عامر خان کے کندھوں پر نہ صرف ایک فلم کا بوجھ ہے بلکہ ایک ٹرینڈ سیٹر کے طور پر ان کی برسوں کی ساکھ اور امیج کا بھی دباؤ ہے۔ ایسے میں کیا عامر کا یہ قدم بالی وڈ کے مستقبل کو کوئی نئی سمت دے گا یا یہ ان کے کیریئر کے سب سے بڑے جوئے میں بدل جائے گا؟

تین سال کی طویل خاموشی کے بعد عامر خان جمعہ کو بڑے پردے پر واپس آرہے ہیں۔ ان کی نئی فلم ’ستارے زمین پر‘ کو ان کی ’کم بیک‘ فلم کہا جا رہا ہے۔
تاہم ممبئی فلم انڈسٹری میں یہ سوال بہت زیر بحث ہے کہ کیا 60 سالہ عامر خان ایک بلاک بسٹر فلم سے واپسی کر پائیں گے جیسا کہ شاہ رخ خان نے دو سال قبل ’پٹھان‘ کے ذریعے کیا تھا؟
اس موازنہ کے پیچھے ایک ٹھوس وجہ ہے۔ عامر کی طرح بالی وڈ سپر سٹار شاہ رخ خان کی شہرت کچھ سال قبل بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ ان کی فلم ’فین‘، ’جب ہیری میٹ سیجل‘ اور ’زیرو‘ جیسی بڑی فلمیں باکس آفس پر بری طرح فلاپ ہوئی تھیں۔
اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عامر کی آخری ہٹ فلم ’دنگل‘ نو سال قبل ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد دو بڑی فلمیں، ’ٹھگز آف ہندوستان‘ اور ’لال سنگھ چڈھا‘ باکس آفس پر فلاپ ہوئیں اور عامر کے فلمی کیریئر پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔
خاص طور پر ’لال سنگھ چڈھا‘ کی ناکامی، جسے انھوں نے پروڈیوس بھی کیا تھا، نے عامر خان کو نہ صرف تجارتی بلکہ ذہنی اور جذباتی طور پر بھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔
حال ہی میں انھوں نے اپنے کئی انٹرویوز میں کہا ہے کہ اس ناکامی کے بعد انھیں ڈپریشن ہوا اور انھوں نے فلمیں چھوڑنے کا بھی سوچا۔
’لال سنگھ چڈھا‘ کی ناکامی نے عامر خان کو نہ صرف تجارتی بلکہ ذہنی اور جذباتی طور پر بھی ہلا کر رکھ دیا تھاعامر نے ماضی میں بھی ان حالات کا سامنا کیا
عامر خان نے بالی وڈ میں بطور ہیرو ڈیبیو 1988 کی بلاک بسٹر فلم ’قیامت سے قیامت تک‘ سے کیا تھا۔ ان کا تعلق ایک فلمی گھرانے سے ہے۔
ان کے والد طاہر حسین ایک فلم پروڈیوسر تھے اور چچا ناصر حسین ایک کامیاب سکرین رائٹر، پروڈیوسر اور ہدایت کار تھے۔
لیکن ’قیامت سے قیامت تک‘ سے راتوں رات سٹار بننے والے عامر کی اگلی کئی فلمیں بری طرح فلاپ ہوئی تھیں۔
اس کے بعد انھوں نے بلاک بسٹر فلم ’دل‘ سے فملی دنیا میں واپسی کی۔ آنے والے سالوں میں، وہ ہٹ اور فلاپ کے سفر سے گزرے اور ’راجہ ہندوستانی‘، ’رنگیلا‘، ’غلام‘ اور ’سرفروش‘ جیسی کامیاب فلموں کے ذریعے ایک بڑے سٹار بنے۔
’لگان‘ کے بعد عامر ٹرینڈ سیٹر بن گئے
’لگان‘ کے بعد عامر نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایک وقت میں صرف ایک فلم پر توجہ مرکوز کریں گےسنہ 2001 میں فلم ’لگان‘ اور ’دل چاہتا ہے‘ کی کامیابی کے بعد عامر خان نے بالی وڈ میں بالکل مختلف راستے کا انتخاب کیا جبکہ ان کے ہم عصر بالی وڈ فنکار شاہ رخ، سلمان، اکشے کمار ایک سال میں متعدد فلمیں سائن کر رہے تھے۔
