لیتے ہوئے دیکھنا چاہیے کہ اس کردار کی ’آرک‘ کیا ہے اور ہماری دو انتہاؤں میں بٹی سوسائٹی میں اس کے اثرات کیا ہوں گے۔

علی معین کہتے ہیں کہ ’ہمیں محبت میں انتہا پسندی اور مجرمانہ حرکت کے بیچ انتہائی باریک لائن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘

ثنا یوسف کا قاتل گرفتار ہو چکا لیکن اس ایک مجرم کے خلاف قانونی کارروائی تب تک ناکافی رہے گی جب تک عورت مخالف سوچ کی نشاندہی اور اصلاح نہیں ہوتی۔

خصوصاً سوشل میڈیا پر ایسے ڈھکے چھپے اور کھلے عام گروہ پکڑ میں نہیں آتے جو خواتین کے خلاف تشدد کو نظریاتی طور پر درست مانتے ہیں اور جب تک ڈرامے میں ہیرو ’نو از نو‘ کا مطلب نہیں سمجھتے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.