آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے 2000 سال پرانی دیواروں کے پلستر کے ہزاروں ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک شاندار رومن ولا کی خوبصورت دیواروں کو دنیا کے سامنے حسین روپ دے کر دوبارہلا کر کھڑا کر دیا ہے۔
یہ فن پارے اس علاقے کی دولت اور شان و شوکت کو ظاہر کرتے ہیںآثارِ قدیمہ کے ماہرین نے 2000 سال پرانی دیواروں کے پلستر کے ہزاروں ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک شاندار رومن ولا کی خوبصورت دیواروں کو دنیا کے سامنے حسین روپ دے کر دوبارہلا کر کھڑا کر دیا ہے۔
پلستر کے یہ بکھرے ٹکڑے 2021 میں وسطی لندن کے ایک مقام پر دریافت ہوئے تھے جہاں نئی تعمیرات جاری تھیں۔ مگر اس ’دیوہیکل جیگسو پزل‘ کو مکمل کرنے میں انھیں اتنا وقت لگا۔
یہ تصویریں کم از کم 20 مختلف دیواروں کی ہیں جن پر نہایت خوبصورتی سے آلات موسیقی، پرندے، پھول اور پھل بنائے گئے ہیں۔
یہ فن پارے اس علاقے کی دولت اور شان و شوکت کو ظاہر کرتے ہیںجسے ماہرین نے ’رومن لندن کا بیورلی ہلز‘ قرار دیا ہے۔
پلستر کے یہ بکھرے ٹکڑے 2021 میں وسطی لندن کے ایک مقام پر دریافت ہوئے تھے جہاں نئی تعمیرات جاری تھیں
یہ پینٹنگ ولا کی ایک دیوار پر ہے ایسی کم از کم 19 دیگر ہیںاس دوران ماہرین کو تصاویر بنانے والے فنکاروں کے بارے میں بھی کچھ اشارے ملے ہیں۔ ایسے ہی ایک ٹکڑے پر لاطینی لفظفیسٹ ’Fecit‘ کندہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس نے بنایا۔۔۔ مگر افسوس کہ اس آرٹسٹ کے نام والا حصہ غائب ہے۔
میوزیم آف لندن آرکیالوجی کی ٹیم پُرامید ہے کہ جب وہ باقی ماندہ ٹکڑوں کا باریک بینی سے جائزہ لیں گے تو شاید انھیں نام کا وہ اہم ٹکڑا بھی مل جائے۔
میوزیم آف لندن آرکیالوجی سے وابستہ ہان لی کہتے ہیں کہ ’یہ رومن لندن میں دیواروں کے پلستر اور پینٹنگز کا سب سے بڑا، یا کم از کم ان میں سے ایک بڑا ذخیرہ ہے جو ہمیں آج تک ملا ہے۔‘
فریسکو کا سب سے بڑا ٹکڑا تقریباً پانچ میٹر بائے تین میٹر ہے جس کا نچلا حصہ ہلکے گلابی رنگ کا ہےفریسکو کا سب سے بڑا ٹکڑا تقریباً پانچ میٹر لمبا اور تین میٹر چوڑا ہے جس کا نچلا حصہ ہلکے گلابی رنگ کا ہے اوراس پر ماربل کی مشابہت دینے کے لیے رنگ کے چھوٹے چھوٹے نشان لگائے گئے ہیں۔ اس کے اوپر شوخ پیلے رنگ کے پینلز ہیں جن کے کناروں پر ہلکا سبز رنگ ہے۔
ان دیواروں کو فانوسوں، سازوں، سفید سارس، پرندوں اور خوبصورت گل داؤدیسے آراستہ کیا گیا ہے۔
ایک تصویر میں انگور کے خوشے کی مانند کچھ نظر آتا ہے، لیکن ماہرین نباتات کا خیال ہے کہ یہ دراصل ایک مقامی پودا ہے جس کا نام مسٹل ٹو ہے۔
ہان لی کہتے ہیں کہ ’یہ میرے لیے واقعی دلچسپ ہے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رومن مصور کلاسیکی انداز اپناتے ہوئے بھی مقامی شمال مغربی یورپی اثرات کو شامل کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ شاندار ہے۔‘
رومنز نے سن عیسوی 43 میں لندن کی بنیاد رکھی تھیانھوں نے کئی برس پلستر کے ٹکڑوں کے ساتھ گزارے، ہر ٹکڑے کا انتہائی غور سے معائنہ کیا اور ایک ایسی چیز مکمل کی جسے وہ 'دنیا کا سب سے مشکل جیگسو پزل‘ قرار دیتے ہیں۔
ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان قدیم ٹکڑوں کی نزاکت کو مدِنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کو بہت دھیان رکھنا پڑتا ہے کیونکہ ان ٹکڑوں کو آپ صرف کچھ ہی مرتبہ جوڑ سکتے ہیں ورنہ یہ ٹوٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔‘
’ہر ٹکڑے کو ایک ساتھ جوڑنے سے قبل آپ کو اطمینان سے سوچنا ہوتا ہے کہ یہ تمام ٹکڑے ایک ساتھ جوڑے جا سکتے ہیں یا نہیں۔‘
ہان لی کہتے ہیں کہ 'یہ سوچ کر خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ان کا کام دو ہزار برس بعد ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے'رومنز نے سن عیسوی 43 میں لندن کی بنیاد رکھی تھی اور یہ ولا اس کے فوراً بعد بنا تھا، یہ شاید پہلی یا دوسری صدی کی بات ہے جب نیا شہر بہت تیزی سے بن رہا تھا۔
ماہرینِ آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ شایہ یہ بڑی عمارت کسی امیر خاندان کا گھر تھی یا پھر امیر مسافروں کے لیے بنایا گیا ایک ہوٹل۔
وہ ان فریسکوز کا برطانیہ اور یورپ میں ملنے والے دیگر فریسکوز سے موازنہ کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ تمام فریسکوز باصلاحیت اور ہنرمند پینٹرز کے ایک ہی گروہ نے پوری رومن سلطنت میں بنائے تھے۔
ہان لی کہتے ہیں کہ ’وہ رومن لندن میں آئے تھے جہاں عمارتیں بنانے کا رجحان بڑھ رہا تھا، بہت سارے گھر بنائے جا رہے تھے، عمارتیں بنائی جا رہی تھیں اور انھیں رنگ و روغن کی ضرورت تھی۔ وہ وہیں کام کرتے رہتے تھے اور کام کی اچھی اُجرت بھی لیتے تھے۔‘
’یہ سوچ کر خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ان کا کام دو ہزار برس بعد ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے۔‘
تمام ان باصلاحیت پینٹرز کے نام اس وقت تک ایک معمہ بنے رہیں گے جب تک وہ بڑا ٹکڑا نہیں مل جاتا جس پر ان سب کے نام موجود ہیں۔
ہان لی نے کئی برس پلستر کے ٹکڑوں کے ساتھ گزارے ہیںیہ پلستر ساؤتھ وارک کے علاقے سے دریافت ہوا تھا۔ اسی مقام پر کھدائی کے دوران ایک رومن قبرستان بھی دریافت ہوا تھا۔
یہ مقام رومن لندن کے وسطی علاقے سے باہر موجود ہے اور اسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں یہ شہر کس طرح آگے بڑھ رہا تھا۔
اینڈریو ہینڈرسن کہتے ہیں کہ ’رومن زمانے میں یہاں ایک تیزی سے نشو و نما پاتی اور آگے بڑھتی ہوئی بستی موجود تھی۔ یہ ایسی تھی جیسے امرا کے علاقے ہوتے ہیں، یہ کہہ لیجیے کہ یہ علاقہ رومن لندن کا بیورلی ہلز تھا۔‘
’اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رومنز لندن کے ساتھ لگاؤ رکھتے تھے۔ وہ لندن میں سرمایہ کاری کر رہے تھے اور اسے ایک علاقہ سمجھتے تھے جہاں رہائش اختیار کی جا سکتی تھی۔‘
ابھی فریسکو کے ٹکڑوں سے مزید معلومات حاصل کی جا سکتی ہے اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ ان کی مدد دے برطانیہ کے رومن لندن کی تاریخ ایک مرتبہ پھر سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