عامر نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک وقت میں صرف ایک فلم پر توجہ مرکوز کریں گے۔ اس حکمت عملی کو لے کر اس وقت فلم انڈسٹری میں کئی سوالات اٹھائے گئے تھے لیکن عامر اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔
اگلے چار سال تک انھوں نے کیتن مہتا کی فلم ’منگل پانڈے دی رائزنگ‘ میں اپنا سب کچھ لگا دیا۔ لیکن 2005 میں ریلیز ہونے والی منگل پانڈے فلاپ ہوگئی۔ یہ ناکامی عامر خان کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ عامر کو ’راجہ ہندوستانی‘ یا ’عشق‘ جیسی مسالہ فلمیں ہی کرنی چاہیے۔
عامر کی اگلی فلم ’رنگ دے بسنتی‘ بھی بالی وڈ کی عام مسالہ فلموں سے مختلف تھی۔ لیکن یہ تجربہ کامیاب رہا۔ فلم ہٹ رہی اور اس کے بعد عامر نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
فنا، گجنی، دھوم تھری جیسی بڑی ہٹ فلمیں آئیں، اسی طرح تارے زمین پر، پیپلی لائیو اور دہلی بیلی جیسی تجرباتی فلمیں آئیں۔ ان تمام فلموں میں ایک ہی مماثلت تھی کہ یہ تمام فلمیں ہٹ ہوئیں۔
ہر بار ایک الگ کہانی، مضبوط سکرپٹ اور رسک لینے کی ہمت عامر کی خاصیت تھی۔ اس کے بعد ان کے کیریئر کی سب سے بڑی بلاک بسٹر آئیں: تھری ایڈیٹس، پی کے، اور دنگل۔ ان سے عامر کی باکس آفس پر ناقابل شکست سٹار اور ’مسٹر پرفیکشنسٹ‘ کے طور پر شناخت بنی۔
عامر خان نے کمائی میں بھی معیار قائم کیا
عامر کی فلم ’گجنی‘ انڈیا میں 100 کروڑ کمانے والی پہلی فلم تھی، پھر ’تھری ایڈیٹس‘ 200 کروڑ کمانے والی پہلی فلم بنی اور ’پی کے‘ نے 300 کروڑ کلب کی شروعات کیآج بالی وڈ میں ’100 کروڑ کلب‘ کو کسی بھی کامیاب فلم کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ عامر کی فلم گجنی انڈیا میں 100 کروڑ کمانے والی پہلی فلم تھی، پھر تھری ایڈیٹس 200 کروڑ کمانے والی پہلی فلم بنی اور پی کے نے 300 کروڑ کلب کی شروعات کی۔
ان کامیابیوں کے پیچھے ایک اور چیز تھی۔ فلم کی تشہیر اور مارکیٹنگ میں عامر کی مہارت۔ وہ نہ صرف سکرپٹ کے انتخاب میں ماہر ہیں بلکہ وہ ہر فلم کو بیچنا بھی جانتے ہیں۔
فلم گجنی میں انھوں نے نہ صرف گنجے سر کے انداز کو اپنایا بلکہ کئی شہروں میں فلم کی تشہیر کے لیے شائقین کے بال خود بھی کٹوائے، جس سے اس وقت فلم کی خوب دھوم مچی اور پھر ’تھری ایڈیٹس‘ کے لیے وہ ایک عام طالب علم کی طرح کالج کیمپس میں گھومتے نظر آئے اسی طرح ’پی کے‘ کی تشہیر کے لیے وہ ریڈیو جوکی بن گئے۔
عامر کا ماننا ہے کہ فلم صرف نہیں بنتی، محسوس بھی ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ایک دہائی پہلے تک ہی کام کرتا تھا۔
پچھلے کچھ سالوں میں انڈین فلم انڈسٹری میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ان سالوں میں صرف چند فلمیں بڑی ہٹ ہوئیں۔
