پنجابی فلم کے رائٹر اور ڈائریکٹر چندرا کمبوج کا دعویٰ ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ امکان نظر نہیں آتا کہ پاکستانی اداکاروں والی فلمیں انڈیا میں ریلیز ہوں گی اور انڈین اداکاروں والی فلمیں پاکستان میں۔
انڈیا اور پاکستان کے مابین حالیہ کشیدگی نے پنجابی فلم انڈسٹری کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ پنجابی فلم انڈسٹری کے ماہرین کے مطابق ایسی کئی فلموں کی پروڈکشن اور ریلیز روک دی گئی، جن میں پاکستانی اداکار شامل تھے۔
فلمی ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ پانچ چھ پنجابی فلمیں تیار ہیں جبکہ ایک درجن سے زیادہ فلموں پر کام جاری ہے۔ان فلموں میں ’چل میرا پت 4‘ اور ’سردار جی تھری‘ بھی شامل ہیں۔
22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کشیدگی کا انڈین پنجابی سنیما پر کیا اثر پڑا اور مستقبل میں اس کا کیا ہوگا؟
ہم نے فلم انڈسٹری سے وابستہ کچھ افراد سے بات کر کے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان انڈیا کشیدگی کی وجہ سے کتنی فلمیں متاثر ہوں گی
پنجابی فلم کے رائٹر اور ڈائریکٹر چندرا کمبوج کا دعویٰ ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ امکان نظر نہیں آتا کہ پاکستانی اداکاروں والی فلمیں انڈیا میں ریلیز ہوں گی اور انڈین اداکاروں والی فلمیں پاکستان میں۔
چندرا کمبوج نے ’کردار‘، ’پنج خواب‘ اور ’ڈرامہ علی‘ جیسی پنجابی فلمیں بنائی ہیں۔
بی بی سی پنجابی سے بات کرتے ہوئے چندرا نے کہا کہ ’اب تک چھ فلمیں تیار ہو چکی ہیں جبکہ ایک درجن سے زیادہ فلمیں ایسی ہیں جن میں پاکستانی اداکاروں کو کاسٹ کیا گیا اور ان میں سے کچھ فلمیں یا تو شوٹنگ کے مرحلے میں ہیں یا ان کی ایڈیٹنگ کا کام جاری ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ان میں ’چل میرا پت 4‘ اور ’سردار زِی تھری‘ سب سے زیادہ زیرِ بحث ہیں۔ ’چل میرا پت 4‘ میں زیادہ تر پاکستانی اداکار ہیں جبکہ ’سردار زِی تھری‘ میں پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر ہیں۔‘
’لیکن پاکستانی اداکاروں کی موجودگی کی وجہ سے یہ دونوں فلمیں سینسر شپ کے مسائل کا شکار ہو سکتی تھیں۔
چندرا کمبوج کا کہنا ہے کہ فلم ’سردار جی تھری‘ میں ہانیہ عامر کی موجودگی کے بارے میں ابھی تک شکوک و شبہات ہیں۔‘
پاکستانی اداکار کب انڈین پنجاب کی فلموں میں نظر آنا شروع ہوئے
انڈین پنجابی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کو کاسٹ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پنجاب کے مشرقی اور مغربی دونوں اطراف میں ایک جیسے ہی ناظرین موجود ہیں۔
مشرقی پنجاب (انڈیا) میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد تقریباً 3 کروڑ ہے جبکہ پاکستان میں 8 کروڑ سے زیادہ پنجابی آبادی ہے۔ اس لیے وہاں پنجابی فلموں کے لیے ناظرین کا بڑا طبقہ موجود ہے۔
چندر کبوج کہتے ہیں کہ ’پاکستانی ڈرامے انڈین پنجاب میں بھی دیکھے جاتے ہیں، اس لیے فلم سازوں نے ایک تجربہ کیا کہ دیکھیں پنجابی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کو دیکھ کر لوگوں کا کیا ردعمل ہوتا ہے اور یہ تجربہ کامیاب رہا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فلمیں دونوں اطراف میں اچھی کامیابی حاصل کرنے لگیں، پاکستان میں بھی فلمیں ریلیز ہونے لگیں۔ ناظرین کو فلموں کے ذریعے پنجابی زبان کے دو انداز سننے کو ملے، جو لوگوں کو پسند آئے۔ اس وجہ سے پنجابی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کو شامل کرنے کا سلسلہ بڑھتا گیا۔‘
پنجابی فلم انڈسری کو کتنا نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے؟
ماہرین کا خیال ہے کہ پنجابی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کی غیر موجودگی یا دونوں اطراف میں ریلیز پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے مالی نقصان میں اضافہ ہو گا۔ اس کا اثر دونوں پنجابوں کی فلم انڈسٹریز پر پڑے گا۔
انڈین پنجاب میں سب سے زیادہ مالی نقصان پروڈیوسرز کو اٹھانا پڑے گا کیونکہ بہت سی فلمیں پاکستانی اداکاروں کے ساتھ شوٹ کی جا چکی ہیں۔ اب اگر انھیں ریلیز نہیں کیا جاتا یا ان کی شوٹنگ دوبارہ کرنی پڑتی ہے تو فلم پروڈیوسرز کو نقصان ہو گا۔
اس کشیدگی کی وجہ سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انڈین پنجاب کے فلم ساز اپنی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کو کاسٹ نہ کریں کیونکہ سب کے دلوں میں اپنے ملک کے لیے جذبات ہوتے ہیں لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستانی پنجاب کے اداکاروں کے لیے بہت بڑا نقصان ثابت ہو گا۔
