انسانی پاخانے سے بنی گولی جو آنتوں کا انفیکشن ختم کرنے کے لیے استعمال ہو گی

برطانیہ کے ڈاکٹر پیٹ کے ایک خطرناک انفیکشن کو انسانی پاخانے سے بنی گولیوں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس انفیکشن کی وجہ سے جسم کے اندر ہی فضلہ سخت اور خشک ہونے لگتا ہے۔

برطانیہ کے ڈاکٹر پیٹ کے ایک خطرناک انفیکشن کو انسانی پاخانے سے بنی گولیوں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس انفیکشن کی وجہ سے جسم کے اندر ہی فضلہ سخت اور خشک ہونے لگتا ہے۔

عطیہ کیے گئے نمونوں کی جانچ سے پتا چلا ہے کہ صحت مند افراد کے پاخانے میں اچھے بیکٹیریا ہوتے ہیں۔

ابتدائی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان سپر بگز (جرثوموں) کو آنتوں سے باہر نکالا جا سکتا ہے اور اس کی جگہ صحت مند آنتوں کے بیکٹیریا کا مرکب شامل کیا جا سکتا ہے۔

یہ اس انفیکشن سے نمٹنے کے لیے ایک نیا نقطہ نظر ہے جو اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے ہر سال دس لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔

گائز اینڈ سینٹ تھامس ہسپتالوں میں ان گولیوں کی آزمائش کرنے والے ڈاکٹر بلیئر میریک کا کہنا ہے کہ ان کی توجہ آنتوں پر مرکوز ہے جو ’انسانوں میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت کا سب سے بڑا ذخیرہ‘ ہیں۔

دواؤں کے خلاف مزاحمت کرنے والے سپر بگ آنتوں سے جسم کے کسی اور حصے میں منتقل ہو کر پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں، جیسے پیشاب کی نالی یا خون کے انفیکشن۔

ڈاکٹر میریک کا کہنا ہے کہ اس لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ ’کیا آپ ان سے چھٹکارا پا سکتے ہیں؟‘

پاخانے سے بنی گولیوں کا خیال اتنا غیر یقینی نہیں لگتا۔ سائنس دانوں نے ایسے اشارے دیکھے کہ فیشل ٹرانسپلانٹ سے بھی سپر بگز سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔

نئی تحقیق میں ان مریضوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جنھیں گذشتہ چھ ماہ کے دوران ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کی وجہ سے انفیکشن ہوا تھا۔

انھیں پاخانے سے بنی گولیاں دی گئیں جو لوگوں نے سٹول بینک (پاخانہ جمع کرنے والا مرکز) کو عطیہ کی تھیں۔

ہر پاخانے کے نمونے کی جانچ کی جاتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس میں کوئی نقصان دہ کیڑے تو نہیں، غیر ہضم شدہ کھانے کو ہٹا دیا جاتا ہے اور پھر اسے خشک کر کے پاؤڈر کی شکل میں منجمد کیا جاتا ہے۔

اسے ایک گولی کے اندر ذخیرہ کیا جاتا ہے جو معدے سے بغیر کسی رکاوٹ کے گزر سکتی ہے اور آنتوں تک پہنچ سکتی ہے جہاں یہ پاخانے کے مرکب کو چھوڑنے کے لیے تحلیل ہو جاتی ہے۔

لندن کے گائز اور سینٹ تھامس ہسپتالوں میں 41مریضوں پر یہ تجربہ کیا گیا تاکہ بڑے پیمانے پر مطالعے کی بنیاد رکھی جا سکے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ مریض یہ پاخانے سے بنی گولی لینے کے لیے تیار تھے اور عطیہ کردہ بیکٹیریا کم از کم ایک ماہ بعد بھی آنتوں میں پایا جا رہا تھا۔

ڈاکٹر میرک کا کہنا ہے کہ ’واقعی امید افزا اشارے‘ موجود ہیں کہ پاخانے کی گولیاں یا ’پُو پلز‘ سپر بگز سے نمٹنے میں مدد دے سکتی ہیں۔

مطالعے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تھراپی کے بعد آنتوں کے بیکٹیریا زیادہ متنوع ہو جاتے ہیں۔

گولی
Getty Images

ڈاکٹر میریک کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت دلچسپ ہے کہ 20 سال پہلے کے مقابلے میں ایک حقیقی تبدیلی آئی، جہاں تمام بیکٹیریا اور وائرس کو نقصان پہنچانے والا سمجھا جاتا تھا۔ اب ہمیں احساس ہوا کہ وہ ہماری مجموعی صحت کے لیے ضروری ہیں۔‘

اس ہفتے کے اوائل میں سائنس دانوں نے دکھایا تھا کہ ہمارے پیدا ہونے کے چند گھنٹوں کے دوران جسم میں ملنے والے اچھے بیکٹیریا سے چھوٹے بچوں کے پھیپھڑوں کے انفیکشن کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہونے کا خطرہ نصف ہوجاتا ہے۔

ہمارے جسم کے انسانی خلیات ان بیکٹیریا، پھپھوندی اور ہمارے اندر رہنے والی دیگر چیزوں کے لیے قدرتی مدافعت رکھتے ہیں، جسے مائیکروبائیوم کہا جاتا ہے۔

اس کے نتیجے میں کروہن کی بیماری سے لے کر کینسر اور دماغی صحت تک ہر چیز میں مائیکروبائیوم کو شامل کرنے کے لیے تحقیق ہوئی ہے۔

اگر بڑے مطالعات میں ’پُو پلز‘ سپر بگز کے خلاف کام کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں تو محققین کا خیال ہے کہ انھیں خطرے کا شکار لوگوں میں علاج اور روک تھام دونوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

برطانیہ کے ڈرگ ریگولیٹر میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ایجنسی (ایم ایچ آر اے) کا کہنا ہے کہ اس وقت 450 سے زائد مائیکروبائیوم ادویات تیار کی جا رہی ہیں۔

ایم ایچ آر اے میں مائیکروبائیوم ریسرچ کی سربراہ ڈاکٹر کریسی سرگاکی کا کہنا ہے کہ ’ان میں سے کچھ کامیاب ہوں گی، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہم انھیں بہت جلد مکمل کر لیں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.