شاہ رخ، سلمان اور عامر کا شمار کئی دہائیوں سے بالی وڈ کے بااثر چہروں میں ہوتا تھا۔ لیکن وقت کا پہیہ پلٹ چکا ہے۔
شاہ رخ نے پٹھان اور جوان کے ساتھ واپسی کی جبکہ سلمان کی پچھلی تین فلمیں توقعات پر پورا نہیں اتریں اور عامر نو سال سے کامیابی کی تلاش میں ہیں۔ اور اس عرصے کے دوران پرفیکشن اور ’معیاری سینما‘ سے جڑی ان کی تصویر لرزتی ہوئی نظر آئی۔
عامر خان کی پروموشن کی حکمت عملی

فلم کی تشہیر کے طریقے بھی بدل گئے ہیں۔ اس سے پہلے تقریباً تمام بڑے سٹار اپنی فلموں کی بڑے پیمانے پر تشہیر کے لیے ٹی وی سٹوڈیوز اور اخبارات کے دفاتر جاتے تھے لیکن اب اس طرح کی پروموشن میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔
کووڈ کے بعد، کم از کم بالی وڈ کے بڑے سٹارز نے اس طرح کے پروموشنل انٹرویوز دینا تقریباً بند کر دیا تھا۔ اب عام طور پر سوال و جواب کا معاملہ ٹریلر لانچ میں ہی نمٹ جاتا ہے۔
شاہ رخ خان نے ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ کے لیے کسی ٹی وی چینل یا اخبار کو کوئی انٹرویو نہیں دیا۔ انھوں نے صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ’آسک می اینی تھنگ‘ یعنی ’مجھ سے کچھ بھی پوچھیں‘ کے ذریعے تمام پروموشن کو سنبھالا۔
عامر پروموشن میں ماہر رہے ہیں لیکن ’ستارے زمین پر‘ کے لیے وہ ضرورت سے زیادہ کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ گویا ان پر کسی بھی قیمت پر اس فلم کو ہٹ بنانے کا دباؤ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایکشن فلموں کے دور میں وہ بالکل مختلف قسم کی فلم لے کر آ رہے ہیں۔
پچھلے کئی ہفتوں سے، عامر خان سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والے بہت سے لوگوں، آن لائن چینلز، ٹی وی چینلز اور اخبارات کو طویل انٹرویو دے رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے انٹرویوز ایک گھنٹے سے زیادہ طویل ہوتے ہیں۔
ان تمام انٹرویوز میں عامر نہ صرف لال سنگھ چڈھا کی ناکامی، او ٹی ٹی پلیٹ فارم کے باعث سینیما تھیٹرز کے کاروبار کو نقصان جیسے معاملات کے بارے میں بات کر رہے ہیں بلکہ وہ اپنی ذاتی زندگی کے پہلوؤں کے بارے میں بھی کھل کر بات کر رہے ہیں۔
دو طلاقیں، شراب کی لت، ڈپریشن، بچوں اور خاندان کو وقت نہ دینے کا افسوس اور اپنی نئی ساتھی گوری کے ذکر سے لے کر پرانی باتوں تک۔ کئی مقامات پر وہ کیمرے کے سامنے جذباتی بھی ہوئے اور آنسو بھی بہائے۔
جب کوئی بڑا سٹار اس طرح اتنی ایمانداری سے اپنے آپ کو کھولتا ہے، کیمرے پر اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتا ہے، تو یقیناً یہ سب چیزیں اس سٹار کے اندر کے انسان کو ظاہر کر دیتی ہیں۔
لیکن جب ایک ہی بات کو بار بار، مختلف پلیٹ فارمز پر مسلسل دہرایا جاتا ہے، تب یہ تشہیر کی حکمت عملی پرانی اور دکھاوا لگنے لگتی ہے۔