کیا ’چل میرے پت 4‘ اور ’سردار جی تھری‘ کی سٹوری بدل جائے گی؟
راکیش دھون پنجابی فلموں کے ڈائریکٹر اور کہانی نویس ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر اب بھی دلجیت دوسانجھ کے ساتھ ’سردار جی 3‘ میں نظر آ سکتی ہیں کیونکہ اگر ایک فلم کی لاگت 25 کروڑ ہے تو اسے دوبارہ شوٹ کرنا بہت مشکل ہے۔ باقی فیصلہ پروڈیوسر کا ہے۔‘
راکیش دھون کا کہنا ہے کہ یہ وہ فلمیں ہیں جو کافی عرصہ پہلے شوٹ کی جا چکی تھیں اور جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھی تو یہ فلمیں پہلے ہی مکمل ہو چکی تھیں۔
’ہم فلم سازوں نے ملک کے خلاف کوئی کام نہیں کیا، فلموں کی شوٹنگ کے بعد حالات بدل گئے ہیں، اس لیے فلمیں جیسی ہیں ویسی ہی ریلیز ہوں گی۔‘
’چل میرا پت‘ میں کام کرنے والے اداکار گرشبادھ سنگھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فلم میں پاکستانی اداکاروں کی شرکت کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں۔ فلم کی ایڈیٹنگ جاری ہے۔ یہ فلم کے پروڈیوسرز پر منحصر ہے کہ وہ اگے کیا فیصلے کرتے ہیں۔‘
بات چیت کے دوران انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر ’چل میرا پت‘ میں پاکستانی اداکار نہ بھی ہوں تو اس کا فلم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
افتخار ٹھاکر کے بیانات پر تنازعہ
چندر کمبوج اور راکیش دھون کا ماننا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے دوران پاکستانی اداکار افتخار ٹھاکر کے کچھ بیانات نے چلتی آگ پر تیل کا کام کیا۔
پاکستانی اداکار افتخار ٹھاکر فلم ’چل میرا پت 4‘ کی شوٹنگ مکمل کر چکے ہیں۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے دوران افتخار ٹھاکر نے انڈین فوج اور انڈین پنجابی سنیما کے بارے میں متنازعہ تبصرے کیے۔
ایک پاکستانی ٹی وی شو میں افتخار ٹھاکر نے کہا تھا کہ ’میں انڈیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم فضاؤں سے آؤ گے تو ہوا میں اڑا دیے جاؤ گے۔ اگر سمندر سے آؤ گے تو ڈبو دیے جاؤ گے۔ اگر زمین سے آؤ گے تو دفن کر دیے جاؤ گے۔‘
اس کے بعد ایک اور شو میں افتخار ٹھاکر نے کہا کہ انڈین پنجابی فلمیں صرف پاکستانی اداکاروں کے دم پر چلتی ہیں اور ان کے بغیر فلمیں منافع نہیں کما سکتیں۔
افتخار ٹھاکر کے بیانات پر انڈین پنجاب میں سخت ردعمل سامنے آیا۔ پنجابی اداکار بنوں ڈھلون اور ڈائریکٹر راکیش دھاون نے افتخار ٹھاکر کے ان بیانات کی مخالفت کی۔
اس سلسلے میں ڈائریکٹر چندر کمبوج کا کہنا ہے کہ ایک آرٹسٹ کو نفرت انگیز بیان نہیں دینے چاہئیں، خاص طور پر ان لوگوں کے خلاف جنھوں نے آپ کو روزگار دیا ہو۔
چندر کمبوج کہتے ہیں کہ ’صرف افتخار ٹھاکر ہی جانتے ہیں کہ ان کی نیت کیا تھی لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ افتخار ٹھاکر ’چل میرا پت‘ یا ’کیری آن جٹا‘ کے علاوہ دیگر فلموں میں بھی نظر آ چکے ہیں۔ جن میں سے بہت سی فلاپ ہوئیں۔ اگر انھیں لگتا ہے کہ ’چل میرا پت‘ یا ’کیری آن جٹا‘ ان کی وجہ سے کامیاب ہوئیں تو یہ ان کا وہم ہے۔‘
افتخار ٹھاکر کے بیان کے جواب میں راکیش دھاون کہتے ہیں کہ ’میں ذاتی طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ افتخار ٹھاکر نے جو کچھ کہا، اس کے بعد ان کے ساتھ مستقبل میں کام کرنا ممکن نہیں۔‘
کیا پنجابی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کی شمولیت ضروری ہے؟
راکیش دھاون کہتے ہیں کہ ’انڈین پنجابی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کو کاسٹ کرنے کا مقصد دونوں پنجابوں کے درمیان بھائی چارے کا جذبہ فروغ دینا تھا۔ مغربی پنجاب ہمارا ہی حصہ ہے، ان کی پوری ثقافت ہم سے ملتی جلتی ہے، وہاں کے لوگ بھی پنجابی بولتے ہیں، اسی لیے انھیں فلموں میں کاسٹ کیا جانے لگا۔‘
’دوسری بات یہ کہ پنجابی ناظرین کی بھی یہی خواہش تھی کہ فلموں میں نئے اداکار ہونے چاہئیں، اس لیے ہم نے اپنی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کو کاسٹ کرنا شروع کیا۔ یہ ہماری مجبوری نہیں تھی، ہم نے محبت کے تحت انھیں فلموں میں جگہ دی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی اپنی پنجابی سنیما ابھی تک کھڑی ہی نہیں ہو سکی، ہم ان پر کیسے انحصار کر سکتے ہیں‘ تاہم اداکار گرشبادھ سنگھ کا ماننا ہے کہ یہ افسوسناک ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی سنیما کو متاثر کر رہی ہے۔