’انسداد دہشت گردی کے شعبے میں پاکستان قابلِ اعتماد پارٹنر ہے، آرمی چیف عاصم منیر نے کال کر کے بتایا کہ ہم نے جعفر کو گرفتار کر لیا‘: امریکی سینٹ کام چیف

امریکی سینٹ کام کے چیف جنرل مائیکل کوریلا نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف ایک قابلِ اعتماد شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے محدود انٹیلیجنس کی فراہمی کے باوجود پاکستان اپنے دستیاب وسائل سے داعش خراسان کے خلاف مؤثر کارروائیاں کر رہا ہے اور ان کارروائیوں کا اثر بھی نظر آ رہا ہے۔
gettyimages
Getty Images

امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے چیف، جنرل مائیکل کوریلا نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے موقع پر کابل ایئرپورٹ کے ایبی گیٹ حملے کے مرکزی کردار ’جعفر‘ (شریف اللہ) کو گرفتار کرنے کے بعد پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے سب سے پہلے انھیں فون کیا اور کہا کہ ’میں (پاکستان) نے اسے (جعفر) پکڑ لیا ہے اور میں اسے امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہوں۔ پلیز سیکریٹری دفاع اور صدر (ٹرمپ ) کو بتا دیں۔‘

جنرل مائیکل کوریلا منگل کو واشنگٹن میں ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی ’مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں امریکی فوجی حکمت عملی اور قومی سلامتی کے چیلنجز‘ پر سماعت کے دوران افغانستان اور پاکستان کی سرحدی صورتحال پر سوالات کے جواب دے رہے تھے۔

جنرل مائیکل کوریلا نے اس موقع پر پاکستان کو انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں ایک ’شاندار اور قابلِ اعتماد پارٹنر‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی پاکستان کے ساتھ شاندار پارٹنرشپ اور انٹیلیجنس کے تبادلے کے تحت انھوں نے داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں کیں، درجنوں دہشتگردوں کو ہلاک کیا اور انھوں نے داعش خراسان کے کم از کم پانچ اہم ارکان کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا۔

جنرل مائیکل کوریلا نے کمیٹی ممبران کو بتایا کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان ہماری فراہم کردہ محدود انٹیلیجنس کے باوجود، اپنے دستیاب وسائل سے داعش خراسان کے خلاف مؤثر کارروائیاں کر رہا ہے اور اس کارروائیوں کا اثر بھی نظر آ رہا ہے۔‘

انھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ’2024 کے آغاز سے اب تک پاکستان کے مغربی علاقوں میں ایک ہزار سے زائد دہشتگرد حملے ہو چکے ہیں جن میں تقریباً 700 سکیورٹی اہلکار اور شہری ہلاک ہوئے جبکہ 2500 سے زائد زخمی ہوئے۔‘

جنرل مائیکل کوریلا کے مطابق پاکستان اس وقت دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور ایک ’قابلِ اعتماد شراکت دار‘ کے طور پر اُبھرا ہے۔

یاد رہے امریکی صدر ٹرمپ نے بھی کانگریس سے اپنے پہلے خطاب میں 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر امریکی فوجیوں پر ہونے والے خودکش حملے کے منصوبہ ساز شریف اللہ کی گرفتاری میں مدد کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا۔

جنرل مائیکل کوریلا نے مزید کیا کہا؟

منگل کو ہونے والی واشنگٹن میں ہونے والی سماعت کا مقصد نیشنل ڈیفنس آتھورائزیشن ایکٹ 2026 کے لیے مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں محکمہ دفاع کی پالیسیوں اور سرگرمیوں کا جائزہ لینا تھا۔

یہ سماعت امریکی قومی سلامتی کو درپیش خطرات کا تجزیہ کرنے اور کانگریس کی جانب سے فراہم کردہ وسائل کو امریکہ کے دفاع کے لیے مؤثر انداز میں استعمال کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

اس دوران ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ایک رُکن نے جنرل مائیکل کوریلا سے سوال کیا کہ ’جنرل آپ نے اپنی ابتدائی گفتگو میں داعش خراسان اور افغانستان کا ذکر کیا تھا۔ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں چاہوں گا کہ آپ اس پر کچھ تفصیل سے روشنی ڈالیں۔‘

جنرل کوریلا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ داعش خراسان شاید دنیا بھر میں بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والا سب سے سرگرم گروہ ہے، جس میں امریکہ پر حملے بھی شامل ہیں۔

’ہم نے یہ دیکھا ہے کہ طالبان نے داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں کیں، دونوں ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے ہیں اور انھیں افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے قبائلی علاقوں کی جانب دھکیل دیا گیا۔‘

جنرل کوریلا نے کہا کہ ’پاکستان کے ساتھ ہماری جو شاندار پارٹنر شپ ہے، اس کے تحت انھوں نے داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں اور درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔ ہمارے ان کے ساتھ انٹیلیجنس کے تبادلے کے تعلق کے تحت انھوں نے کم از کم داعش خراسان کے پانچ اہمافراد کو گرفتار کیا ہے۔‘

انھوں نے ایبی گیٹ حملے کے مرکزی کردار ’جعفر‘ (شریف اللہ) کی گرفتاری اور امریکہ کے حوالے کیے جانے کا ذکر بھی کیا جس کے بارے میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس گرفتاری کے بعد فیلڈ مارشل اور آرمی چیف جنرل منیر نے براہِ راست ان سے رابطہ کیا تھا۔