فلم انڈسٹری میں یہ چرچا ہے کہ کیا ضرورت سے زیادہ کوششیں عامر خان کی پروموشن کو ’پرفیکشن‘ کی بجائے ’اوور کِل‘ کی طرف تو نہیں دھکیل رہی ہیں؟
عامر خان کا بڑا داؤ

عامر خان نے حال ہی میں ایک اور فیصلہ لیا ہے۔ دراصل عامر کہہ رہے ہیں کہ او ٹی ٹی کا فلموں کے تھیٹر بزنس پر بہت برا اثر پڑا ہے۔
عام طور پر، رجحان یہ ہے کہ زیادہ تر بڑے بجٹ کی فلمیں تھیٹر کی ریلیز کے آٹھ ہفتوں کے اندر او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر آ جاتی ہیں۔
انڈیا کی میڈیا اینڈ انٹرٹینمنٹ رپورٹ 2025 کے مطابق، ملک کی 18,700 کروڑ روپے کی فلم انٹرٹینمنٹ مارکیٹ اس وقت ایک نازک مرحلے سے گزر رہی ہے۔
سنیما ہالوں کی کمائی 2023 میں 12,000 کروڑ روپے تھی جو 2024 میں کم ہو کر 11,400 کروڑ روپے رہ گئی۔
عامر نے ایسے میں ایک بڑا جوا کھیل کر ان حالات کو بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، انھوں نے فلم ’ستارے زمین پر‘ کے لیے تقریباً 120 کروڑ روپے کی او ٹی ٹی پلیٹ فارم کی ڈیل کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ فلم کے تھیٹر میں ریلیز ہونے کے کم از کم چھ ماہ بعد او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ریلیز کیا جائے تاکہ ناظرین زیادہ سے زیادہ تعداد میں سینما گھروں میں واپس آئیں۔
عامر خان کی تشویش جائز ہے اور اس سے قبل بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ کئی معروف شخصیات اس بات کا اظہار کر چکی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر فلموں کی دستیابی کی وجہ سے شائقین کے سینما ہال جانے کی کوئی خاص وجہ نہیں رہ جاتی ہے۔ تھیٹر میں فلمیں دیکھنے والے سامعین اور گھر میں فلمیں دیکھنے والوں کے درمیان واضح فرق برقرار رکھنے کے لیے اتنا وقت ضروری ہے۔
عامر خان پیچھے تو نہیں ہٹیں گے؟
شاہ رخ خان او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر الزام لگائے بغیر اپنے مداحوں کو سال میں دو بار سینما گھروں میں لانے میں کامیاب رہے ہیں۔
اجے دیوگن اپنی فلموں شیطان اور ریڈ، راجکمار راؤاپنی فلم استری ٹو، کارتک آریان فلم بھول بھولیاں 3، اللو ارجن فلم پشپا 1 اور 2 اور پربھاس اپنی فلم کالکی میں بھی فلم بینوں کو سینما ہال تک کھینچ لائے۔
پھر بڑا سوال یہ ہے کہ جو لوگ کئی سال سے او ٹی ٹی پر نئی فلمیں گھر بیٹھے دیکھنے کے عادی ہیں کیا وہ واقعی سینما گھروں میں جائیں گے یا صرف چھ ماہ تک انتظار کریں گے؟
سوچیں کیا کوئی سمارٹ فون سے پرانے طرز کے فون پر جانا چاہے گا؟ ایک بار جب آپ نئی چیزوں کے عادی ہو جائیں تو اکثر واپس جانا مشکل ہو جاتا ہے۔
عامر خان کے کندھوں پر نہ صرف ایک فلم کا بوجھ ہے بلکہ ایک ٹرینڈ سیٹر کے طور پر ان کی برسوں کی ساکھ اور امیج کا بھی دباؤ ہے۔
ایسے میں کیا عامر کا یہ قدم بالی وڈ کے مستقبل کو کوئی نئی سمت دے گا یا یہ ان کے کیریئر کے سب سے بڑے جوئے میں بدل جائے گا؟