جنرل کوریلا کا کہنا تھا کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان، ہماری فراہم کردہ محدود انٹیلیجنس کے باوجود اپنے دستیاب وسائل سے داعش خراسان کے خلاف مؤثر کارروائیاں کر رہا ہے اور ان کا اثر بھی نظر آ رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ داعش خراسان کے عناصر ادھر ادھر حرکت کر رہے ہیں، بعض اوقات وہ واپس افغانستان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’ہمارے پاس معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن اس وقت وہ زیادہ تر پاکستان کے سرحدی علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں۔‘

جنرل کوریلا نے کہا کہ ’پاکستان اس وقت دہشت گردی کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس حوالے سے وہ ایک شاندار پارٹنر رہا ہے۔‘

Getty Images
Getty Images
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد کانگریس سے اپنا پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہکابل ایئرپورٹ پر امریکی اہلکاروں پر خودکش حملے کے ذمہ دار مرکزی دہشت گرد کو پکڑ لیا گیا ہے اور اس میں مدد کرنے پر وہ 'حکومت پاکستان' کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

’ہمیں پاکستان اور انڈیا دونوں کے ساتھ تعلقات رکھنے چاہییں‘

جنرل کوریلا سے اگلا سوال کیا گیا کہ کیا انھیں لگتا ہے کہ دہشت گردی کی خلاف پاکستان کی کارروائیاں کم ہو رہی ہیں یا مزید تیز ہو رہی ہیں؟

جس پر جنرل کوریلا نے کہا کہ جہاں تک داعش خراسان کا تعلق ہے، انھیں گذشتہ چند مہینوں میں بہت شدید نقصان پہنچا ہے۔ ’میں کہوں گا کہ اس وقت وہ کمزور ہیں۔‘

’ہمیں جو معلومات تفتیش اور برآمد شدہ مواد سے مل رہی ہیں، وہ خاصی اہم ہیں۔ لیکن ِخیال رہے کہ یہی لوگ ماسکو کے ’کروکس میوزک سٹی ہال‘ حملے کے پیچھے تھے، انھوں نے ایران کے شہر کرمان میں حملہ کیا اور دیگر حملوں کی کوششیں بھی کیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’خفیہ بریفنگ میں میں یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ ان کا امریکہ کے اندر بھی روابط اور خطرات سے تعلق ہے۔‘

جنرل کوریلا کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان اور انڈیا دونوں کے ساتھ تعلقات کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ کوئی ایسی صورتحال نہیں ہے کہ اگر پاکستان سے تعلق ہو تو انڈیا سے نہیں ہو سکتا۔ ہمیں دونوں کے ساتھ میرٹ پر تعلقات قائم کرتے ہوئے ہر ملک کے ساتھ تعلق کو اس کے فوائد اور مثبت پہلوؤں کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے، نہ کہ کسی ایک کے حق میں دوسرے کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جائے۔‘

جہاں پاکستان میں جنرل مائیکل کوریلا کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کوششوں کی تعریف کو اہم سفارتی تائید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب انڈین سوشل میڈیا پر امریکہ اور مودی حکومت کو اس موقف پر شدید تنقید کا سامنا ہے جسے بعض تجزیہ کار خطے میں بدلتی ہوئی تزویراتی ترجیحات سے تعبیر کر رہے ہیں۔

کانگریس کے جیرام رمیش نے ایکس پر لکھا ’امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے ابھی پاکستان کو 'انسداد دہشت گردی میں ایک شاندار شراکت دار' قرار دیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اور ان کے حامی اس بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا یہ سفارتی سطح پر ایک دھچکا نہیں؟‘

کئی انڈین صارفین نے تبصرہ کیا ہے کہ ’اسی لیے انڈیا، امریکہ پر اعتبار نہیں کرتا۔ اور اسے اب روس کے ساتھ تعلقات مزید بہتر کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔‘

مشرقِ وسطیٰ سے افغانستان تک: امریکی جنرل کے کیرئیر پر ایک نظر

جنرل مائیکل ’ایرک‘ کوریلا کا تعلق امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر ایلیک ریور سے ہے۔

انھوں نے ایرو سپیس انجینئرنگ میں بی ایس، بزنس ایڈمنسٹریشن میں ایم بی اے اور نیشنل سکیورٹی سٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

سینٹ کام کی ویب سائٹ کے مطابق وہ 1988 میں ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی سے امریکی فوج میں شامل ہوئے۔

اپنے 30 سالہ کیریئر میں انھوں نے دنیا کے کئی اہم جنگی علاقوں میں خدمات انجام دیں جن میں پانامہ، عراق، افغانستان، بوسنیا، کوسوو اور شام شامل ہیں۔

انھوں نے زمینی جنگوں میں حصہ لینے والی خصوصی فورسز جیسے ایئر بورن، رینجر، سٹرائیکر اور سپیشل آپریشنز یونٹس کی قیادت کی۔ سنہ 2004 سے سنہ 2014 تک وہ مسلسل مشرقِ وسطیٰ کے مختلف جنگی علاقوں میں تعینات رہے۔

جنرل کوریلا نے امریکی فوج کے کئی بڑے یونٹس کی کمان کی ہے جن میں 75 ویں رینجر رجمنٹ، 82 ویں ایئر بورن ڈویژن، اور XVIII ایئر بورن کور شامل ہیں۔

اس کے علاوہ وہ امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے چیف آف سٹاف بھی رہ چکے ہیں۔

انھیں اعلیٰ فوجی اعزازات سے نوازا گیا ہے جن میں پرپل ہارٹ (زخمی ہونے پر دیا جانے والا اعزاز)، رینجر ٹیَب، اور کامبیٹ انفنٹری مین بیج شامل ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.